اسلام آباد (صباح نیوز) امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے افراد کی تبدیلی بھی مسئلہ کا حل نہیں ، جب تک نظام کی تبدیلی نہ ہو ، ہم چاہتے ہیں کہ عوام پر اعتماد کیا جائے۔ ہم شروع ہی سے اس مئوقف کے حامی ہیں کہ ہم تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر ایک شفاف الیکشن کے لئے انتخابی اصلاحات کرنی چاہئیں اور الیکشن اصلاحات کی طرف جانا چاہیئے۔ مسائل کا حل افراد کے ہاتھوں کی بجائے اللہ تعالیٰ کے نظام میں ہے اور اللہ تعالیٰ کا نظام جو پاکستان کانظریہ ہے وہ ہماری ترقی کی ضمانت بھی ہے اورہماری خوشحالی کی بھی ضمانت ہے اور 74سالوں سے وہ نظام نہیں آیا،جغرافیہ کو بھی نقصان ہوا ، معیشت کو بھی نقصان ہوا، ملکی دحدت کو بھی نقصان ہوا، جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کسی فرد واحد کی خواہش اور مقصد نہیں ہے، 22کروڑ عوام جو اس وقت دن، رات تڑپ رہے ہیں ، اس نااہل او رکرپٹ حکومت کے ہاتھوں جوعوام کی درگت بن رہی ہے اور عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے، یہ ہیں وہ مقاصد جن کے لئے یہ تحریک عدم اعتماد داخل کی گئی ہے۔ سیاست میں کوئی حتمی بات نہیں ہوتی، خاص طور پر پاکستان کے اندر جو سیاسی معروضی حالات جو چلے آرہے ہیں اس میں کبھی بات رکتی ہے، کبھی ٹوٹتی ہے اور کبھی دوبارہ بات جڑتی ہے ، یہ کاوش جاری ہے اور یہ ہم سب کا سیاسی حق ہے کہ ہم سیاسی جماعت سے بات کریں۔
میاں محمد شہباز شریف نے وفد کے ہمراہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج سے اسلام آباد میں نائب امیر جماعت اسلامی میاں محمد اسلم کے گھر اہم ملاقات کی۔ ملاقات میں اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اورملکی سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا،اس موقع پر شہباز شریف نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر جماعت اسلامی سے حمایت کرنے کی درخواست کی ۔ملاقات میں نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ، میاں محمد اسلم، جماعت اسلامی خارجہ امور کے سربراہ آصف لقمان قاضی،پاکستان مسلم لیگ (ن)کے نائب صدر اور سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ محمد سعد رفیق ، (ن)لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب سمیت دیگر رہنما بھی شریک تھے ۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ جس طرح میاں شہباز شریف عدم اعتماد کے حوالہ سے باقی جماعتوں کے ساتھ بات کرتے چلے آرہے ہیں اسی طرح انہوں نے ہمارے ساتھ بھی اپنی تجاویز شیئر کیں، اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ موجودہ نظام اور حکومت بُری طرح ناکام ہو گئی ہے اور میعشت بالکل بیٹھ گئی ہے ، کھانے کے ہر نوالے پر ٹیکسز لگائے گئے ہیں، پانی کے ہر قطرے پر ٹیکسز ہیں اور اس حکومت نے لوگوں کے لئے جینا مشکل بنایا ہے اور خود ان کے اپنے الفاظ اور تقاریر میں بھی اس کااظہار ہے۔ موجودہ ماحول بھی حکومت نے خود بنایا ہے۔ عدم اعتماد جمہوریت کا ایک طریقہ کار ہے، ایک آئینی طریقہ کار بھی ہے، ہم نے میاں شہباز شریف کو یہی بتایا کہ جماعت اسلامی چونکہ ایک جمہوری جماعت ہے ، ہمارے ہاں ایک مشاورت کا نظام ہے، شہباز شریف نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اپنی تجاویز سے ہمیں آگا ہ کیا ، ہم بھی انشاء اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کااجلاس بلائیں گے اوراس میں پوری طرح ان کی باتوں پر غور کریں گے اوراتفاق رائے اور یکسوئی کے ساتھ ہم اپنی بات قوم کے سامنے رکھیں گے۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ ہم نے آج کی میٹنگ میں یہ بات بھی کی کہ افراد کی تبدیلی بھی مسئلہ کا حل نہیں ، جب تک نظام کی تبدیلی نہ ہو ، ہم چاہتے ہیں کہ عوام پر اعتماد کیا جائے ، ہم نے شہباز شریف کو تجویز دی کہ عوام کی طرف رجوع کیا جائے، اس لئے کہ ملک کے اصل حکمران، حاکم اور بااختیار ہیں وہ ملک کے 22کروڑ عوام ہیں ، اگر ایک نظام نہیں چلتا، حکومت نہیں چلتی تو عوام پر اعتماد کیا جائے تاکہ ایک نئے اعتماد اور مینڈیٹ کے ساتھ ایک نئی حکومت عوام کے مسائل کو حل کر سکے۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے ہمارے ساتھ اس بات پر ایک حدتک اتفاق کیا لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نئے مینڈیٹ کے لئے بھی ضروری ہے کہ الیکشن کا نظام شفاف بنایا جائے اور گزشتہ جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں ہر الیکشن پر تحفظات ہوتے ہیں اورا لیکشن کے بعد نئی حکومت کے خلاف تحریکیں چلتی ہیں اور یہ کوئی افسانہ بھی نہیں ہے ہر حکومت کے بعد یہی ہوتاہے،اس لئے ہم شروع ہی سے اس مئوقف کے حامی ہیں کہ ہم تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر ایک شفاف الیکشن کے لئے انتخابی اصلاحات کرناچاہیں اور الیکشن اصلاحات کی طرف جانا چاہیئے۔الیکشن ریفارمز اور الیکشن پراسیس پر لوگوں کااعتماد بحال کئے بغیر الیکشن بھی ایکسرسائز فار نتھنگ ہے، ہم امید رکھتے ہیں تمام سیاسی جماعتیں اس پر سوچیں گی۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ ہمارا موقف رہا ہے کہ متناسب نمائندگی پر جماعتوں کو آنا چاہیئے ، متناسب نمائندگی بھی جمہوریت کا ایک مئوثر زریعہ ہے اور بہت سارے ممالک میں اس پر عمل ہوتا ہے ، ابھی یہ ہوتا ہے کہ ایک لاکھ ووٹ لینے والا اسمبلی کا رکن ہوتا ہے اور 99ہزار ووٹ لینے والا محروم رہتا ہے، متناسب نمائندگی میں قوم جس کو زیادہ ووٹ دے اس کو زیادہ حصہ اور جس کو کم ملے اس کوکم حصہ ملتاہے، میرا یقین ہے کہ ایک دن ایسا ضرورآئے گا کہ ہم متناسب نمائندگی کی طرف چلیں گے تو پاکستان حقیقی لحاظ سے ایک مضبوط جمہوری ملک بن جائے گا۔ آخری بات یہی ہے کہ ہمارے مسائل کا حل افراد کے ہاتھوں کی بجائے اللہ تعالیٰ کے نظام میں ہے اور اللہ تعالیٰ کا نظام جو پاکستان کانظریہ ہے وہ ہماری ترقی کی ضمانت بھی ہے اورہماری خوشحالی کی بھی ضمانت ہے اور 74سالوں سے وہ نظام نہیں آیا،جغرافیہ کو بھی نقصان ہوا ، معیشت کو بھی نقصان ہوا، ملکی دحدت کو بھی نقصان۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میں نے گزشتہ روز سراج الحق سے درخواست کی تھی کہ ہم آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں ، انہوں نے مہربانی فرمائی اور آج ہمیں وقت دیا، ساری تفصیل سراج الحق نے بیان کردی ہے۔ میں نے اپنی طرف سے اور تمام متحدہ اپوزیشن کی جو جماعتیں ہیں ان کی طرف سے میں نے درخواست کی ہے کہ جو عدم اعتماد کی تحریک گزشتہ روز پارلیمان میں داخل ہو چکی ہے آپ اس میں ہمارا ساتھ دیں،یہ کسی فرد واحد کی خواہش اور مقصد نہیں ہے، 22کروڑ عوام جو اس وقت دن، رات تڑپ رہے ہیں ، اس نااہل او رکرپٹ حکومت کے ہاتھوں جوعوام کی درگت بن رہی ہے اور عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے، یہ ہیں وہ مقاصد جن کے لئے یہ تحریک عدم اعتماد داخل کی گئی ہے، ایک سلیکٹڈ حکومت کو پارلیمان کے زریعہ ایک آئینی طریقہ سے ہٹا کر ہم قوم کے پاس دوبارہ جائیں اورایک شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کا احتمام ہو جس کے زریعہ عوام کے ووٹوں سے نمائندہ حکومت چنی جائے اور پھر ایک فریش مینڈیٹ کے ساتھ مل کر قوم کی دن رات خدمت کی جائے، جس کو بھی اللہ تعالیٰ موقع دے، اس کے لئے ہم حاضر ہوئے تھے اور یقیناً جماعت اسلامی کا اپنا ایک نظام ہے اوراپنی شوریٰ سے مشاورت ہو گی اور اس کے بعد اپنا فیصلہ صادر فرمائیں گے۔
ایم کیو ایم اور (ق)لیگ سے دوبارہ بات کرنے کے سوال پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سیاست میں کوئی حتمی بات نہیں ہوتی، خاص طور پر پاکستان کے اندر جو سیاسی معروضی حالات جو چلے آرہے ہیں اس میں کبھی بات رکتی ہے، کبھی ٹوٹتی ہے اور کبھی دوبارہ بات جڑتی ہے ، یہ کاوش جاری ہے اور یہ ہم سب کا سیاسی حق ہے کہ ہم سیاسی جماعت سے بات کریں ان کے پاس جائیں ، ان سے درخواست کریں اور ان کو کائل کریں ، حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے اند جو باضمیر لوگ جو اس وقت حکومت کے خلاف جوان کا ذہن بن چکا ہے ، اس بنیاد پر کہ جس مینڈیٹ ست یہ آئے تھے ، ایک ان کا جنرل مینڈیٹ تھا اورایک ان کا جعلی مینڈیٹ تھا ، یہ ایک کامبینیشن تھا کہ ایک نئی صبح ہو گی ، نیا پاکستان ہو گا ، ریاسست مدینہ کی بات دن رات کرتے تھے،300ارب ڈالرز واپس لانے کی بات کرتے تھے اور ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود وایاز ، نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز، یعنی ایک تفریق ختم کریں گے ، غربت کو ختم کریں گے اورامارت کم ہو گی اور غربت کا خامتہ ہو گا اور سب کو دوائیاں مفت ملیں گی، سب کا علاج مفت ہو گا، تعلیم مفت ہو گی، قرضوں اور آئی ایم ایف سے چھٹکاراہ حاصل کیا جائے گا، کیا ، کیا نعرے لگائے اور بلندوبانگ دعوے کئے ، آج وہ دعوے کہاں گئے کہ اگر قرض کا ایک روپیہ لیا جائے تو وہ وزیر اعظم کرپٹ ہوتا ہے ، میں مرجائوں گا لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا، ہمیں یہ بات بار، بار دہرانے میں ہچکچاہٹ ہوتی ہے کہ کیا سبز باغ دکھائے اورآج ملک کو تباہی کے دہانے پہنچا دیا ہے۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے حوالہ سے حکمت عملی اور جہانگیر خان ترین کے گروپ کے ساتھ (ن)لیگ کے پنجاب اور مرکز میں اتحاد کے حوالہ سے سوال پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میاں محمد نواز شریف ہمارے قائد ہیں وہ پارٹی کے ساتھ مشاورت سے جو بھی فیصلہ کریں گے ، پارٹی اس کو لے کر چلے گی اوراس حوالہ سے ہماری تمام پارٹیوں سے بات چیت جاری ہے۔