یوکرین مشرقی یورپ میں ایک ملک ہے۔ جس کی سرحدیں بیلا روس، پولینڈ، سلواکیہ اور ہنگری سے ملتی ہیں۔ علاوہ ازیں مالدووا اور رومانیہ بھی اس کے ہمسایہ ممالک ہیں ۔ بحیرہ ازوف اور بحیرہ اسود کے ساتھ ایک ساحلی پٹی بھی ملتی ہے۔ یوکرین کی آبادی تقریباً تقریباً پانچ کڑور کے قریب ہے ۔ یوکرین کی سرکاری زبان یوکرینی ہے۔یہاں کے زیادہ تر لوگوں کا مذہب مسیحیت ہے۔ یعنی 87 فیصد لوگ مسیحیت کے پیروکار ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں11فیصد کے قریب لوگ لادین ہیں ۔
اگر یوکرین میں رہنے والے نسلی گروہوں کی بات کی جائے تو زیادہ تر یوکرینی اور روسی نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ اور دیگر غیر متعینہ ہیں۔ یوکرین کا نظام حکومت صدارتی نیم جمہوری اور دالحکومت کیف ہے۔ یوکرین 1920 ء سے 1991ء تک سوویت یونین کے زیرِ تسلط رہا۔ نوے کی دہائی میں جب روس معاشی اور دفاعی طور پر کمزور ہونے لگا تو یوکرین نے آزادی کا اعلان کر دیا۔یوں یہ روس کے تسلط سے آزاد ہونے والا پہلا ملک تھا اس کے بعد وقتاً فوقتاً مزید ریاستیں آزاد ہوئیں۔ 24 اگست 1991ء میں یوکرین دنیا کے نقشے میں الگ ملک کی حیثیت سے سامنے آ گیا اور پوری دنیا نے اس کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کیا۔
یوکرین نے آزادی تو حاصل کی لیکن یہاں کے روسی نسل سے تعلق رکھنے والے گروہوں اورمغربی حمایت رکھنے والے گروہوں کے درمیان تنازعات کا آغاز ہو گیا۔ یوکرین نے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے امریکا اور مغرب کا حمایت حاصل کی۔ جب روس کی طاقت بکھر گئی تو مغربی ممالک اور امریکا نے روس پر دباؤ ڈالنے کے لیے نیٹو اتحاد بنایا۔ نیٹو نے یوکرین کے پڑوسی ممالک میں مہ صرف افواج تعینات کر دیں بلکہ ہتھیار بھی نصب کر دیے۔
سال2014 ء میں روس اور یوکرین کے درمیان تنازعات عروج پر تھے۔ اس دوران یوکرین کے اس دور کے صدر کا جھکاؤ روس کی طرف تھا۔ یوکرین کی عوام اس سے ناخوش تھی تو وکٹر ینو کووچ (صدر یوکرین) کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہونا شروع ہو گئے ۔جس کے نتیجے میں وکٹر ینو کووچ کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس موقع پر روس کی سیکورٹی افواج جو سرحد پر مامور تھیں پر یوکرین کی جانب سے حملے شروع ہو گئے ۔روس نے بھی ان حملوں کو جواز بنا کر کرائیمیا پر چڑھائی کر دی اور اس پر قبضہ حاصل کر لیا ۔تب سے اب تک کرائیمیا روس کے زیر کنٹرول ہے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ جب روس نے کرائیمیا پر قبضہ کر لیا تو دیگر علیحدگی پسند گروپ بھی متحرک ہوگے۔جس کے بعد روس اور بعض مغربی ممالک میں تنازعات شروع ہو گے۔
روس نے الزام لگایا کہ مغرب روسی النسل علاقوں میں خون ریزی کر رہا ہے جبکہ مغرب نے الزام لگایا کہ روس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے یوکرین میں بدامنی پھیل رہی ہے ۔ اسی دوران امر یکا اور روس کے درمیان سرد جنگ جاری رہی۔ اسی خانہ جنگی کے دوران ایک اندازے کے مطابق تقریباً چودہ ہزار کے قریب لوگ مارے گئے ۔
سال2015ء میں فرانس کے تعاون سے یوکرین کے تمام گروہوں کے درمیان معاہدہ طے پایا کہ اب جھڑپوں پر قابو رہے گا مگر ایسا ہو نہ سکا اور جھڑپیں جاری رہیں اور 2021 ء میں ان جھڑپوں میں شدت آگئی ۔ امریکا نے اپنی اطلاعات کو مدنظر رکھ کر روس پر الزام لگایا کہ روس یوکرین پر حملہ کی تیاری میں ہے۔ بلکہ مغربی میڈیا نے تو تاریخیں بھی دینی شروع کر دیں۔ لیکن روس اس الزام کو مسترد کرتا رہا اور عین وقت حملہ کر دیا اور ساتھ یوکرین سے آزاد دو علاقوں کو بھی الگ ریاستیں تسلیم کر لیا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے ان آزاد ریاستوں میں امن قائم کرنے کے لیے اپنی فوج بھی بھیجنے کا اعلان کر دیا۔
روس کے روایتی حریف امریکا کو اس وقت سخت تکلیف سے گزرنا پڑ رہا ہے اور اس نے نہ صرف یہ کہا کہ
روس کو اس کا سخت جواب دیا جائے گا بلکہ امریکا نے روس پر معاشی پابندیاں بھی لگا دیں ہیں ۔ جس کے بعد روس کی معشیت کو کافی نقصان پہنچے گا۔ یوکرین پر روسی حملے کی ایک وجہ اس کے مستقبل میں نیٹو ممبر بننا بھی ہے۔ روس کو اس سے خطرہ تھا۔
علاوہ ازیں روس اب اپنی طاقت کا مظاہرہ بھی کر رہا ہے اور وہ اس کے اثرات امریکا اور مغرب کو دکھانا چاہتا ہے۔
یوکرین پر باقاعدہ فوجی حملہ ان کے مصمم ارادے کا باقاعدہ اظہار ہے۔ طاقت کا توازن اس خطے میں منتقل کرنا اور امریکا کو علاقائی سیاست سے بے دخل کرنا جہاں روس اور چین کا منصوبہ ہے وہاں اس خطے کے مفادات کے لیے اہم اور ضروری بھی ہے۔ روس نے مغربی ممالک کو خبردار بھی کیا ہے کہ اگر درمیان میں آنے کی کوشش کی تو خطرے ناک نتائج بھگتنے ہوں گے۔ روس اس وقت طاقت ور ملک ہے اس کے مقابلے میں یوکرین کی دفاعی پوزیشن نہ ہونے کے برابر ہے ۔ روس نے تقریباً دولاکھ کے قریب تمام ضروری سازوسامان کے ساتھ فوج یوکرین کی سرحد پر تعینات کر دی ہے۔ روس نے یوکرین کی ائیربیس کو بھی مکمل تباہ کر دیا ہے ۔
عالمی دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ روس چند دنوں میں یوکرین پر قبضہ حاصل کر لے گا۔
قابل غور پہلو یہ ہے کہ اقوام متحدہ جسے تنازعات ختم کرانے میں کردار ادا کرنا ہوتا ہے وہ کئی بڑے قضیوں کو ختم نہیں کر اسکا تو کیا وہ اس جنگ کو روک پائے گا؟
اس سے پہلے تو امریکا ہی مسلم ممالک پر دہشتگردی کا الزام لگا کر اپنی مرضی سے تیل کے کنووں پر قبضہ کرنے کے لیے کئی مسلم ممالک میں تباہی برپا کر چکا ہے لیکن یہان اقوام متحدہ بھی امریکا کا ہی کٹھ پتلی رہا اور کوئی مثبت اقدام نہ کر سکا اور نہ کرنا چاہا، چاہے وہ فلسطین کا معاملہ ہو یا کشمیر کا، کشمیر کے لیے تو کئی قرادایں بھی منظور کی ہیں لیکن پھر بھی عملدرآمد نہ ہوا اور تمام دنیا تماشا دیکھتی رہی اور اب بھی بھارتی ظلم کا تماشا ہی دیکھ رہی ہے اس کی اصل وجہ کشمیریوں کا مسلمان ہونا ہے ۔ یوکرین کے لیے حرکت تو نہیں کی لیکن زبان کا استعمال تمام مغربی ممالک نے کیا۔
یوکرین میں مغرب اور امریکا کے لیے روس کے قبضہ کو برداشت کرنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ ایک تو یوکرین یورپ میں آتا ہے دوسرا وہاں کی زیادہ تر آبادی عیسائی مذہب کو ماننے والی ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ افغانستان سے شکست خوردہ امریکہ روس کی طرف پیش قدمی کرسکے گا یا نہیں۔؟نظر تو یہی آرہا کہ امریکا اور اس کے اتحادی دفاعی مدد کرنے میں ناکام ہوں گے ۔کیوں کے امریکا کو معلوم ہے اگر یوکرین کی دفاعی مدد کی کوشش کی تو روس نے پہلے ہی خبر دار کیا ہے نتائج برے ہو سکتے ہیں جو تمام دنیا کے لیے خطرےناک ثابت ہوسکتے ہیں ۔
دوسری جانب اب چین بھی تائیوان پر حملہ کرے گا امریکا اب وہاں بھی بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا ۔ یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ طاقتور ممالک جب بھی آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو کمزور ممالک کا سہارا کیوں لیتے ہیں؟ ۔ کمزور ممالک پر قبضہ حاصل کر کے کیوں طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ ۔جنگ طاقت ور ممالک کی ہوتی ہے اور نتائج بھگتنا کمزور کو پڑتے ہیں ۔ یوکرین اور روس کا کیا مقابلہ، یوکرین کی عوام اور فوج جنازے د فن کرنے میں اور روس لوگوں کو مارنے میں مصروف ہے۔
جو ملک آزاد حیثیت سے رہنا چاہتا ہے اسے رہنے دینا چاہیے جبراً قبضہ سراسر غلط ہے۔
یہاں مجھے ایک بات بھارت کے حوالے سے بھی کہنی پڑے گی کہ بھارت کے بھی کچھ لوگ خواب دیکھ رہے ہیں کہ اگر روس یوکرین کو دوبارہ حاصل کر لیتا ہے تو ہم بھی آکھنڈ بھارت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔یہ آپ کی بھول ہے پاکستان کو کبھی بھی یوکرین مت سمجھنا۔