فطرت مدتوں سے سندھ دھرتی پہ مہربان ہے۔ محمد بن قاسم کی سندھ آمد اِسی فیاضی کا پہلا خوبصورت آغاز تھا۔ پھر پے در پے ٹھنڈی ہواؤں کے کتنے ہی جھونکے آئے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی ، لعل شہباز قلندر، سچل سرمست اور اس پائے کےبہت سارے دیگر بزرگ۔کئی لوگوں کو شاید یہ بات بہت پرانی لگے۔ مگر سندھ دھرتی پراللہ کی عنایات کا یہ سلسلہ تسلسل سے جاری ہے۔
سندھ کا سپوت محمد علی جناح،محمد بن قاسم کا ہی تو پَرتو تھا، جس نے مسلمانانِ ہند کو پاکستان کی صورت میں نئی روشن شناخت دی۔ خدمت کے میدان کو دیکھ لیجئے، عبدالستار ایدھی نے انسانوں سے محبت کے جذبے کو نئی پہچان دی۔ کراچی میں انڈس ہسپتال اور ایس آئی یو ٹی، گمبٹ میں لیور ٹرانسپلانٹ جیسے غیر معمولی ادارے قائم کرنے والے عظیم لوگ سب سندھ ہی کے تو مردانِ کار ہیں۔
نعمت اللہ خان (کراچی کے سابق میئر اورالخدمت فاؤنڈیشن کےروح رواں، دوست اور دشمن جس کی کارکردگی اور کردار کے ایک جیسے مدح سرا ہیں، اُسے اسی دھرتی نے بنایا، سنوارا اور ابھارا۔ہفتہ 19 فروری کی شام میں ضلع مٹیاری کے معروف شہر ہالہ میں یتیم بچوں کے ادارے “آغوش” کی افتتاحی تقریب میں پہنچا تو نہ جانے کیوں سندھ کی خوش بختی پہ بہت رشک آیا۔ الخدمت فاؤنڈیشن ملک بھر میں 18 آغوش ہومز قائم کر چکی ہے، تاہم سندھ میں یہ پہلا آغوش ہے جس کا باقاعدہ افتتاح ہونے جا رہا تھا۔ (کراچی اور راشد آباد میں بھی عنقریب افتتاح ہونے والا ہے)
آج سے دس سال قبل جب ہم نے یتیم بچوں کی کفالت کے لئے آغوشوں کے قیام کا خواب دیکھا تھا تو ہم پُر عزم تھے کہ باہمت بچوں کے یہ گھر (آغوش) ایسے عمدہ ہونگے کہ ہمارے اپنے بچے بھی ایسے خوشگوار ماحول میں رہنے کی تمنا کریں۔
خدا کا شکر ہے پاکستان بھر کے سارے ہی آغوش اسی تصور کی نمائندگی کرتے ہیں-
آغوش ہوم ہالہ کا وسیع و عریض لان سینکڑوں مہمانوں کو اپنی گود میں لے چکا تھا۔ الخدمت سندھ کے صدر ڈاکٹر تبسم جعفری اور ان کی پوری ٹیم مہمانوں کو گلے لگا رہی تھی۔آغوش کے پھولوں جیسے باہمت یتیم بچےمہمانوں کو تازہ پھول تھما رہے تھے۔ تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہوا، سلمان علی اور معروف ادبی شخصیت شکیل خاں نے سٹیج میزبانی کر کے سماں باندھ دیا۔ جب آغوشیین بچوں نے رنگ و نور کی فضا میں رِقّت آمیز لہجے میں “ بابا میری آواز سنو ناں” ٹیبلو پیش کیا تو سامنے بیٹھے مرد و خواتین کی آنکھیں ڈُبڈبا گئیں۔
تقریب کے مہمان خصوصی جنابِ لیاقت بلوچ تھے۔ لیاقت بلوچ کو اپنی خدمات کے باعث ایک دنیا جانتی ہے، مگر دنیا یہ نہیں جانتی کہ ان کا بچپنا بھی یتیمی اور جفاکشی و مزدوری میں گزرا ہے۔ خود کو یتیم بچوں میں موجود پا کر انہوں نے اپنے صبر اور حوصلے کی داستان بھی سنا ڈالی۔انہوں نے بچوں بڑوں سب کو بتایا کہ میٹرک میں فیکٹری سےمزدوری کا آغاز کرنے والا یہ نوجوان قومی اسمبلی تک کیسے پہنچا۔ مجمع پر سکوت طاری تھا، مگر یتیم بچے کہانی کو اس قدر محو ہو کر سن رہے تھے جیسے وہ اپنے اپنے مستقبل میں جھانکنا چاہ رہے ہوں۔
رات کی خنکی بڑھ رہی تھی۔ پندرہویں شب کے چاند نے مشرق سے ابھرنا شروع کیا اور اُس کی دودھیا روشنی چہروں پہ پڑنے لگی۔ میں نے چاند پہ نگاہ ڈالی تو دل و دماغ میں خوشی اور امید کی بجلی سی کوند گئی۔
آسمان پر چاند کے گرد روشنی کا ہالہ اور شہر ہالہ کے آغوشیین کے چہروں کے گرد ٹھنڈی میٹھی روشنی کا ہالہ، کمال کا سماں بن چکا تھا۔مجمع میں درجنوں ایسے دوست موجود تھے جن کے فراخ دلانہ مالی تعاون نےاس بامقصد اور دلکش آغوش کو تعمیر اور تعبیر بخشی تھی۔
2خیالات کی سرحدیں نہیں ہوتیں۔خیالات و تصورات تو چشمِ زدن میں اِس جہاں سے اُس جہاں پہنچ جاتے ہیں۔ مجھے یاد آیا ،قیامت کے روز کچھ بدنصیب جب اپنے ہی پیدہ کردہ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہونگے، “کچھ خوش نصیب اٖس طرح آگے بڑھ رہے ہونگے کہ اُن کے گِرد روشنی کا ٹھنڈا میٹھا ہالہ ہو گا” ( نُورُهُم يَسعٰى بَينَ اَيدٖیِهم)۔
میں نے ایک بار پھر آغوش ہالہ میں بیٹھے دوستوں، باہمت بچوں اور روشیوں میں ڈوبی عمارت پہ نظر ڈالی۔
فطرت صدیوں سے سندھ دھرتی پر مہربان ہے، آغوش دیکھ کر لگا کہ یہ مہربانیاں مدتوں جاری رہیں گی۔