اسلام آباد(صباح نیوز)2024 میں پاکستان کے جمہوری نظام کو مسلسل سنگین خطرات درپیش رہے،پاکستان کی جمہوریت بھی شدید دبا کا شکار رہی، جمہوریت کو مزید نقصان پہنچایا گیا،اقتدار کے لالچ میں مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا گیا،مشکوک انتخابات کا انعقاد، عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرنا، پارلیمانی قواعد کی پامالی، حزب اختلاف کی پابندیوں میں مسلسل اضافہ اور شہریوں کے حقوق کو ختم یا کمزور کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کو درپیش اہم مسائل کے حوالے سے پلڈاٹ کی 2024 کی رپورٹ جاری کردی ۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں جمہوریت کی صورت حال پر جاری پلڈاٹ کی سالانہ جائزہ رپورٹ میں 2024 میں پاکستان کے جمہوری نظام کو درپیش اہم مسائل کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ سال 2024 کے دوران جیسے دنیا بھر میں جمہوریت نے مختلف بحرانوں کا سامنا کیا، اسی طرح پاکستان کی جمہوریت بھی شدید دبا کا شکار رہی۔پاکستان میں جمہوریت نے گزشتہ دہائی میں شاذ ونادر ہی سکھ کا سانس لیا ہے۔ سال 2024 میں بھی یہی صورت حال رہی۔ بلکہ جمہوریت کو مزید نقصان پہنچایا گیا۔ یہ سب ایک بہت ہی مانوس طریقہ کار کے تحت کیا گیا جس میں سیاستدانوں نے یا تو ملکی تاریخ کے سنگین ترین معاشی بحران سے نمٹنے کے دباؤ کے تحت یا پھر اقتدار کے لالچ میں مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا۔
یہ سب کچھ آئینی، قانونی اور انتظامی یلغار کے ذریعے حاصل کیا گیا۔ ان میں مشکوک انتخابات کا انعقاد، عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرنا، پارلیمانی قواعد کی پامالی، حزب اختلاف کی پابندیوں میں مسلسل اضافہ اور شہریوں کے حقوق کو ختم یا کمزور کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اور یہ سب کچھ بظاہر فیصلہ سازی کے عمل کو غیر جمہوری طاقتوں کے زیر اثر لانے کے لیے کیا گیا۔پلڈاٹ کی رپورٹ پاکستان میں جمہوریت کا معیار 2024 میں پاکستان کی جمہوریت پر اثر انداز ہونے والے درج ذیل اہم مسائل کو اجاگرکیا گیا ہے:فروری 2024 میں کافی تاخیر کے بعد بڑی حد تک ناقص عام انتخابات منعقد کیے گئے جن کا مقصد عوامی مینڈیٹ کو تقسیم کرنا اور شہریوں کو سیاسی وانتخابی چناو کا محض محدود اور نمائشی موقع فراہم کرنا تھا۔
پارلیمنٹ میں اپنی معمولی اکثریت کو محفوظ رکھنے کے لیے وفاقی حکومت نے اعلی عدلیہ کی تشکیل نو کی مہم شروع کی۔ آئین پاکستان میں چھبیسویں ترمیم کے ذریعے اعلی عدلیہ میں تقرری کے عمل کو موثر طریقے سے تبدیل کیا گیا اور آئینی اور دیگر معاملات سے نمٹنے کے لیے عدلیہ کو دو برانچوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ جمیعت علما اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی کوششوں کی وجہ سے صلا” مجوزہ ترمیم میں شامل سخت اقدامات کو کسی حد تک کم کر دیا گیا۔پارلیمنٹ نے تینوں دفاعی اداروں کے قوانین میں جلد بازی میں ترامیم منظور کیں جن کے تحت سروسز چیفس کی مدت ملازمت تین (3) سال سے بڑھا کر پانچ (5) سال کر دی گئی۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں یہ توسیع قانونی طور پر اس وقت منظور کی گئی جب ملک میں امن بھی ہے اور کوئی مارشل لا بھی نافذ نہیں ہے۔
پاکستان کی زیادہ تر سرکردہ سیاسی جماعتوں نے خواہ وہ حکومت میں ہوں یا حکومت سے باہر اپنے وقتی سیاسی مفاد کے لیے ایک بار پھر سیاسی مخالفین کے خلاف افسوسناک اور غیر جمہوری رویہ جاری رکھا۔ عدم برداشت کا یہ رویہ جماعتوں کو سیاسی وانتخابی فوائد تو پہنچاتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری طرز حکمرانی کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ بارہویں عام انتخابات کے ذریعے مرکز اور صوبوں میں وجود میں آنے والی موجودہ وفاقی اور صوبائی سیاسی حکومتیں بھی اسی طرز پر عمل پیرا ہے۔ سیاسی اختلاف رائے کو دبانے اور اسے خاموش کرنے کے لیے موجودہ حکومت نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے استعمال کو محدود کرنے کی کوششیں کیں جن کے نتیجے میں سوشل میڈیا ایپلی کیشنز پر پابندی لگائی گئی اور مواصلات کو کنٹرول کیا گیا۔
اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں فیصلہ سازی کا عمل دینے کے پیش نظر شہریوں کو درپیش ایک اہم مخمصہ یہ ہے کہ وہ فوج کی حرمت اور مقام کو نقصان پہنچائے بغیر اسٹیبلشمنٹ کے اس کردار کے خلاف اپنے جائز تحفظات سے کیسے آگاہ کریں، جو ہر شہری کے لیے آخری حد (ریڈ لائن) ہونی چاہیے۔ تاہم، سیاست سے دستبرداری کے لیے دی جانے والی لگاتار معقول تجاویز کے باوجود انہیں قبول کرنے اور سیاسی کردار سے پیچھے ہٹنے کی تا حال کوئی عوامی شہادت موجود نہیں ہے۔ ان تجاویز کا مقصد یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نہ صرف دفاع اور سلامتی کے بنیادی کام پر توجہ مرکوز کرے بلکہ اپنے عوامی تاثر کو بھی خراب ہونے سے بچائے جو پاکستان کی سلامتی کے لئے انتہائی اہم ہے۔
اس تاریک منظرنامے میں ملک کے اقتصادی استحکام میں اضافہ اور حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان سیاسی مذاکرات کے لیے آمادگی اور ان کا آغاز امید کی کرن ہے۔ حکومت اور اس کے حمایتیوں کی جانب سے بلند بانگ دعووں اور سخت موقف اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سول نا فرمانی کی دھمکیوں کے باوجود پلڈاٹ کا ماننا ہے کہ جامع مذاکرات مسلسل جاری رہنے چاہیں تاکہ ملک کے انتہائی ضروری سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے سیاسی طور پر مذاکراتی حل تلاش کیا جا سکے۔پلڈاٹ کی اس رپورٹ میں جمہوری نظام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تمام اداروں اور شراکت داروں سے جمہوری اصولوں کے لیے نئے عزم کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔