عمران خان کی جہانگیرترین سے ملاقات ہو سکتی ہے،شفقت محمود


اسلام آباد (صباح نیوز)وفاقی وزیر برائے تعلیم ، پیشہ وارانہ تربیت اور پاکستان تحریک انصاف سینٹرل پنجاب کے صدر شفقت محمود نے کہا ہے کہ عمران خان کی جہانگیرترین سے ملاقات ہو سکتی ہے اور یہ کوئی انوکھی اور اچنبھے کی بات نہیں ہو گی کیونکہ جو لوگ ایک ہی جماعت ہیں ان کی ملاقات کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ اپوزیشن کی آنیاں جانیاں صرف ایک دکھاوا ہے اندر سے مایوسی ہے اور نظرآتا ہے کہ اندر سے بہت ہی تکلیف میں ہیں اور کچھ تھوڑی سی بد حواسی کی بھی علامات نظر آتی ہیں، اگر ان کے بس میں تحریک عدم اعتماد لانا ہوتا تو کب کا لا چکے ہوتے۔ تحریک عدم اعتماد لانا اپوزیشن کا آئینی حق ہے وہ جب چاہیں لا سکتے ہیں اوران کو کسی نے روکا نہیں ۔

ان خیالات کا اظہارشفقت محمودنے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو ہوائی باتیں ہیں کہ ہمارے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے اتنے لوگ رابطے میں ہیں، میں بھی کہہ رہا ہوں کہ(ن)لیگ کے پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی کے15بندے ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔اپوزیشن لوگوں کو لالچ دینے کی کوشش کر رہی ہے لیکن کوئی ایسا نہیں ہے جوان کی لالچ میں آئے گا اور اگر کسی نے آنا ہوتا توابھی تک آچکا ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ اس بات میںکوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ عمران خان کی روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ایک گھنٹے کی ملاقات تھی اور وہ تین گھنٹے طو یل ہوئی ، روسی صدر کی اور بھی مصرفیات تھیں،یوکرین کا  بحران بھی چل رہا تھااور اس وقت اگر تین گھنٹے طویل ملاقات ہوئی ہے تواس کا مطلب ہے کہ یہ بہت ہی دور رس نتائج کی حا مل میٹنگ تھی جس میں دونوں ملکوں کے درمیان ایشوز، خطے کے مسائل ، بین الاقوامی مسائل پر بات چیت ہوئی ، خصوصا ہمارے معاشی مفادات ،گیس پائپ لائن کی تکمیل کے معاملات ہیں ، یقیناان سارے مسائل پر گفتگو ہوئی ہو گی اور نہیں معاملات کی وجہ سے ایک گھنٹے کی بجائے تین گھنٹے کی ملاقات رہی جوخود ایک بہت اہم بات ہے ۔

انہوں نے کہاکہ یہ مفروضے ہیں کہ پہلے روس پر پابندیاں لگیں گی اورپھرپاکستان،روس گیس پائپ لائن کا منصوبہ راستے میں آئے گا، بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو مفروضے ہیں اور شاید ایسے نہ ہو اورس لئے ا س پر قبل ازوقت کچھ کہناشاید مناسب نہ ہو ، مجھے اس بات کا  یقین ہے کہ جو ہماری آپس میں باتیں ہوئی ہیں اس کے نتیجے میںہمارا ایک بڑامضبوط اور ٹھوس بنیا د پر تعلق روس کے ساتھ قائم ہواہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی زیرو سم گیم نہیں ہے اگر ہمارے چین اور روس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارے امریکہ یا مغرب کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں ، ہم چاہتے ہیں کہ ہر طرف ہمارے بہتر تعلقات ہو ںاور پاکستان کے مفاد میں ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی آنیاں جانیاں صرف ایک دکھاوا ہے اندر سے مایوسی ہے اور نظرآتا ہے کہ اندر سے بہت ہی تکلیف میں ہیں اور کچھ تھوڑی سی بد حواسی کی بھی علامات نظر آتی ہیں، اگر ان کے بس میں تحریک عدم اعتماد لانا ہوتا تو کب کا لا چکے ہوتے ، اگر ان کے بس میں ہوتا کہ لانگ مارچ کرنا ہے توکر چکے ہوتے، مسئلہ یہ ہے کہ عوام ان  کے اندر باہر کو جان گئی ہے یہ خبروں اور اخبارات کی زینت تو بالکل ہیں کیونکہ اخبارات بھرے ہوئے ہیںقدرتی طور پر اگر میں بھی اخبار میں ہوں گا تو میں چٹپٹی بات لکھوںگا، مجھے تو لگتا ہے کہ عدم اعتماد لاناان کی ہمت ہی نہیں ہے اور یہ کوئی نہ کوئی بہا نہ کر اس میں سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔میں نہیں دیکھ رہا کہ تحریک عدم اعتماد آئے گی، جب گذشتہ تین سال کے دوران ان کے گرد گھیرا تنگ ہورہا تھا تو یہ تحریک عدم کب کا کر چکے ہوتے، اگر وہ کرنا چاہیں تو یہ ان کا آئینی حق ہے تو بڑی شوق سے کریں۔

انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد لانا اپوزیشن کا آئینی حق ہے وہ جب چاہیں لا سکتے ہیں اوران کو کسی نے روکا نہیں ہے، لیکن میں کہہ رہا ہوں کہ ان کے نمبر زپورے نہیں ہیں ، اس لئے ان کا کھانے پینے پر زور ہے، کھائو پیو پارٹی چل رہی ہے اوروہ انہوں نے گذشتہ30سال میں انہوں نے پاکستان کے ساتھ بھی کیا ہے اور مجھے اس میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی جو ہمارے لئے باعث تشویش ہے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں ان کی تعداد زیادہ ہے پھر بھی وہ روز ہار جاتے ہیں، سٹیٹ بینک آف پاکستان کی  مالی خودمختاری کا جو بل تھا اس میں 30سے35ووٹوں کا فرق تھا ۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن حرام کا پیسہ لگانے کے لئے تیار ہے لیکن کوئی بکے گا نہیں۔ تحریک انصاف اگلا الیکشن جیتے گی توکوئی ہاری ہوئی پارٹی کی طرف کیوں جائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ نے خیبر پختونخوا میں تین سیٹیں ،جے یو آئی(ایف) نے23،پی ٹی آئی نے 18سیٹیں لی ہیں  اور پیپلز پارٹی نے ایک لی ہے، بلوچستان میں (ن)لیگ نہ ہونے کے برابر ہے ، سندھ اوردیہی سندھ میں ان کی کوئی موجودگی نہیں اور جنوبی پنجاب میں کوئی موجودگی نہیں اور یہ وسطیٰ پنجاب کی ایک علاقائی جماعت کے بارے میں یہ تاثر کہ جیسے وہ الیکشن میں چھا جائیں گے تو میرا تو خیال ہے کہ کوئی درست تجزیہ نہیں کررہا ، اگر کوئی درست تجزیہ کررہا ہوتاتو اس کو نظرآتا کہ (ن)لیگ بھی علاقائی جماعت ہے اور پیپلز پارٹی بھی علاقائی جماعت ہے جے یو آئی بھی علاقائی ہے اور اگر کوئی ملک گیر جماعت ہے تو تحریک انصاف ہے اور اگلا الیکشن بھی تحریک انصاف جیتے گی ۔

انہوں نے کہا کہ حکمران جماعت سے لوگوں کو بہت ساری توقعات ہوتی ہیں اوراگرساری پوری نہ ہوں تو ناراضگیاں ہوتی ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ جب لوگ ووٹ ڈالنے کے لئے الیکٹرول بوتھ میں جا ئیں گے تو ایک طرف ان کو یہ چور لٹیرے نظر آئیں گے جنہوں نے لوٹ مار کرکے پاکستان کو کھا لیا اور دوسری طرف ان کو عمران خان اور تحریک انصاف نظر آئے گی جو کہ صاف ستھری جماعت ہے ، ناراضگی کے باوجود لوگ ووٹ تحریک انصاف کو ہی دیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین نے عوامی طور پر اپنے آپ کو تحریک انصاف سے الگ نہیں کیا تو وہ اس لحاظ سے پاکستان تحریک انصاف کا حصہ ہیں اور ان کے جو سپورٹرز ہیں وہ بھی تحریک انصاف کا حصہ ہیں اور وہ بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔عمران خان کی جہانگیرترین سے ملاقات ہو سکتی ہے اور یہ کوئی انوکھی اور اچنبھے کی بات نہیں ہو گی کیونکہ جو لوگ ایک ہی جماعت ہیں ان کی ملاقات کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ ساری جماعت کے سارے ارکان کی ایک دوسرے ے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں اور یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ۔