پیکا آرڈیننس ‘ اگر میری باتوں پر عمل نہ ہوا تو میں اس کیس کا دفاع نہیں کروں گا،اٹارنی جنرل


اسلام آباد (صباح نیوز) اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹرخالد جاوید خان نے پیکا آرڈیننس سے متعلق کیس میں کہا ہے کہ پیکا آرڈیننس آیا تو پتہ چلا اس قانون کا غلط استعمال ہو سکتا ہے، مین اسٹریم یا پرنٹ میڈیا کوپیکا ایکٹ سے ریگولیٹ کرنے کی ضرورت نہیں، معاملے کو واپس کابینہ بھیج کر متعلقہ افراد سے رائے لی جاسکتی ہے، پی ایف یو جے ،پی بی اے اور دیگر کیساتھ بیٹھ کر معاملات حل کریں گے، اگر میری باتوں پر عمل نہ ہوا تو میں اس کیس کا دفاع نہیں کروں گا ۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیکا آرڈیننس کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ جو محسن بیگ کی ایف آئی آر ہے یہ اختیارات کے غلط استعمال کی کلاسک مثال ہے۔جس دن شکایت آتی ہے یہ اسی دن گرفتار کر لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ ابھی ایف آئی آر پڑھی گئی اس میں ہتک آمیز کوئی چیز نہیں۔ یہ اختیار صرف پبلک آفس ہولڈرز کے مفاد کیلئے کیوں استعمال کیے جاتے ہیں؟محسن بیگ کے کیس میں ڈائریکٹر ایف آئی اے نہیں بتا سکے کہ ان کے خلاف کوئی کیس بنتا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دئیے کہ جس کتاب کا حوالہ دیا گیا اس کتاب میں کوئی اچھی چیز بھی لکھی گئی ہو گی۔کسی کا ذہن خراب ہے تو وہ کتاب کے اس صفحے کی غلط طور پر تشریح کرے۔کتاب کے اس صفحے کو بھی بہت مثبت طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔پیکا کی سیکشن 21 ڈی محسن بیگ پر کس طرح سے لگ سکتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ اگر یہی پوزیشن رہی تو پھر سارے سیاستدان اور وی لاگرز بھی اندر ہوں گے۔کیا پھر سارے سیاست چھوڑ دیں؟آپ اس ملک کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں کیا کوئی تنقید نہ ہو؟کس طرح یہ عدالت اس ایف آئی آر کو ٹرائل کیلئے بھیج دے،پوری دنیا میں ہتک عزت کو فوجداری قانون سے نکال دیا گیا، آپ ایک دفعہ ایف آئی اے کے سارے کیسز دیکھ تو لیں۔

اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا ہم تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھا کر فیصلہ کر لیں گے۔نیچرل پرسن کیلئے ایک نمائندے کو شکایت کی اجازت دی جائے گی۔اگر کوئی پردہ نشین خاتون درخواست نہ دے سکے تو اسکا نمائندہ شکایت کرے۔درحقیقت وزیراعظم نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کیسے ہوا، میں نے کہا کہ یہ ہماری کی غلطی سے ہوا ہے،پبلک فگر کو یہ کہہ دیں کہ ملک تباہ کر دیا یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اسکی بیٹی بھاگ گئی۔

چیف جسٹس نے جواب دیا کہ اگر یہ کہیں کہ ملک تباہ کر دیا تو پھر بھی فوجداری کیس نہیں بنتا۔اٹارنی جنرل نے سوال کیا کہ پبلک فگر کے خلاف یہ کہا جائے کہ اسکی بیٹی بھاگ گئی پھر کیا ہو گا؟چیف جسٹس نے جواب دیا کہ اس کے لیے سول قوانین موجود ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے اسکی ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں۔سیاسی جماعتیں طے کر لیں کہ ان کا کوئی فالور سوشل میڈیا پر بدتمیزی نہیں کرے گا تو یہ سب ختم ہو جائے۔ہم سوشل میڈیا کو ذمہ دار کیوں ٹھہرائیں؟۔انہوں نے کہا میں کیوں ڈروں کہ سوشل میڈیا پر مجھ پر تنقید کی جا رہی ہے۔میرے لیے عدالت میں کئے گئے فیصلے زیادہ اہم ہیں۔

اٹارنی جنرل کہہ رہے ہیں کہ وفاقی حکومت اسٹیک ہولڈرز کو بٹھا کر مشاورت کرے گی۔یہ عدالت ان کیسز کو نمٹا نہیں رہی بلکہ زیرالتوارکھے گی۔ہتک عزت کو فوجداری قانون میں شامل کرنے کے خطرناک نتائج ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ اس سیکشن کے تحت کوئی کارروائی نہ ہو گی۔ہو سکتا ہے کہ سیکشن 20 کو وفاقی حکومت خود ہی قانون سے نکال دے۔پیکا قانون پارلیمنٹ نے بنایا تھا کسی آرڈیننس سے نہیں آیا۔منتخب حکومت نے پیکا کو فوجداری قانون بنایا جب دنیا اسکو فوجداری قانون سے نکال رہی تھی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیکا آرڈیننس پر وزیراعظم سے ملا ہوں، جب پیکا آرڈی نینس آیا تو پتہ چلا کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو سکتا ہے، کسی سیاسی جماعت کی نہیں وفاق کی نمائندگی کر رہا ہوں، میرے خیال سے یہ ترمیم برقرار نہیں رہ سکتی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک کمیشن بنے گا جس کی سفارش کے بغیر کارروائی نہیں چل سکے گی، وزیراعظم کو بتایا کہ ترمیمی آرڈی نینس سے کچھ چیزیں تو واپس ہوں گی، ہم پی ایف یو جے، سی پی این ای اور تمام سٹیک ہولڈرز کو بھی آن بورڈ لیں گے، عدالت کا حکم موجود ہے، ترمیمی آرڈی نینس کے تحت کوئی کیس پراسیس نہیں ہوگا، اگر میری کی گئی باتوں پر عمل نہ ہوا تو میں اس کیس کا دفاع نہیں کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہتک عزت کو فوجداری قانون میں بھی رکھیں تو اس کا اطلاق پبلک آفس ہولڈرز پر نہیں ہوتا۔