اسلا م آباد(صباح نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ میں اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے عورت مارچ کی اجازت نہ ملنے کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے درخواست کی سماعت کی، اس موقع پر ڈی سی اسلام آباد نے کہا کہ عورت مارچ کے گروپوں نے اجازت مانگی تھی۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو آپ نے مارچ کی اجازت دے دی، جو حکومت گرانے آرہے ہیں ان کواجازت دے رہے ہیں؟ ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات نے کہا کہ ایک بجے پیپلز پارٹی نے اسلام آباد میں داخل ہونا ہے، وکیل نے کہا کہ عورت مارچ نے ڈی چوک سے ہوتے ہوئے پریس کلب جانا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ایف نائن پارک میں عورت مارچ کرلیں، جس پر ڈی سی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ صرف جگہ یا تاریخ تبدیلی کرلیں مارچ کی اجازت مل جائے گی۔وکیل نے بتایا کہ اس سال سیاسی پارٹی کی اسلام آباد آمد پر اجازت نہیں دی جارہی، عدالت نے حکم جاری کیا کہ عورت مارچ کے ذمہ داران ڈی سی سے ملاقات کر کے جگہ کا تعین کریں، بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے مذکورہ احکامات کے ساتھ درخواست نمٹا دی ۔
عورت مارچ میں حقوق کے نام پر خواتین کی تذلیل ہورہی ہوتی ہے، نورالحق قادری
وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے کہا ہے کہ حقوق نسواں کا پر جوش حامی ہوں لیکن عورت مارچ میں حقوق کے نام پر خواتین کی تذلیل ہو رہی ہے۔اسلام آباد میں حقوق نسواں تنظیم دخترانِ پاکستان کے وفد سے ملاقات میں وفاقی وزیر مذہبی امور نے وزیراعظم کو لکھے خط کی بھی تائید کی۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کو لکھا گیا مراسلہ پاکستان کے متعدد معاشرتی حلقوں کی ترجمانی کرتا ہے، مغربی معاشرہ ہمارے خاندانی نظام اور خواتین کو تحفظ اور عزت دینے سے قاصر ہے۔پیر نور الحق قادری نے کہا کہ عالمی یوم نسواں پر خواتین کو تعلیم و روزگار کے مواقع، انسداد ہراسیت اور وراثتی حقوق کو اجاگر کیا جائے جبکہ عورت مارچ کے ذریعے بیوی کو خاوند اور بیٹیوں کو والدین کے خلاف بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے۔علاوہ ازیں دخترانِ پاکستان کے وفد نے کہا کہ پاکستان میں مغربی ایجنڈا کے تحت عالمی یوم نسواں کو کچھ برس سے عورت مارچ میں تبدیل کر دیا گیا ہے، ہمارا مذہب اور آئین پاکستان خواتین کو جائز حقوق کی فراہمی کی مکمل ضمانت دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عورت مارچ میں لگنے والے نعرے پاکستان کے خاندانی نظام سے مطابقت نہیں رکھتے ۔