پاکستان کے ابتدائی سات آٹھ سال اِس اعتبار سے نہایت اہم ثابت ہوئے کہ اُن میں کارہائے نمایاں بھی سرانجام پائے، اعلیٰ روایات کا چمن بھی کِھلا، مگر سیاسی آداب اور جمہوری طورطریق سے انحراف کی مثالیں بھی قائم ہوئیں۔ نوابزادہ لیاقت علی خان جو قائدِاعظم کے انتہائی وقیع ساتھیوں میں سے تھے، اُن کا تعلق کرنال سے تھا۔ وہ ایک بڑے جاگیردار گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ اُنہیں تحصیلِ علم کا بڑا شوق تھا اور اُنہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے پولیٹکل سائنس اور قانون میں گریجویشن اور اسکالر شپ پر آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹرز کیا۔ وہ 1923 میں ہندوستان واپس آئے، تو مسلمانوں کے بلند قامت لیڈر محمد علی جناح کی شخصیت سے غیرمعمولی طور پر متاثر ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ سال بعد اُنہوں نے مسلم لیگ کے احیا کے لیے لاہور میں ایک اہم اجلاس طلب کیا جس میں نوابزادہ لیاقت علی خان بھی مدعو تھے۔ اُن کی جچی تُلی باتوں سے جناح صاحب نے متاثر ہو کر اُنہیں اپنے قریبی رفقا میں شامل کر لیا۔ 1926 میں نوابزادہ صاحب یو پی اسمبلی کے مظفرنگر حلقے سے کامیاب ہوئے اور یو پی کے مسلمانوں کے حالِ زار پر اسمبلی میں آواز اٹھاتے اور ملکی سطح پر بھی رائےعامہ منظم کرتے رہے۔
اُن کے پیہم اصرار سے قائدِاعظم دسمبر 1934 میں لندن سے ہندوستان واپس آئے۔ وہ واپس آتے ہی مسلم لیگ کے اندر عوامی روح پھونکنے میں مصروف ہو گئے۔ اِس عمل میں نوابزادہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے اُن کے شانہ بشانہ کام کرتے رہے۔ ستمبر 1946 میں کابینہ مشن کی سفارش پر عبوری حکومت کے قیام کا نازک مرحلہ آیا، تو قائدِاعظم کی طرف سے لیاقت علی خان مسلم لیگ کے لیڈر مقرر ہوئے جن کو وزارتِ خزانہ کا قلمدان ملا۔ اُنہوں نے غریبوں کا بجٹ پیش کیا جس میں ہندو سیٹھوں اور مہاجنوں پر اُن کی آمدنیوں کے تناسب سے بھاری ٹیکس عائد کیے گئے جبکہ غریبوں کو بڑی چھوٹ دی گئی۔ اُس بجٹ کے بعد کانگریسی قیادت نے پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرنے ہی میں عافیت سمجھی۔
قیامِ پاکستان کے بعد وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی نوابزادہ لیاقت علی خان انتہائی گمبھیر اِنتظامی، اقتصادی اور سیاسی چیلنجوں میں گِھر گئے۔ آگ اور خون کے دریا عبور کر کے لاکھوں مہاجرین پاکستان آ رہے تھے جبکہ اُس کا پورا نظم و نسق مفلوج تھا، تاہم بالغ نظر سیاسی زعما، فرض شناس بیوروکریٹس اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار عوام کے تعاون سے انتظامی ڈھانچہ بھی کھڑا ہو گیا اور معیشت بھی سنبھلنے لگی۔ 1949 میں اسٹیٹ بینک کے بعد نیشنل بینک کا قیام عمل میں آیا۔ وزیرِاعظم کی شبانہ روز کوششوں سے علمِ طبیعات، علمِ ریاضی، علمِ کیمیا اور تعلیم کے ماہرین ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی اور ڈاکٹر ضیاء الدین احمد پاکستان آئے اور اُنہیں سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیادیں استوار کرنے کے اہداف سونپے گئے اور اِسی کے ساتھ اعلیٰ معیار کی کراچی یونیورسٹی وجود میں آئی۔ عالمی برادری میں پاکستان نے باوقار کردار اَدا کیا۔ اِن عظیم کامیابیوں کے جلو میں وزیرِاعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خان جب امریکی دورے پر واشنگٹن گئے، تو امریکی صدر ٹرومین اپنی کابینہ کے ہمراہ اُن کے استقبال کے لیے ائیرپورٹ پر موجود تھے۔ کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں امریکی امداد کا سلسلہ شروع ہوا اَور پاکستان قحط کے عذاب اور بھارتی جارحیت کے خوف سے محفوظ ہو گیا، مگر بدقسمتی سے اُنہی کے دور میں ایسے واقعات بھی وقوع پذیر ہوئے جو پاکستان میں جمہوریت اور اِسلامی شعائر کی نشوونما کے لیے سازگار نہیں تھے۔
قوم کی خوش بختی سے اُن منفی اقدامات کے ردِعمل میں کچھ مثبت مناظر بھی طلوع ہوئے۔ حکومت کو راہِ راست پر قائم رکھنے کے لیے سیاسی جماعتیں اور پیشہ ور تنظیمیں باہمی تعاون اور مشترکہ جدوجہد کی مضبوط بنیادیں اُٹھانے میں حیرت انگیز طور پر مستعد ہو گئی تھیں۔ معقول اور بااصول شخصیتیں دائیں اور بائیں دونوں بازوؤں میں تھیں۔ قائدِاعظم کی رحلت کے بعد پنجاب حکومت نے سیفٹی ایکٹ نافذ کر دیا جس کی رو سے کسی بھی شہری کو وجہ بتائے اور مقدمہ چلائے بغیر چھ ماہ کے لیے نظربند کیا جا سکتا تھا اور اُس میں مزید توسیع کی گنجائش بھی رکھی گئی تھی۔ اُس کے تحت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین حسن اصلاحی اور میاں طفیل محمد اکتوبر 1948 میں چھ ماہ کے لیے نظربند کر دیے گئے۔ چند کمیونسٹ لیڈر بھی اُس کی زد میں پہلے ہی آ چکے تھے۔ بیرسٹر محمود علی قصوری کے بھائی مولانا احمد علی قصوری کے جماعتِ اسلامی کی قیادت سے اچھے مراسم تھے، چنانچہ بیرسٹر محمود علی قصوری جیل میں سید مودودی سے ملنے آئے اور شہری آزادی کے تحفظ کے لیے مشترکہ جدوجہد کا عندیہ دیا جس کا پُرجوش خیرمقدم ہوا، چنانچہ دوسری جماعتوں اور تنظیموں سے مشاورت کے بعد پاکستان میں ’سول لبرٹیز یونین‘ کے نام سے تنظیم قائم ہوئی جسے بنیادی حقوق کی جدوجہد میں خشتِ اوّل کی حیثیت حاصل ہے۔
سول سوسائٹی کے اِس اوّلین محاذ میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ طلبہ، وکلا، صحافیوں اور محنت کشوں کے نمائندے بھی شامل تھے۔ جماعتِ اسلامی کی نمائندگی ملک نصراللہ خاں عزیز، سید نقی علی، چوہدری علی احمد خاں اور عبدالمجید قریشی کر رہے تھے۔ وکلا کے چار نمائندوں میں سے ایک بیرسٹر محمود علی قصوری تھے۔ مسلم لیگ کے اقبال احمد خاں، مولانا محمد داؤد غزنوی، علامہ علاؤ الدین صدیقی، ٹریڈ یونین کی طرف سے ملک لال خان، ایڈیٹر روزنامہ پاکستان ٹائمز فیض احمد فیضؔ، کمیونسٹ پارٹی کے کامریڈ فیروزالدین، جرنلسٹ یونین کی طرف سے م۔ش اور جناح عوامی لیگ کی طرف سے غلام محمد لونڈخور، پروگریسو لیگ کے عطاء اللّٰہ آف جہانیاں اور کرنل (ر) لطیف افغانی ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے خرم واسطی اور ڈیموکریٹک یوتھ لیگ کے شیخ رفیق احمد شامل تھے۔ اِس طرح ابتدائی دور ہی میں سول سوسائٹی منظم ہو گئی تھی اور قومی بیداری کا یہ سہرا سید مودودی اور بیرسٹر محمود علی قصوری کے سر جاتا ہےجو حکومتی جبر کے خلاف ثابت قدمی سے ڈٹے رہے جس کی بدولت بنیادی آزادیوں کے چراغ آج بھی فروزاں ہیں جن کو پھونکوں سے بجھانے کے تجربے ہو رہے ہیں۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ جنگ