اسلام آباد (صباح نیوز) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے نورمقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی 24فروری کو نورمقدم قتل کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنائیں گے۔ منگل کو عدالت میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو کمرہ عدالت میں دیگر ملزمان کے ہمراہ پیش کیا گیا۔
ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران مدعی کے وکیل نثار اصغر نے عدالت کے سامنے حتمی دلائل دئیے۔گزشتہ سماعت میں تمام ملزمان کے وکلا نے حتمی دلائل مکمل کر لیے تھے۔مدعی کے وکیل نثار اصغر نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ 2ملزمان کی جانب سے یہ بات کہی گئی کہ ہم نے عبوری ضمانت دائر کر دی ہے، ملزمان نے کہا کہ شوکت مقدم با اثر تھا اس لیے اس نے گرفتار کرایا، سیشن جج کامران بشارت مفتی نے 26جولائی کو ملزمان کی درخواست مسترد کی۔
مدعی کے وکیل نثار اصغر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ملزمان کے وکیل کے دلائل تھے کہ ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کی حد تک تفتیشی افسر کے پاس ثبوت نہیں، والدین خود مانتے ہیں کہ وہ کراچی سے آئے، تین بار تھانے گئے، والدین نے پولیس کو لائسنس دیا، پھر پولیس نے انہیں چھوڑ دیا، یہ وقوعہ عید کے دن ہو رہا ہے اور وہ بھی عیدالاضحی کے دن جس میں 3 چھٹیاں ہوتی ہیں، مدعی شوکت مقدم عید کے باعث 22 جولائی کو آدھے گھنٹے کے لیے پولیس اسٹیشن آئے۔
مدعی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ سی ڈی آر اور ڈی وی آر پولیس کے پاس تھیں اور کہا گیا کہ شوکت مقدم 10 بجے جائے وقوع پر نہیں تھے، شوکت مقدم 11 بج کر 45 منٹ پر جائے وقوع پر پہنچے تھے، شوکت مقدم نے کہا کہ قتل سے 10 بجے آگاہ کیا گیا اور 11 بج کر 45 منٹ پر پولیس نے بیان لکھا، گواہ پولیس کانسٹیبل اقصی رانی کہتی ہے کہ 10 سوا 10 بجے جائے وقوع پر پہنچ گئی تھی، کرائم سین انچارج عمران کہتا ہے کہ میں 10 بج کر 30 منٹ پر جائے وقوع پہنچا، 10 بجے سے پہلے صرف 1 پولیس اہلکار بشارت رحمن جائے وقوع پر پہنچا تھا، تفتیشی افسر عبدالستار کا کہنا ہے کہ 9 بج کر 45 منٹ سے 10 بجے کے درمیان قتل کی اطلاع ملی۔