ملی بقا کا انقلاب آفریں دستور العمل۔۔۔تحریر الطاف حسن قریشی


حضرت شاہ وَلی اللہ کی فکری فراست کی بدولت مرہٹوں کا زور ٹوٹ گیا تھا۔ وہ اَپنے عہد کے بہت بڑے منصوبہ ساز تھے۔ اُنہوں نے احمد شاہ اَبدالی سے بروقت امداد طلب کر کے شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کو مکمل تباہی سے بچا لیا تھا اور اِسی دوران مسلمانوں کی زبوں حالی کے حقیقی اسباب و علل بھی دریافت کر لیے تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اُنہیں سوچنے سمجھنے اور مؤثر حکمتِ عملی اختیار کرنے کی بےپناہ صلاحیتیں ودیعت فرمائی تھیں۔ وہ گہرے غور و فکر کے بعد اِس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مسلمانوں کی ابتری کی بنیادی وجہ اُن کی اسلام سے دوری اور قرآن سے ناواقفیت ہے۔ برِصغیر کے مسلمان اتنی عربی نہیں جانتے تھے کہ وہ قرآن کو براہِ راست سمجھ سکیں جبکہ مسلم ملکوں میں قرآن کے ترجمے پر سخت پابندی تھی، کیونکہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ قرآن کا ترجمہ گمراہی پھیلانے کا باعث بنے گا۔ حضرت شاہ وَلی اللہ پورے عالمِ اسلام میں پہلے مذہبی پیشوا تھے جنہوں نے قرآنِ حکیم کا فارسی میں ترجمہ کیا جسے پورے برِصغیر میں تعلیم یافتہ مسلمان بخوبی سمجھتے اور اُسی میں کاروبارِ حکومت چلاتے رہے تھے، چنانچہ فارسی زبان میں ترجمہ قرآن فہمی میں بہت مددگار ثابت ہوا۔ بعدازاں اُن کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیزؒ نے قرآن کا اردو میں بھی ترجمہ کیا۔ اِس طرح تعلیم یافتہ طبقے قرآن کی تعلیمات اور ہدایات سے آگاہ ہوتے گئے اور اُن پر غور کرنے لگے اور اِس کے نتیجے میں اجتہاد کا بند دَروازہ بھی بتدریج کھلتا گیا۔ بدقسمتی سے قرآن کی تشریح و تفسیر میں ایک ایسی روش چل نکل تھی جو اِس کی ازلی اور اَبدی اقدار اَور اِس کی عالمگیر رہنمائی کا خزانہ محدود کرنے کا باعث بن رہی تھی۔ مفسرین سورتوں اور آیات کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے اُن کی وسعت کو محدود کر دیتے۔ اِس کے علاوہ اَکثر یہودیوں اور نصرانیوں کے قصّے کہانیاں بھی تحقیق کے بغیر تفسیر میں شامل کر ڈالتے جو قرآن کے بلند مقاصد تک پہنچنے میں حائل رہتے تھے۔ شاہ صاحبؒ نے اپنی تصنیف ’فوز الکبیر‘ میں قرآن کی تفسیر کے اصول بڑی عرق ریزی سے وضع کیے۔ اُن کا موقف تھا کہ تفسیر میں ضرورت سے زیادہ سختی اور شدت سے قرآن کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، اِس لیے مذہبی احکام کی تفسیر نرمی کے ساتھ کی جائے اور تشریح میں مشکل سورتوں کے بجائے آسان سورتوں کو ترجیح دی جائے۔ اُن کا یہ استدلال اُن کے اُس عام طرزِعمل کے عین مطابق تھا جو اِعتدال، توازن اور صلح جوئی پر مبنی تھا۔ اُن کے لائحہ عمل میں قلیل المعیاد سیاسی تدابیر کی طرح بعض فوری معاشرتی اصلاحات بھی شامل تھیں جنہیں مسلمانوں کے طریقِ زندگی میں مکمل تبدیلیوں کے وقوع پذیر ہونے تک ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ اصلاحات خاص طور پر مسلمانوں کو اُن غیراسلامی رسومات سے نجات دلانے کی تدابیر پر مبنی تھیں جو اُن کی اخلاقی اور قومی زندگی میں دیسی معاشرے اور اُس کے عقائد سے ربط ضبط کے سبب چپکے سے داخل ہو گئی تھیں جبکہ مسلم معاشرے کی صحت اِس امر کی متقاضی تھی کہ اسلامی اصول اور قدریں اُن کی خالص پاکیزگی کے ساتھ قائم رکھی جائیں۔ وہ مسلمانوں کی علیحدہ ہستی قائم رکھنے کے لیے بےچین رہتے تھے، اِسی لیے مقامی وضع قطع اختیار کرنے کے بھی مخالف تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان برِصغیر کے عام ماحول کا ایک جزو بن کے رہ جائیں۔ وہ دراصل اِسلامی دنیا کے ساتھ اُن کے تعلقات مستحکم دیکھنے کے متمنی تھے تاکہ اُن کے وجدان اور بلند اصولوں کا سرچشمہ اسلام اور اَیک عالمی ملت کی اسلامی روایات ہی رہیں۔ دوسرے مسلم مفکرین کی طرح حضرت شاہ وَلی اللہؒ کا عقیدہ بھی اسلام کی ہمہ گیریت پر مبنی تھا۔ وہ اَیک طرف عمرانیات، سیاسیات اور معاشیات کے اصولوں اور دُوسری طرف اسلام کی اخلاقی تعلیمات کے اندر حدِفاصل کھینچنا نہیں چاہتے تھے۔ اُن کی نظر میں ایک اچھے اور مفید معاشرے کا حصول، اسلام کی اخلاقی اور رُوحانی قدروں پر زور دِیے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اِسی طرح ایک صحت مند معاشرے کی حمایت کے بغیر اسلام پر پوری طرح عمل درآمد اور اُس کے اندر امکانات کی نشوونما اور اِرتقا کو درجۂ کمال تک پہنچانا غیرممکن تھا۔ اُن کے نزدیک ایک قوم کی صحت کے لیے سیاسی اقتدار ناگزیر ہے اور تمدن دشمن سرگرمیوں اور شہری ذمےداریوں سے بےاعتنائی اللّٰہ کی ناراضی کو دعوت دیتا ہے۔ حضرت شاہ وَلی اللہ نے کسانوں اور دَستکاروں کی فلاح و بہبود پر بہت زور دِیا، کیونکہ ایک صحت مند معیشت کی بنیاد اِسی پر قائم ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اُن طبقات میں جاں فشانی، ایمان داری اور صلاحیت کار پیدا کرنے کی ضرورت کا خصوصیت کے ساتھ احساس دلایا۔ وہ اِس حقیقت پر بھی پختہ یقین رکھتے تھے کہ عدل اور توازن کے اصولوں کو اپنائے بغیر معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا جو تمام سیاسی اور معاشرتی تنظیم کے روحِ رواں ہیں اور اُسی پر آزادی، مستحکم حکومت اور اَچھی زندگی کا تمام دارومدار ہے۔ توازن کے قیام کا زیادہ تر انحصار، صحت مند معاشی حالات پر ہے جو دولت کی منصفانہ تقسیم سے نشوونما پاتے ہیں اور معاشرے کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے کے ضامن ہیں۔ ایک صدی بعد یورپ کے معاشی مفکر کارل مارکس نے غالباً اِنہی خیالات کو غیرمتوازن طور پر پیش کیا تھا۔ حضرت شاہ وَلی اللہ شریعت اور طریقت کے معاملات سلجھاتے اور سنی اور شیعہ کے درمیان مناقشات کم کرنے میں زبردست کردار اَدا کرتے اور اَپنی انقلاب آفریں تعلیمات سے ملّی اور قومی تحریکیں اٹھاتے رہے۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے اُنہیں ’تجدید و اَحیائے دین‘ میں مجددین کی فہرست میں شامل کیا ہے اور اُن کے عظیم الشان کارنامے بڑی تفصیل سے بیان کرتے ہوئے یہ لکھا کہ عقل دنگ ہے کہ ایسا آزاد خیال مفکر اور مبصّر منظرِعام پر آتا ہے جو صدیوں کے جمے ہوئے تعصبات کے بند توڑ کر ہر مسئلۂ زندگی پر مجتہدانہ نگاہ ڈالتا ہے۔ وہ تاریخِ انسانی کے اُن لیڈروں میں سے ہیں جو فکرونظر کی ایک صاف سیدھی شاہراہ بناتے ہیں اور ذہن کی دنیا میں حالاتِ موجودہ کے خلاف ایسی بےچینی اور تعمیری کام کا ایک ایسا دلآویز نقشہ پیدا کرتے چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ناگزیر طور پر تخریب اور تعمیرِصالح کے لیے نصف صدی بعد ہی ایک تحریک اٹھتی ہے۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ