اخلاقیات کی قبر کھودنے والے۔۔۔تحریر اوریا مقبول جان


آج سے صرف دو دہائیاں قبل، کیا کبھی ایسا ممکن تھا کہ ایک خاندان کے افراد کھانے کی میز پر موجود ہوں یا کسی کمرے میں اکٹھے بیٹھے ہوں اور ان میں کوئی ایک، اپنے موبائل پر آنے والے میسج کے ذریعے ایک گندہ لطیفہ، فحش تصویر یا غلیظ پیغام وصول کرے، بھیجے یا اس پر تبصرہ کرے اور اس دوران محفل میں بیٹھے ہوئے ان مقدس رشتوں میں سے کسی ایک کو بھی اس کا علم تک نہ ہو سکے۔ اخلاقی زوال کی یہ حالت پوری دنیا میں جس تیزی کے ساتھ آئی ہے، اس کی نظیر گذشتہ پانچ ہزار سال کی انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔

جدید سیکولر، لبرل طرزِ معاشرت نے سب سے پہلے جس ادارے کی تباہی کی بنیاد رکھی وہ خاندان تھا۔ یہ ادارہ اپنی زیرِ کفالت نسلوں کی اخلاقی تربیت کا ذمہ دار اور اخلاقی اقدار کا پاسبان ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں اس کے اندر پایا جانے والا حفظِ مراتب اور شرم و حیا معاشرے کی خوبصورتی ہے۔

کارپوریٹ مادہ پرستی جو کہ سیکولر، لبرل معاشرے کی معاشی بنیاد ہے، اس نے اپنے کارخانوں کے پہیئے کو تیز رفتاری سے گھمانے اور پیداوار بڑھانے کے لئے سب سے پہلے، خاندان میں اخلاقی تربیت کی علامت، عورت، کو لاتعداد خوش کن ترغیبات دے کر گھر کی چار دیواری سے باہر نکالا۔ اس صنفِ نازک کو اپنی تمام مصنوعات کا اشتہار بنایا، اس کے لئے خوبصورتی اور حسن کے معیارات (Standards) بنائے اور پھر اسے ان معیارات کے حصول کی تنی ہوئی رسی پر چلایا گیا۔

عالمی مقابلہ حسن سے لے کر چھوٹی سطح کی ماڈلنگ تک سب کے سامنے ایسا مشکل معیارِ حسن رکھا گیا جس نے اس عورت کو “جسم اور صرف جسم” کی سطح پر لا کھڑا کیا۔ آج نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ دنیا بھر میں کسی عورت کے لئے بحیثیت ماں، بیٹی، بہن، بیوی کہیں کوئی سرکاری یا غیر سرکاری اعزاز موجود نہیں۔ اس کے لئے عزت کے معیار ہی بدل دیئے گئے ہیں۔ اس کے بعد عورت آئندہ نسلوں کی ذمہ داری کو آیاؤں، ڈے کیئر سنٹروں اور پری نرسری سکولوں کے سپرد کر کے گھر سے باہر نکلی اور ڈاکٹر، انجینئر، بزنس وومن جیسے شعبوں کی جانب روانہ ہوئی۔

خاندانی معاشرت کو تباہ کرنے کے لئے سیکولر طرزِ معاشرت نے دنیا کو آبادی بڑھنے کے بے بنیاد خوف میں مبتلا کیا، تاکہ عورتوں پر خاندان کی ذمہ داری کم ہو تاکہ وہ مزید آزادی کے ساتھ کارپوریٹ سرمایہ داری کی خدمات سرانجام دے سکے۔ آبادی کے کنٹرول کی جو بے بنیاد تھیوری مالتھس (Malthus) نے پیش کرتے ہوئے دنیا کو یہ خوف دلایا تھا کہ اس دنیا کی آبادی ایک دن اس قدر بڑھ جائے گی، اور وسائل اتنے ناکافی ہو جائیں گے کہ انسان انسانوں کو کھانے لگیں گے۔

آج یہ تھیوری اس قدر جھوٹی اور بے بنیاد ثابت ہو چکی ہے کہ جدید تحقیقات کے مطابق اس وقت کرہ ارض پر جتنی خوراک پیدا ہوتی ہے وہ کم از کم دس ارب انسانوں کے لئے 2050 تک کافی ہے، جبکہ اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب ہے۔ اس فریب زدہ تصور کی کوکھ سے مانع حمل طریقوں نے جنم لیا۔ شروع شروع میں مانع حمل طریقے کا استعمال کھلا اور زیادہ تر مرد کے ہاتھ میں تھا۔ لیکن 1954 میں جب “مانع حمل” گولی ایجاد ہوئی تو اس نے نہ صرف آبادی کے کنٹرول کا اختیار عورت کے ہاتھ میں دے دیا بلکہ اسے خفیہ بھی بنا دیا۔

اس “خفیہ پن” نے پورے معاشرے کی اخلاقی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ عورت بدنامی سے آزاد ہوئی اور خاندانی ذمہ داری کم کرنے، بلکہ ختم کرنے کا راستہ بھی نکل آیا۔ یوں دنیا میں جنسی اخلاقیات کا رخ موڑ دیا گیا۔ اس “انقلاب” کے بعد خاندانی نظام دوبارہ پھر اپنی اصل بنیادوں پر کبھی استوار نہ ہو سکا۔

مانع حمل گولی کے بعد، انسانی اخلاقیات پر دوسرا بڑا حملہ جس ایجاد نے کیا وہ “سوشل میڈیا” ہے۔ آج سے 29 سال قبل 3 دسمبر 1992 کو پہلے ٹیکسٹ میسج سے اس کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ 1993 میں جی ایس ایم فون نے اسے آسان بنایا اور 1999 میں یہ پوری دنیا میں عام ہو گیا۔ اس کے بعد تو اس کی تیز رفتاری بلا کی تھی۔

صرف بیس سالوں میں عام چیٹ اور ٹیکسٹ میسج سے ہم اب سوشل میڈیا کی ایک ایسی دنیا میں داخل ہو چکے ہیں، جس کی حالت ایک منہ زور گھوڑے والی ہے، جس پر قابو پانا کسی ایک حکومت کے بس میں بھی نہیں۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب پوری دنیا کے دو سو کے قریب ممالک بیک زبان ہو کر اس “جن” کو کنٹرول کرنے اور اسے معاشرتی اخلاقیات کا پابند بنانے کے لئے متحد ہو جائیں۔ مگر یہ نہیں اکٹھا ہو سکتے، کیونکہ گذشتہ ایک سو سال سے سیکولر، لبرل طرزِ معاشرت نے ہر ملک کے معاشرے میں اخلاقیات کے الگ الگ معیارات بنا دیئے ہیں۔

یورپ کے ممالک میں رات گئے مخصوص ٹی وی چینلوں پر مکمل فحش فلمیں دکھائی جا سکتی ہیں جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں معیار مختلف ہے۔ اسی طرح ہم جنس شادیوں کے قوانین بھی کسی ملک میں موجود ہیں اور روس جیسے ملکوں میں لوگ اس کے سخت مخالف ہیں۔ بھانت بھانت کے اخلاقی معیارات والے یہ ملک کبھی بھی سوشل میڈیا کے اخلاق سدھارنے یا اسے قابو میں کرنے کے لئے عالمی سطح پر اکٹھا نہیں ہوں گے۔

سوشل میڈیا کے طوفان کے اثرات صرف جنسی ہی نہیں معاشرتی طور پر بھی خوفناک ہیں۔ نسلی، مذہبی اور دیگر نفرتیں جو پہلے چھپی ہوتی تھیں، اب انہیں آگ دکھانے کے لئے صرف ایک میسج یا ویڈیو کلپ کافی ہے پھر دیکھیں کیسے خون کی ندیاں بہتی ہیں۔ کسی شخص کی شرافت کو تار تار کرنے کے لئے ایک جعلی ویڈیو یا جھوٹے میسج کے وائرل ہونے کی دیر ہے، اس کی زندگی بھر کی کمائی ہوئی عزت خاک میں ملائی جا سکتی ہے۔

مین سٹریم میڈیا پر تو معلوم ہوتا ہے کہ کون کیا بات کر رہا ہے اور اس کا جواب کیسے دے سکتے ہیں یا اس کا تدارک کیسے کر سکتے ہیں، لیکن سوشل میڈیا کی بے چہرہ (Faceless) دنیا، انتہائی خوفناک ہے اور اسے جدید ٹیکنالوجی نے مزید خطرناک بنا دیا ہے۔ جس ملک نے بھی اسے کنٹرول کرنے یا اصول و قواعد کا تابع بنانے کی کوشش کی اس کے راستے میں دو بڑی رکاوٹیں حائل ہوئیں۔

پہلی رکاوٹ “بدنیتی” کی رکاوٹ ہے، یعنی حکومت جب اسے کنٹرول کرنے کے قانون بناتی ہے وہ صرف اور صرف اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے پر قابو پانا چاہتی ہے۔ لیکن دوسری بڑی رکاوٹ وہ سیکولر، لبرل دانشور طبقہ ہے جو کہتا ہے کہ سوشل میڈیا کے تو لاتعداد فوائد ہیں، لوگوں کو معلومات میسر آتی ہیں، دنیا ایک دوسرے کے قریب ہوتی ہے، علم آگے بڑھتا ہے وغیرہ وغیرہ اور یوں دنیا کی تمام عدالتیں خصوصا پاکستان کی محدود نظر (Myopic) عدالتیں ان دانشوروں کے دلائل سے مرعوب ہو کر سوشل میڈیا کو آزاد کر دیتی ہیں۔

اصل معاملہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جتنا بھی علم اب تک موجود ہے وہ دنیا میں موجود علم کے پندرہ فیصد سے بھی کم ہے اور غیر مصدقہ بھی ہے، اسے پرکھنے کے لئے اصل ماخذ تک جانا پڑتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا دیکھنے والوں کے پاس وقت کہاں ہوتا ہے، وہ ہر جھوٹ پر یقین کر لیتے ہیں۔ یوں اب سوشل میڈیا کو کھل کھیلنے اور ہر اخلاقی معیار کو پامال کرنے کا لائسنس مل چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک فحش مواد والی کتاب کا حوالہ دینے پر عمران حکومت محسن بیگ کو دہشت گردوں والی کارروائی جیسے آپریشن سے گرفتار کرتی ہے، تو وہیں مریم نواز ایک خاتون ہو کر ایسے ہی فحش مواد اور گھٹیا پروپیگنڈہ کرنے والے ایک شخص سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ہیرو ثابت کرتی ہے۔

موجودہ سوشل میڈیا کی اصلاح پر وہی اصول لاگو ہوتا ہے جو قرآن نے شراب اور جوئے کے بارے میں لاگو کیا ہے۔ ” لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ منافع بھی ہیں، اور ان کے گناہ ان کے نفع سے زیادہ بڑے ہیں ” (البقرہ: 219)۔

آج اگر سوشل میڈیا بند کر دیا جائے تو اخلاقی پستی اور زوال کا سفر یقینا رک جائے گا، اور بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ لوگ علم کے حصول کے لئے اصل ماخذ یعنی کتاب کی طرف لوٹیں گے اور یوں لائبریری کا دور واپس آ جائے گا۔

بشکریہ روزنامہ 92