وفاقی دارالحکومت کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتا ل میں ڈاکٹروں کی شدید کمی کاسامنا،قائمہ کمیٹی برائے صحت میں انکشاف

اسلام آباد(صباح نیوز)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت میںا نکشاف ہواہے کہ وفاقی دارالحکومت کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتا ل میں ڈاکٹروں کی شدید کمی کاسامناہے کل ڈاکٹروں کی آسامیوں میں سے 55فیصد آسامیاں خالی ہیں ،پمز میںڈاکٹروں کی 434 نرسز کی 283،پیرامیڈک کی 304، نان میڈیکل کی 444آسامیاں خالی ہیں ۔ای ڈی پمزہسپتال ڈاکٹر رانا عمران سکندر نے اعتراف کیاکہ ہم مریضوں کو مفت دوائی نہیں دیتے صرف لائف سیونگ ڈرگ ہی ہسپتال کی طرف سے مریضوں کودی جاتی ہے ،ہمارا بجٹ تنخواؤں میں چلاجاتاہے اگر مریضوں کو تمام سہولیات مفت دیں تو اس کے لیے ہمیں مزید 6ارب روپے سالانہ کی ضرورت ہوگی،اگر صرف ادویات مفت دیں تو 2.5ارب روپے مزید چاہیے ہوں گے،تمام میٹروبسسزکے روٹ کاسٹاپ پمز ہسپتال کردینے سے او پی ڈی کے مریضوں کی تعداد7ہزار روزانہ ہوگئی ہے جومریض اپنی علاقہ سرکاری صحت مرکز میں جاسکتاہے وہ بھی پمز آرہاہے۔

قائمہ کمیٹی نے سفارش کی کہ اسلام آباد میں شہریوں کو صحت کی بہتر سہولت دینے کے لیے ضروری ہے کہ پمز ہسپتال کی فنڈنگ اور ہیومین ریسورس کو بڑھایاجائے۔اگر ڈاکٹروںاوردیگر سٹاف کی آدھی آسامیاں خالی ہوں گی توشہریوں کوصحت کی سہولت نہیں دی جاسکتی ہے۔ کمیٹی نے دو ترامیمی بلز بغیر کسی کارروائی کے آئندہ اجلاس تک کے لئے ملتوی کر دیئے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کا اجلاس چیئرمین مہیش کمارکی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاوس میںمنعقد ہوا۔ اجلاس میں زہرہ ودود فاطمی،ڈاکٹر درشن،شازیہ فوزیہ اسلم سومرو، سبین غوری عالیہ کامران ودیگر ممبران نے شرکت کی۔کمیٹی نے گزشتہ اجلاس کے کارروائی کی توثیق کی ۔وزارتِ صحت کی طرف سے بریفنگ کی  کاپیاں کمیٹی ممبران کووقت پرنہ دینے پرکمیٹی ممبران نے شدید برہمی کااظہارکیا۔حکام وزارتِ صحت  نے کمیٹی کوبتایاکہ  جمعہ کورپورٹ پارلیمنٹ میں بھیجوائے تھی۔ رکن کمیٹی حالیہ کامران نے کہاکہ ہفتہ اتوارکوپارلیمنٹ میں سرکاری چھٹی کی وجہ سے کمیٹی ممبران کو بریفنگ کیسے فراہم کی  جا سکتی  ہے، چئیرمین کمیٹی نے کہاکہ ایم ڈی کیڈ کے امیدواران کو سوالنامہ فراہم کرنا یقینی بنائیں،ایم ڈی کیڈ کے امیدواران کا میرٹ سپلی پاس کرنے والے طلبا کیساتھ نہ ہو،آئندہ اجلاس پی ایم ڈی سی میں ہوگی، ایجنڈا بھی پی ایم ڈی سی ہوگا۔ممبر کمیٹی شازیہ ثوبیہ  نے کہاکہ ری ہیبلیٹیشن سینٹر(بحالی مراکز) کا دورہ کیے بغیر نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے، ممبرکمیٹی راجہ خرم نے کہاکہ اسلام آباد میں سیکٹرزسے باہرکے علاقہ میں سسٹم اچھا نہیں ہے، ممبر کمیٹی شازیہ ثوبیہ نے کہاکہ109 نجی اسپتال اور کچھ ری ہیبلیٹیشن سینٹرہیں ان کوکون چیک کرتا ہے؟  ممبر کمیٹی راجہ خرم نے  کہاکہ سوشل میڈیا پر پولیو کی ٹیم اور پولیس کی وڈیو دیکھی،وڈیومیں پولیوکے قطرے پلانے پرپولیس والا بچے کے والد کومارتا ہے،اس کا نوٹس لیں اس سب معاملہ کودیکھا جائے۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ پولیوایک بہت اہم ایشو ہے صرف افغانستان ہی مسئلہ نہیں۔رکن کمیٹی ڈاکٹر امجد نے کہاکہ کے پی میں پولیو کے قطرے پلانے پر سوشل مسائل ہیں، پولیو کی بنا پر مسائل پیدا ہو رہے ہیں،چاروں صوبوں کے سیکرٹری کو بلا کر پولیو پر ایک پلان بنائیں،بہت سے نجی اسپتالوں نے ٹرسٹ کے نام پر زمین لی ہوئی ہیں،بڑی مچھلیوں کو بلائیں اور ریگولیٹر کرائیں،ایک دن علاج کا دو دو لاکھ روپے لیا جا رہا ہے۔حکام وزارت صحت نے بتایاکہ 55 ری ہیبلیٹیشن میں سے 25 رجسٹر ہیں، دیگر ادارے جب تک اسٹینڈرڈ پر نہیں آتے وہ کام نہیں کر سکتے ہیں۔ممبر کمیٹی شازیہ ثوبیہ نے کہاکہ نور مقدم والے واقعہ میں بھی ری ہیبلیٹیشن سینٹر تھا،آپ لوگ کب ری ہیلیٹیشن سینٹر کو لیول پر لائیں گے،حکام نے بتایاکہ  اس سب پر کمیٹی کو رپورٹ جمع کرا دیں گے، ممبر کمیٹی عالیہ کامران نے کہاکہ پولی کلینک نے بڑی رقم سی ڈی اے کو دی؟ پولی کلینک کی آڈٹ رپورٹ کا پوچھا ہے ،پولی کلینک میں ادویات پر سوال کیا تھا،کسی بھی چیز کا تو جواب نہیں  آیا ہے۔حکام وزارت صحت نے بتایاکہ پیسہ ہم نے ارجنٹینا پارک کی مد میں دئے تھے، پولی کلینک کو ارجنٹینا پارک کی زمین ملنے پر لوگ عدالت چلے گئے، ارجنٹینا پارک کی جگہ جی الیون تھری میں پولی کلینک کو زمین ملی تھی ۔ای ڈی پمز ڈاکٹر رانا عمران سکندر نے کمیٹی کوبریفنگ دیتے ہوئے بتایاکہ پمز ہسپتال کے موجودہ وسائل اور افرادی قوت کے ساتھ میں وہ صحت کی سروس نہیں دے سکتا ہوں جو پرائیوٹ ہسپتال دے رہاہے 18 ویں ترمیم کے بعد صحت صوبائی سبجیکٹ ہے مگر اب بھی صوبوں سے مریض پمز میں آتے ہیں ۔ ہمیں بجٹ صرف اسلام آباد کے شہریوں کے صحت کا دیا جاتا ہے ۔ ارکان کمیٹی نے کہاکہ اس طرح کی بات نہ کریں 18ویں ترمیم یہ نہیں کہتا ہے کہ صوبوں سے آنے والے مریضوں کا علاج نہیں ہوسکتا ہے ۔ای ڈی پمز نے کہا کہ پمز میں کل 1254بڈز ہیں اور ہسپتال میں کل 18 شعبے ہیں۔ پمز میں مختلف شعبے کے آئی سی یو میں 93بیڈز ہیں ۔پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ میں پوسٹ گریجویٹ کی 613 سیٹیں ہیں ۔پمز ہسپتال میں کل سیکشن آسامیوں کی تعداد 4153ہے جس میں سے 2856 آسامیوں پر لوگ کام کررہے ہیں باقی آسامیاں خالی ہیں ۔ کل 811ڈاکٹروں کی آسامیاں ہیں سپیشلسٹ کی 410 آسامیاں  ہیں۔ 811ڈاکٹروں کی آسامیاں میں سے 377 ڈاکٹر کام کررہے ہیں ۔212ڈاکٹروں کی آسامیاں پر بھرتی کا عمل فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے جاری ہے ۔ سکیل 1 سے 15 تک 404آسامیوں پر بھرتی کا عمل جاری ہے جبکہ سکیل 16 سے اوپر 521آسامیوں پر بھرتی کا عمل جاری ہے ۔ڈاکٹروں کی 434 نرسز کی 283،پیرامیڈک کی 304، نان میڈیکل کی 444آسامیاں خالی ہیں کل 1297آسامیاں پمز میں خالی پڑی ہوئی ہیں۔ پمز او پی ڈی میں سالانہ 14لاکھ مریض روزانہ آتے ہیں۔روزانہ 7ہزار مرض او پی ڈی میں آتے ہیں۔ 2سو مریضوں کو ایڈمٹ کیا جاتا ہے مگر جن مریضوں کا ایڈمٹ کرنا ضروری ہوتا ہے ان کی تعداد اسے دگنی ہے ۔پمز کو 8.5ارب روپے بجٹ دیا گیا ہے جس میں سے 3.27 ارب روپے خرچ ہوگیا ۔ بجٹ کابڑا حصہ ملازمین کی تنخواہوں میں چلاجاتا ہے ۔ بجٹ میں مریضوں کو صرف لائف سیونگ ڈرگ ہی دیتا ہوں میں عام مریضوں کو دوائی اس بجٹ میں نہیں دے سکتا ہوں۔اگر پمز میں مریضوں کو مفت علاج کریں تو پمز کو مزید 6ارب روپے سالانہ خرچ ہوں گے ۔ اگر صرف مریضوں کو مفت دوائیاں دیں تو  2.5ارب روپے مزید چاہیے ہوں گے ۔پمز میں مریض اپنی دوائیں خود خریدتا ہے ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں کہ مفت دوائیں دے سکیں۔ صرف لائف سیونگ ڈرگ ہم مریضوں کو دیتے ہیں۔تمام میٹروبسسزکے روٹ کاسٹاپ پمز ہسپتال کردینے سے او پی ڈی کے مریضوں کی تعداد7ہزار روزانہ ہوگئی ہے جومریض اپنی علاقہ سرکاری صحت مرکز میں جاسکتاہے وہ بھی پمز آرہاہے۔(aw)