کچھ لوگوں کا نعم البدل نہیں ہوتا۔۔۔تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


زندگی کے اس پر رونق میلے میں ہر لمحہ ہنگامہ،ہلچل اور حرکت ہے۔یہ حرکت کائنات کے دھڑکتے ہوئے دل کی عکاس ہے۔ بکھرے ہوئے صحن میں ہمیں طرح طرح کی مخلوقات نظر آتی ہیں۔ ہر شے ارتقاء کی منازل سے گزر رہی ہے۔ کوئی گھٹ رہی ہے کوئی بڑھ رہی ہے لیکن وہ کسی نہ کسی سفر میں ہے ۔ کچھ بھی رُکا ہوا نہیں ہے حتیٰ کہ سوکھے ہوئے پتے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ کچھ چیزیں دوبارہ سبز نہیں ہوتیں کیونکہ ان کا رابطہ سبزے سے کٹ جاتا ہے۔ ان کا رابطہ زمین سے کٹ جاتا ہے، دھڑکن سے کٹ جاتا ہے، وہ سانس نہیں لے پاتے لیکن وہ اپنی تگ و دو ترک نہیں کرتے، ان کے اندر کوئی نہ کوئی رمق باقی ہوتی ہے جسے توانا کر کے وہ مٹی میں مل کر کھاد کی شکل اختیار کرتے ہیں اور نئے پودوں کو جنم لینے میں مدد دیتے ہیں اور پھر شاید ان کے ہمنوا ہو جاتے ہیں، ان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ انسانوں کے حوالے سے دیکھیں تو مولانا رومؒ سمیت کئی صوفی اور فلسفی اس نکتے پر متفق ہیں کہ اس دنیا میں خیر اور شر کے تناسب میں زیادہ فرق نہیں۔ یہ دونوں طاقتیں ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کے لئے ہر وقت زور آزمائی کرتی رہتی ہیں۔ کبھی دنیا میں خیر حاوی ہو جاتا ہے تو کبھی شر۔آج کل اپنے اردگرد موجود عظیم لوگوں کی رخصتی لمحہ تفکر ہے۔ تواتر سے ہمارے ان بزرگوں کی اموات ہو رہی ہیں جن کے ساتھ بیٹھ کر انسان خود کو بڑا محسوس کرے۔ جن کی باتیں سن کر ذہن کے بند تالے کھلیں۔ جن کی دانش کی روشنی سے انسان زندگی کے اصل چہرے کو دیکھے اور سمجھے۔ وہ بچھڑتے جا رہے ہیں اور ان کا نعم البدل کہیں نظر نہیں آتا ، ہمارے ان عظیم لوگوں کا نعم البدل اگرکہیں اور ہی ابھرنا ہے تو پھر اس معاشرے کا کیا بنے گا جس میں دن بدن عدم برداشت کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے اور کوئی کسی کو ماننے پر تیار نہیں ہے۔ دلائل سے بات کرنا کسی کو پسند نہیں ہے۔

ڈاکٹر مہدی حسن کا جانا ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ جب میں نے پہلی دفعہ انھیں سنا تو حیران رہ گئی کہ اتنا خوبصورت انسان اور اتنی خوبصورت باتیں کرنے والا انسان اور اتنی جرأت سے اس عمر میں بولنا کہ کسی شے کا ڈر نہیں ہے۔ سوال بہت سخت ہوتے لیکن جواب اتنے ہی پائیدار ہوتے۔ جو سچ سمجھتے ہیں بولتے جاتے ہیں۔ ایک عجیب سحر سا طاری ہو گیا اور پھر عقیدت کا عجیب رشتہ پیدا ہو گیا۔ پھر پیمرا میں ہم نے تقریباً چار سال انھیں بطور چیئرمین شکایت سیل سنا اور سیکھا۔جہاں انھوں نے بڑے بڑے لوگوں کو للکارا۔ وہ نہ کبھی کسی سے مرعوب ہوئے اور نہ کبھی حق سچ کے خلاف فیصلہ دیا۔ عورت کی عزت کے بہت قائل تھے۔ عورت کو فرد مانتے تھے۔اس کی آزادی رائے اور پسند کو اہمیت دینے کے قائل تھے ۔

ایک گھٹے ہوئے معاشرے میں زندگی سسکی بن جاتی ہے۔ ڈاکٹرمہدی حسن جیسے لوگ روشن دان کا کام کرتے ہیں، لوگوں کا کتھارسس کرتے ہیں۔ لوگوں کو زندگی کا روشن اور اجلا پہلو دکھاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی ، فرائض کی، لوگوں کو جینے کا حق دینے کی اورکلچر کی بات کرتے ہیں۔ موسیقی کی بات کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مہدی حسن کا خلا پر نہیں ہو سکتا۔ ان جیسی گرج دار آواز ہمیں دوبارہ نہیں مل سکتی۔

میں اکثر انھیں فون کرتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب میں آپ سے طویل گفتگو کرنا چاہتی ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کاکہنا کہ میرے گھر تشریف لے آئیں یا مجھے بتائیں میں آ جاتا ہوں لیکن بیکار زندگی کی چہل پہل میں وہ خوشگوار وقت متعین نہ ہو سکا کہ جب ان سے گفتگو ہو سکتی۔ جس کا مجھے عمر بھر افسوس رہے گا۔ یوں تو ہم نے اسلام آباد میں پیمرا کی میٹنگز کے سلسلے میں فارغ وقت میں ہوٹل کی لابی میں اور شام کے کھانے کے بعد ان سے پہروں باتیں کیں لیکن ان سے ایک مکالمے کی جو جستجو تھی وہ پوری نہ ہو سکی۔ کچھ سوال تھے جن کے جواب مطلوب تھے اور اب ان سوالوں کے جواب دینے والا آس پاس کوئی نظر نہیں آتا۔ یہ سوال اور یہ تشنگی اب میرے ساتھ ہی جائے گی۔ ہم سے بھول ہو جاتی ہے۔ ہم بہت سارے کام کرنے میں عجلت سے کام لیتے ہیں۔ یہ کام بعد میں کر لیں گے اور پھر ہمیں وقت میسر نہیں آتا۔ ڈاکٹر مہدی حسن صاحب کو کووڈ ہوا تو اسے شکست دے کر بھلے چنگے ہوگئے مگر محفلیں بکھر گئیں، سیمینار ختم ہو گئے، خیر بانٹنے والے کے لئے ذات کی کوٹھری میں بند ہونا مشکل ہوتا ہے۔لوگوں سے تعلق اور رابطہ اور ان کی غیرمحسوس طریقے سے رہنمائی ان کا فریضہ ہوتی ہے۔ پھر بیمار ہو گئے اس دنیا سے سفر کرنے کے لئے ایک بہانا درکار ہوتا ہے دوسری منزل پر جانے کے لئے۔ ڈاکٹر صاحب چلے گئے ہیں لیکن ان کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ کامیابی سمیٹ کر جا رہے ہیں۔ انسان جو بات سوچتا ہو اسے کہہ سکنے کا حوصلہ اور اعتماد مل جانا بھی ایک نعمت ہوتی ہے۔ آج کی بڑی بڑی شخصیات کے استاد تھے۔ لوگوں کو پڑھایا، سکھایا، سیمینار، کانفرنس میں بولنے لگتے تو گھنٹوں بولتے تھکاوٹ کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔ ایک شاندار انسان ایک شاندار زندگی جی کر چلا گیا۔زندگی کے بارے میں ایک خاص نظریے کے قائل صاحبِ رائے انسان تھے۔ تمام عمر اپنے نظریے کے ساتھ جئیے۔اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہو سکتی ہے۔لیکن ہمیں مادیت کے جال میں جکڑے معاشرے میں ایسے لوگ کم نظر آتے ہیں جو انسانوں سے رابطے کو ترجیح دیں۔طالبعلموں کے لئے جن کے دروازے ہر وقت کھلیں ہوں۔سوالوں کی الجھنیں سلجھائیں۔

آخر میں حسین مجروح صاحب کا ایک شعر

وہ قحطِ مخلصی ہے کہ یاروں کی بزم سے

غیبت نکال دیں تو فقط خامشی بچے

بشکریہ روزنامہ جنگ