اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے زمین کی خریداری کے تنازعہ کے کیس میں غلط بیانی ثابت ہونے پر دونوں فریقین کو جیل بھجوانے کا انتباہ کرتے ہوئے فریقین کے وکلاء کوسوچنے کے لئے 10روز کاوقت دے دیا۔
جبکہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 199کے تحت سندھ ہائی کورٹ حقائق کاتعین نہیں کرسکتی۔اسلام آباد میں فراڈ ہورہا ہے اگرکسی شخص کے لواحقین نہ ہوں تودیگر لوگ مرنے والے کے رشتہ دار بن کرجائیداد اپنے نام کروالیتے ہیں، ہمارے پاس اس حوالہ سے کیسز آئے ہیں۔
معاہدے کے پہلے صفحہ پردستخط ہونے چاہیں وہ کیوں نہیں، پہلے صفحہ کونکال دیں توکیا دوسرے صفحہ کی بنیاد پرفیصلہ ہوسکتا ہے۔ جبکہ ایک درخواست گزار کے دلائل کوسیاسی بیانات قراردے کردرخواست خارج کردی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 2رکنی بینچ نے جمعرات کے روز فائنل اورسپلمینٹری کاز لسٹ میں شامل 18کیسز کی سماعت کی۔ جبکہ جسٹس امین الدین خان نے ایک محفوظ شدہ فیصلہ بھی پڑھ کرسنایا ۔بینچ نے محمد یوسف کی جانب سے محمد احسان چیمہ کے خلاف دونوں کی ملکیت کے حوالہ سے دائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزارکی جانب سے مدثر خالد عباسی بطور وکیل پیش ہوئے۔
جسٹس امین الدین خان نے درخواست گزارکے وکیل سے استفسار کیا کہ ابھی آپ کاقبضہ ہے۔اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ قبضہ ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ یہ خاندانی جائیداد ہے آپ 30سال سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاسوری۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ ہمیں 3جنوری تک دوکانیں خالی کرنے کی آخری مہلت دی ہوئی ہے اس میں توسیع کردیں۔ اس پر جسٹس امین الدین خان نے درخواست گزار کوہدایت کہ وہ فیصلے پرعملدرآمد کرنے والی عدالت سے رجوع کریں۔ عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پرخارج کردی۔بینچ نے اختروحید کی جانب سے محمد حسین اوردیگر کے خلاف زمین کے ملکیت کے تنازعہ پردائر درخواست پرسماعت کی۔وکیل کاکہنا تھا کہ 2لاکھ30ہزارروپے رقم اداکی گئی ہے۔
جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ معاہدے کے پہلے صفحہ پردستخط ہونے چاہیں وہ کیوں نہیں، پہلے صفحہ کونکال دیں توکیا دوسرے صفحہ کی بنیاد پرفیصلہ ہوسکتا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کافیصلہ لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ معاہدے کے پہلے صفحہ پر فریقین کے دستخط اور انگوٹھے کے نشان نہیں۔ بینچ نے درخواست خارج کردی۔ بینچ نے چوہدری صفدرعلی کاہلوں کی جانب سے چوہدری نعیم احمد ایڈووکیٹ کے خلاف حق شفع کے معاملہ پردائر درخواست پرسماعت کی۔ دوران سماعت مدعا علیہ کے وکیل حافظ نعمت اللہ نے پیش ہوکربتایا کہ درخواست گزارنے عدالت سے حقائق چھپائے ہیں ، درخواست گزار ہائی کورٹ میں لکھ کردے چکا ہے کہ اس نے اپنے پیسے واپس لے لئے ہیں اور زمین کاقبضہ بھی مدعا علیہ کے حوالہ کردیا ہے۔
اس پردرخواست گزارکے وکیل محمد رمضان چوہدری کاکہنا تھا کہ وہ اس بیان کے حوالہ سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ سچا ہے یاجھوٹا ہے، میں اپنے مئوکل سے پوچھ کربتاسکتا ہوں۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ کل کے لئے سماعت رکھ لیتے ہیں لیکن پھر آپ کوجرما ہوگا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ یہ 2014کاکیس ہے۔ اس دوران کمرہ عدالت میں درخواست چوہدری صفدر علی کاہلوں روسٹرم پر آگئے اور پیسے واپس لینے یا دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مدعا علیہ وکیل ہیں انہوں نے زبردستی اُس سے دستخط کروائے ہیں اور میرے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے اور قبضہ زبردستی لیا ہے۔
اس پرجسٹس امین الدین خان کامدعا علیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے مئوکل وکیل بھی ہیں اوران پر درخواست گزارکی جانب سے سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگر غلط بیانی کی گئی ہے تو دونوں فریق گھر نہیں جائیں گے، یہ آئندہ سماعت پر سوچ کرآئیں۔ عدالت نے فریقین کو سوچنے کے لئے 10دن کاوقت دے دیا۔ جبکہ بینچ نے ڈاکٹر معین الدین اوردیگر کی جانب سے کرایہ ادانہ کرنے کے معاملہ پر ذوالفقار اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔
درخواست گزار ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے جبکہ سندھ حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پیش ہوئے۔ سرکاری وکیل کاکہنا تھا کہ سندھ حکومت نے معاملہ پراس لئے فیصلہ نہیں کیا کہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ کیا سپریم کورٹ نے کوئی حکم امتناع جاری کیا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کیا یہ جائیدادسندھ حکومت کودی گئی ہے۔ جسٹس امین الدین خان کادرخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سول دعویٰ دائر کریں یہ رٹ میں نہیں ہوسکتا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ یہ جائیداد کسی کی توہوگی یہ تونہیں ہوسکتا کہ کسی کی بھی نہ ہو۔
درخواست گزار کاکہنا تھا کہ عدالتوں کاکام انصاف دینا ہے میں کہاں جائوں۔ اس پر جسٹس امین الدین خان کادرخواست گزارکومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ آپ کے سیاسی بیانات ہیں، یہ درخواست قابل سماعت نہیں، جائیے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 199کے تحت سندھ ہائی کورٹ حقائق کاتعین نہیں کرسکتی۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے)کی جانب سے پلاٹ کی ملکیت کے تنازعہ پر یکطرفہ عدالتی کاروائی کوکالعدم قراردلوانے کی درخواست پرسماعت کی۔
درخواست میں محمد نیاز اوردیگر کوفریق بنایا گیا تھا۔ سی ڈی اے کی جانب سے شہریارطارق بطور وکیل پیش ہوئے۔ سی ڈی اے وکیل کاکہنا تھا کہ کسی شخص کے ورثاء نہ ہوں تولوگ جعلی بیان بنا کروراثت حاصل کرلیتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ یہ کام گڑبڑلگتا ہے، ہم معاملہ حقائق کے تعین کے لئے ٹرائل کورٹ کو بھیج دیتے ہیں، یہ نظرآتا ہے کوئی گڑبڑ ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ یہ درخواست گزارنے بتانا ہے جائیداد کس سے خریدی۔ اس پر مدعا علیہ کے وکیل کاکہنا تھا کہ افتخار مرزا، مرحوم نور حسین کا واحد وارث تھا۔ اس پر جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ عبدالحمید تدفین کروارہا ہے، اس کاشناختی کارڈ نمبر اورگھر کاپتا بھی دیا ہے، آپ کانام کدھر ہے، اندراج عبدالحمید نے کروایا ہے۔
جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اسلام آباد میں فراڈ ہورہا ہے ، ہمارے پاس اس حوالہ سے کیسز آئے ہیں، تنازعہ توتب ہواگردرخواست گزارلواحقین کے خلاف آئے ہوں۔ مدعا علیہ کے وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار واحد وارث ہے۔جسٹس امین الدین خان نے مدعا علیہ کے وکیل کوہدایت کی کہ وہ اپنے مئوکل سے مشورہ کرلے ہم ٹرائل کورٹ کو معاملہ بھیج دیتے ہیں وہ سی ڈی اے اورمدعا علیہ کوسن کرمیرٹ پر فیصلہ کرے اگر ہم سے فیصلہ کروایا توشاید کچھ بھی مدعا علیہ کونہ ملے۔ اس کے بعد مدعا علیہ نے اپنے مئوکل سے مشورہ کے بعدکہا کہ معاملہ ٹرائل کورٹ کوبھجوادیا جائے۔
جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ مدعا علیہ جاکراپنا کیس ثابت کریں، مدعا علیہ کوسی ڈی اے کے اعتراضات پر جواب داخل کرنے کاحق ہوگا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ نورحسین کاواحد وارث افتخار احمد ہے تاہم افتخار کی ولدیت بھی نہیں لکھی۔ بینچ نے ٹرائل کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے کالعدم قراردیتے ہوئے ٹرائل کورٹ کودوبارہ فریقین کوسن کر میرٹ پرشواہد ریکارڈ کرنے کے بعد فیصلہ کرنے کاحکم دے دیا۔ عدالت نے درخواست نمٹادی۔جبکہ بینچ نے ضلع رحیم یارخان سے تعلق رکھنے والی درخواست گزار صاحب خاتون کی جانب سے زمین کے تنازعہ پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج اور دیگر کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب جام خورشید احمد نے پیش ہوکردلائل دیئے۔
جام خورشید احمد کاکہنا تھا کہ مدعا علیہ نے 1968میں ہماری جائیداد میں مداخلت شروع کی اور پنجاب حکومت سے پٹاملکیت حاصل کیا، 12مرلے پر میرامکان بنا ہوا ہے ، گزشتہ200سال سے میرے آبائواجداد یہاں رہ رہے ہیں، مدعا علیہ نے 2003میں درخواست دی کہ ریونیوریکارڈ میں معمولی سی غلط ہے اس کی درستگی کی جائے، 32سال بعد مدعا علیہ نے دعویٰ دائر کیا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ حقائق کے حوالہ سے عدالتوں کے فیصلے ہیں، تمام عدالتوں سے درخواست گزارہارے ہیں۔ درخواست گزارکے وکیل کاکہنا تھا کہ سروے آف پاکستان سے زمین کی ملکیت کاتعین کیا جائے وہ ہمیں قابل قبول ہوگا۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔