میرے والدین نے اپنے سارے وسائل صرف کرکے اچھا انسان بنانے کی کوشش کی کہ مجھے تھانے کچہری سے واسطہ نہ ہی پڑے۔پھر بھی مجھے جیل جانے سے ڈر لگتا ہے اور میرے پاس جرمانے ادا کرنے اور وکیل کرنے کے بھی پیسے نہیں ییں۔
میں خوابوں میں رہتا تھا، خواب دیکھتا تھا اور انکو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا تھا۔ سوتے جاگتے میں خواب دیکھتا تھا ۔ میں جہاں ہوتا تھا اصل میں وہاں نہیں ہوتا تھا۔ گمان بھی اچھا ہی کرتا تھا۔ اب میں ڈر گیا ہوں کہ کہیں میرا سچ بھی جھوٹ ہی نہ نکل آئے۔ جھوٹ تو کبھی بولا ہی نہیں پر اس لئے اب سچ بولنے سے بھی ڈرتا ہوں۔
نئے پاکستاب میں کچھ دن خواب دیکھے پر کسی سے تعبیرنہ پوچھ سکاکہ اگر تعبیر بتانے والے نے کہہ دیا کہ یہ خواب تو ممکن ہی نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو تو مجھے سزا ہی نہ ہو جائے۔ اس لئے خواب دیکھنے کے لمحات جاگ کر گزار دیتا ہوں اور نیند قربان کرکے اپنے آپ کو قربان ہونے سے بچا لیتا ہوں۔مجھے گورنمنٹ کی کسی بات پر اعتراض نہیں ہے وہ سب اچھا بلکہ بہت ہی اچھا کر رہی ہے۔ شاید اس سے اچھا ممکن نہ ہو ۔ سچ بولوں تو پیٹرول مہنگا ہونے کا میری زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ پچھلے تین ماہ سے میری گاڑی لاہور گیراج میں کھڑی ہے اور میں بھائی کی گاڑی میں سفر کررہا ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کہ دال روٹی کا کیا بھاو ہے کوئی کھا رہا ہے یانہیں۔ کیونکہ میں بستر پر لیٹا رہتا ہوں کھانا میرے سامنے آجاتا ہے۔ جب میں کام کوئی نہیں کررہا اور سب سہولیات مجھے مہیا ہیں۔ تو پھر مہنگائی کہاں پر ہے۔مہنگائی کا واویلا کرنے والے جھوٹے ہیں اور سزا کے مستحق ہیں۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ سزا بڑھا دے تاکہ جھوٹ کو کنٹرول کیا جاسکے۔
لیور ٹرانسپلانٹ کے بعد سے ہائی پروٹین خوراک کا حکم ہے۔ میں آجکل لاہور میں مقیم ہوں ۔ لاہور سے ایک سو چالیس کلومیٹر دور سمندری کے پاس گاوں فتح ریحان سے اصل دیسی مرغ سپیشل گاڑی پر سفر کرکے لاہور آتے ہیں اور میری غذا کا حصہ بنتے ہیں۔ مزے دار بات یہ ہے کہ میرے بھائی خرچہ کرتے ہیں پر میرا کوئی خرچ نہیں ہے تو پھر مہنگائی کی بات کرنا تو حکومت وقت کےساتھ زیادتی ہے۔ مہنگائی کہیں بھی نہیں ہے بس پرانی حکومتوں کا کیا ہوا ظلم ہے ورنہ پوری دنیا میں پاکستان سستا ترین ملک ہے۔ اتنی خوشحالی شاید ہی پاکستان میں دیکھی ہو۔ کل ہسپتال سے واپسی پر درآمد شدہ شوگر فری بسکٹ بھائی نے کھانے کو لا کر دیئے۔ اور میرے کچھ پیسے بھی نہیں لگے تو میں کیسے کہہ دوں مہنگائی ہے۔
جگر کا ٹرانسپلانٹ انڈیا اور چائنہ سے ایک کروڑ سے زیادہ خرچ میں ہوتاہے، یہی کام پاکستان میں صرف اعر صرف 70 سے 80 لاکھ میں ہوتا ہے اب آپ کو اور کیا چاہیے ۔ ہماری ملک کی شرح آمدن میں شدید اضافہ سے یہ ممکن ہوا ہے کہ اب آپ یہ علاج باآسانی کروا سکتے ہیں۔ اگر ہسپتال یہ علاج فری ممکن بناسکیں تو عوام یہ بچ جانے والی خطیر رقم کا کیا کریں گے۔ اس سے معاشرے میں انارکی پھیلے گی۔ تو بہتر ہے عوام کو پیسے استعمال کرنے کے مواقع مہیا کئے جائیں۔ میں نئے پاکستان میں نئے قانون کے تشریف لانے کے بعد میں شدید محتاط ہوں کیونکہ جمع پونجی تو علاج پر لگ گئی ۔ اور بستر پر لیٹے لیٹے دو بیٹیوں کی یونیورسٹی کی فیس بھی ادا کردی تو مہنگائی کہاں ہے۔ ہمیں حکومت مخالف پراپیگنڈا بند کرنا پڑے گا۔
اتنے احسن اقدامات پہ گورنمنٹ انعام کی مستحق ہے۔
جس طرح ہر طرف درخت ہی درخت ہیں اور اسی طرح ہر طرف سڑکوں کاجال بھی بچھ چکا ہے خوشحالی تو ہے ہی۔ بس دیکھنے کیلئے اہل بصیرت ہونا بہت ضروری ہے۔ پر ایسی بصیرت کا کیا کرنا دیکھ تو سب کچھ سکتے ہیں پر خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
مجھے ایک اشتہار کی ٹیگ لائن یاد آرہی ہے۔ احتیاط زندگی ہے۔
تو عرض کروں گا محتاط رھیئے کیونکہ احتیاط زندگی یے۔