آپ کو طبیعت کی گرانی نہیں۔ ملک میں اس گرمی گرانی کے دور میں دو باتیں یاد آئیں۔ ایک تو زرداری صاحب کی دو نئی کوٹھیاں خریدنا اور دوسرے غلام محمد قاصر کی نظم کا ایک ٹکڑا۔
’’خدا کے آفس میں دوپہر کو/ فرشتے سروس بکسں اٹھائے ہوئے کھڑے تھے کہ ہر ملازم کی سیلری، دوتہائی تخفیف چاہتی ہے/ تباہیوں کی ہر ایک فائل/ کہ جس میں سیلاب، زلزلوں، قحط اور وباؤں کے کیس سیٹ اپ تھے/ انیشیل بس انہی کی منتظر تھیں/ مفاد عامہ کے سیکشنوں میں/ کلرک میزوں پہ سو رہے تھے۔‘‘
گرانی کے اس دور میں کئی بار ایاز امیر کو سمجھایا، بھینس کے آگے بین نہیں بجاتے مگر وہ تو نوکریوں میں بھی ایڈونچرز کرتا رہا اور بڑھاپے میں علی الاعلان جوانی کے پنگے لینے سے باز نہیں آ رہا۔ حالانکہ حامد میر سے لیکر طلعت حسین، سب ایک ہی صف میں کھڑے تھے۔ ان میں کوئی محمود نہیں تھا۔ سب کے سب ایاز تھے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ بہاولپور میں آپریشن ہو، نوجوان کو پولیس گھر سے اٹھا کر لے جائے تو ظاہر ہے قصور تو اس نوجوان ہی کا ہوگا۔ ہماری پولیس کو تو کئی بار نیک نامی اور بہادری کے تمغے دیے جا چکے ہیں۔ میری بات کا یقین نہیں تو چلیں سندھ میں موجود ڈاکوؤں سے پوچھ لیں۔ آدھے سے زیادہ پولیس والے دن میں یونیفارم میں ملبوس ہوتے ہیں اور رات کو ڈاکوؤں کی مدد کرتے ہیں۔ کیا کریں سرکاری تنخواہوں میں پورا نہیں پڑتا۔
پرانے یعنی بزرگ دانشوروں اور اداکاروں کو کوئی کیوں پوچھے۔ وہ اپنے حصے کا سرمایہ ایجنٹوں کے ذریعہ مدح شاہ اور نمائندے بن کر حاصل نہ کر سکے کہ ان کی اپنی کم حوصلگی اور کم مائیگی تھی، ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا۔ ویسے بھی اکیڈمی بے چاری بھی کیا کرے، اسے تین ماہ کے لئے تیرہ ہزار روپے بطور معذور ادیب وظیفہ اور وہ بھی جو بڑھ کر اٹھالے یعنی مانگ لے، بس وہی اس پیسے کو تین ماہ میں زہرہ آپا کی ’’نرم ملائم سمجھوتے کی چادر‘‘ تفہیم کرے کہ اگر بچھا لو گے تو کیا فائدہ ہوگا اور اوڑھ لو گے تو کتنے سکھ میں رہو گے۔ ہمارے پاس تو یہی چورن ہے اسے فیض کے نام سے، بھٹو یا قائداعظم کے نام سے بیچو بھی اور کھائو بھی۔ پھر کیا ہوگا۔ کچھ نہیں بدلے گا۔ بس ہم اس چورن کے عادی ہو جائیں گے۔ تمہاری مزید تسلی کے لئے تمہارے سامنے میں سوکھی روٹیوں کا وہ چھابہ لاکے رکھ دوں گی جو معصوم افغان عوام کو کھلا رہے ہیں اور اسلام کے نام کی سربلندی کی قسم کھا کرطنطنے سے ساری دنیا کو بتا رہے ہیں کہ جو اسلام ہم نافذ کر رہے ہیں، وہی اصلی ہے۔ ویسے اس وقت قابلِ رحم شکل تو رات کو ساڑھے گیارہ بجے یہ اعلان کرتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل کی نظر آ رہی تھی کہ پیٹرول کی قیمت ایک بار پھر بڑھا دی ہے، ساتھ ہی یہ لطیفہ نما فقرہ بھی کہا، ’’اب میں آپ کو اور نظر نہیں آئوں گا۔‘‘ لطف کی بات یہ ہے کہ ’’بجٹ پیش کرکے، سب کی طعن آمیز گفتگو سن کر بے مزہ نہ ہوئے اور بڑے فخر سے ارشاد فرمایا۔ ’’میں تو غریبوں کے لئے کچھ کرنے آیا تھا۔‘‘
پاکستان کے سارے غریب بہت مظلوم ہیں۔ شاعروں نے بھی اس کو موضوع بنا کر نظیر اکبر آبادی، احسان دانش، حبیب جالب اور تو اور فیض صاحب نے بھی غریبوں کو مخاطب کرنے کے بعد، آنکھیں کھول کر کہا ’’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ۔‘‘ مجھے تو اب عدالتیں بھی بہت مظلوم نظر آ رہی ہیں کہ ہر ایک سیاست دان ہر فیصلے پر عدالت سے یہ کہتا ہوا نکلتا ہے ’’قانون اور انصاف کی فتح ہوئی۔‘‘ ان سب نے مل کر پارلیمنٹ کو بے معنی ادارہ بنا دیا ہے۔ لگتا تو اب یہ ہے کہ نابالغوں کے ہاتھ میں کھلونا ایٹم بم دے دیا ہے کوئی بھی بات ہو جائے ’’چل مرے گھوڑے،عدلِ جہانگیری کی گھنٹی بجا اور ہمارے مصنف بھی تو شاید رقیق القلب ہو گئے ہیں، جب کہتے ہیں ’’عمران صاحب کی مرضی پوچھ لیں۔‘‘ ترس کس کس پر آتا اور غصہ کس پر آتا ہے۔ زندگی نے مہلت دی تو پھر بتائوں گی کہ جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے ہوں۔ وہاں میں کس گنتی میں ہوں۔
کیلنڈر بڑا ظالم ہوتا ہے۔ پھر یاد دلا رہا ہے کہ 5جولائی کو بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تھی۔ ستم یہ ہے کہ اس آمر نے اگلے دن دفتر جاتے ہوئے جیل کے باہر گاڑی رکوا کر فاتحہ پڑھی تھی جب کہ اس منحوس رات وہ مصلے پر بیٹھا اپنے منحوس احکامات کی تکمیل کی دعا کر رہا تھا، کاش ہمارے سیاست دان پڑھے لکھے ہوتے تو تاریخ میں سے وہ سب کالے منھے نکالتے جب جب انگریزوں نے محبِ وطن ہندوستان کی تحریک آزادی کے متوالوں کو چن چن کر پھانسیاں دی تھیں۔ انگریز کی خباثت کو بیان کرنے کےلئے تو جلیانوالہ باغ کی خوں آشام دن کی شقادت کو بیان کیا جائے تو آج بھی لوگ روپڑیں مگر بھٹو صاحب کی پھانسی کے اگلے دن ساری دنیا رو رہی تھی اور ماتم کرنے والوں کو کوڑے لگ رہے تھے۔ مگر ’’جن پہ تکیہ تھا‘‘، ان کے بارے میں بھٹو صاحب کو پہلے ہی خبر تھی۔ اس لئے اس بہادر شخص نے تختہ دار کو قبول کیا تھا۔ بےنظیر کا قتل تو دن دیہاڑے ہوا تھا۔ آگے نہیں کچھ کہنا۔ جہاں تاریخ کی گواہی موجود ہو، وہاں کچھ کہنے کا فائدہ۔
سیاست میں تھوک سے پکوڑے تلے جا رہے ہیں۔ علامہ اقبال بھی ایسے ہی کہہ گئے ’’آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی، اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی۔‘‘ خود تو چلے گئے اور ہمیں اپنی شاعری پڑھنے اور شرمندہ ہونے کو چھوڑ گئے۔ ان سے غالب بہت حق گو تھاجس نے طالبان جیسے مسلمان دیکھ کر کہا تھا،‘‘ آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے۔ ’’مسلسل دنیا سے مدد فنڈ مانگ رہے ہیں۔ جب کہا جاتا ہے عورتوں پر سے پابندیاں ہٹاؤ تو جواباً کہتے ہیں سوچیں گے۔‘‘ مغرب میں جتنی دری اور افغانی زبان کی خواتین کی شاعری کی کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ ان پہ کیا اثر۔’’ چکنے گڑھے پہ بوند پڑے، کھسک جائے محاورے اور شعر نہ ہوں، تو ہم بھی ایاز امیر کی طرح بول پڑیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ