تصوف کا نیٹ ورک اور سید اسحاق گازرونی۔۔۔تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


تصوف ایک باقاعدہ نظام ہے، ایک نیٹ ورک ہے۔ بہت وسیع دائرہ کار میں کام کرنے والا ادارہ، اس کے مختلف عہدیدار ہوتے ہیں اور لوگ ایک خاص عرصے اور مشق کے بعد باقاعدہ اگلے مرحلے میں ترقی پاتے ہیں۔ اوپر سے جو حکم ہوتا ہے ماتحت اس کی تکمیل کیلئے کوشاں ہوجاتے ہیں یہی ان کا وظیفہ ہے۔ یہاں ہر کسی سے انفرادی معاملہ رکھا جاتا ہے۔ تصوف کے دائرہ کار میں زندگی اور موت کی لکیر حائل نہیں ہوتی۔ جو دنیا سے چلے گئے ہیں اُن سے بھی رابطے ہیں، آگاہی اور رہنمائی کے لئے مرشد سے ہر سطح پر رابطہ ضروری ہے۔ جو زندہ ہیں ان سے رابطے کے لئے بھی ان کے پاس جانا ضروری نہیں بلکہ یہ ایک ایسا وائرلیس سسٹم ہے جو شعور اور روح کو احکامات دیتا ہے اور وصول کرتا ہے۔ تصوف کے نیٹ ورک سے انسان اپنی مرضی سے نہیں جڑ سکتا۔ خدا کی منشا سے کچھ لوگوں کو سرفراز کیا جاتا ہے۔ چنے ہوئے لوگ، ظاہر اور باطن سے پاک لوگ، روحوں کی بیداری کو سمجھنے والے اور جسم کی دیوار ہٹا کر روح سے مکالمہ کرنے والے لوگ۔ قدرت کی طرف سے نظام سیٹ کر کے بھیجا جاتا ہے۔ کس نے کس سے اصلاح لینی ہے؟ کس نے کس جگہ جا کر ربّ کا پیغام پہنچانا اور اس کی خلقت کی خدمت کرنی ہے؟ سب طے ہوتا ہے، نصاب موجود ہوتا ہے۔ دلوں اور روحوں میں اُس کی تقسیم مرشد کا کام ہے۔ سید اسحاق گازرونی جن کو حضرت میراں بادشاہ کہا جاتا ہے، وہ بھی اس نیٹ ورک کے ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ لاہور کی فضاؤں میں توحید کا کلمہ بلند کرنے اور اس علاقے کے لوگوں کو مثبت قدروں کی طرف لانے میں سید اسحاق گازرونی کا نام بہت قابلِ ذکر سمجھا جاتا ہے۔ سلسلۂ نسب مختلف واسطوں سے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم تک پہنچتا ہے۔ ایران، جو تصوف اور علم و آگہی کی سرزمین ہے، کے شہر گازرون میں پیدا ہوئے، اس لئے گازرونی کہلائے۔ ابتدائی تعلیم اسی شہر سے حاصل کی، باطنی رہنمائی کیلئے اس دور کے بڑے صوفی بزرگ حضرت شیخ واحد الدین اصفہانی کی بیعت سے سرفراز ہوئے۔ صوفی کے جب ظاہری اور باطنی طور پر تعلیم و تربیت کے مرحلے مکمل ہو جاتے ہیں تو پھر اسے مخلوقِ خدا کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ سید اسحاق گازرونی کو وجدانی طور پر لاہور جانے کا حکم ملا۔ مرشد کے پاس گئے، اجازت طلب کی اور لاہور کی طرف نکل پڑے۔ لاہور میں ڈیرا لگایا اور یہیں کی مٹی میں ابدی بسیرا کیا۔ لاہور کے لوگوں نے آپ کو بہت محبت اور عزت سے نوازا اور آپ کے دائرے میں داخل ہونا خوش نصیبی سمجھا۔ آپ کے ساتھ یہ ایک کرامت تھی کہ جو بھی آپ سے ملتا، آپ کی محفل میں آتا ہدایت یافتہ ہو کر واپس جاتا۔ صوفی ہمیشہ لوگوں کو جوڑتا ہے، مرکز کے ساتھ۔ وہ ایسا مرکز بناتا ہے جہاں کوئی بھی آ سکتا ہے، تعلیم حاصل کر سکتا ہے، ٹھہر سکتا ہے۔ سید اسحاق گازرونی نے لاہور میں علمی و تبلیغی مرکز بنایا جس میں نہ صرف طلباء قیام کرتے تھے بلکہ علماء و صوفیاء بھی وہیں رہتے تھے۔ حضرت گازرونی خود فرداً فرداً اُن کی تربیت کرتے، انہیں دین کے ساتھ ساتھ،مثبت قدروں اور لوگوں کو مخاطب کرنے کے طریقے بتاتے اور پھر انہیں دیگر علاقوں میں بھیجتے۔ ذاتی طور پر ایک حلیم اور بہت محبت کرنے والے رحم دل اور مہربان انسان تھے۔ کبھی کسی کو بددعا نہیں دیتے تھے، بلکہ ہمیشہ دعا کرتے تھے اور وہ دعا قبولیت کا درجہ پاتی تھی۔ ایک بار لاہور کا ایک بہت امیر شخص جسے اپنی امارت پر بڑا ناز تھا آپ سے ملنے آیا۔ وہ کافی دیر بیٹھا رہا لیکن آپ کی توجہ نہ پا سکا جس پر اسے بہت غصہ آیا اور وہ آپ کے خلاف بولنے لگا۔ سید اسحاق گازرونی خاموش رہے، آپ کے مریدین تڑپ اٹھے لیکن سید اسحاق گازرونی نے انہیں خاموش کر دیا۔ اس کے باوجود وہ شخص چپ نہ ہوا بلکہ اس کی بدتمیزی آپ کی خاموشی دیکھ کر بڑھتی گئی تو آپ نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے۔ وہ انا پرست شخص بیہوش ہو کر گر پڑا۔ ہوش میں آیا تو رونا شروع کر دیا اور گڑگڑاتے ہوئے معافی طلب کی۔ سید اسحاق گازرونی نے اسے معاف کر دیا اور اپنے حلقے میں شامل فرمایا۔ اپنے مریدین سے کہا دیکھو اگر میں اس کے لئے بددعا کرتا تو اس کو سزا مل جاتی ہدایت نہ ملتی لیکن میرا مقصد اس کو ہدایت کے رستے پر لانا تھا اس لئے میں نے صبر کیا۔ اس نے جو کچھ مجھے کہا اس کو درگزر کیا اس لئے آپ لوگوں کو بھی ہمیشہ لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا چاہئے کہ درگزر سے کام لیں اور تبلیغ کے رستے پر چلتے ہوئے کبھی جذباتی نہ ہوں۔ جب آپ کے وصال کا وقت آیا تو مریدوں کو وصیت کی کہ آپ کا مزار کچا بنایا جائے۔ شاہجہاں کے دور میں جب مسجد وزیر خان تعمیر کرائی گئی تو آپ کا مزار مسجد کے صحن میں آ گیا۔ آج بھی اسی صحن میں یہ مزار موجود ہے لیکن ایک تہہ خانے میں ہے جہاں لوگوں کو زیارت کی سہولت میسر ہے۔ صوفیاء کے مزار ختم نہیں ہوتے، وہ کبھی زمین پر کبھی زمین کے اندر ہوتے ہیں، انہیں تلاشنا پڑتا ہے، ذات کے تہہ خانے میں اترنا پڑتا ہے، ڈھونڈنا پڑتا ہے، لَو لگانی پڑتی ہے، رابطہ جوڑنا پڑتا ہے اور پھر روشنی مقدر بن جاتی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ