دمشق (صباح نیوز)ایک طرف جب بہت سے شامی اب بھی بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے پر خوشی منا رہے ہیں تو دوسری طرف ھیئہ تحریر الشام کے کمانڈر اور شام میں ملٹری آپریشنز ڈیپارٹمنٹ کے رہنما احمد الشرع نے کہا ہے کہ وہ خود کو ملک کو آزادی دلانیوالا نہیں سمجھتے۔انہوں نے اتوار کے روز العربیہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میں اپنے آپ کو شام کا آزاد کرانے والا نہیں سمجھتا جس نے بھی قربانیاں دی ہیں اس نے ملک کو آزاد کرایا۔ میرے خیال میں شامی عوام نے خود کو آزاد کرایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلح گروپوں نے آزادی کے عمل کے دوران جانی نقصان یا نقل مکانی سے بچنے کے لیے بہت احتیاط برتی۔ ہم نے اقتدار کی منتقلی کو ہموار کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شام کی آزادی اگلے پچاس سالوں کے لیے خطے اور خلیج کی سلامتی کی ضمانت دیتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ملک میں نئے آئین کی تیاری اور تحریر میں تقریبا 3 سال لگ سکتے ہیں اور انتخابات کے انعقاد میں بھی 4 سال لگ سکتے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ کسی بھی مناسب انتخابات کے لیے ایک جامع مردم شماری کی ضرورت ہوگی جس کے لیے وقت درکار ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی غور کیا کہ آج ملک قانون کی تعمیر نو کے مرحلے میں ہے۔ انہوں نے کہا “قومی مکالمہ کانفرنس” معاشرے کے تمام اجزا کو اکٹھا کرے گی، خصوصی کمیٹیاں بنائے گی اور ووٹنگ کا مشاہدہ بھی کرے گی۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ شام کو ایک سال کی ضرورت ہے تاکہ شہری خدمات میں بنیادی تبدیلیاں دیکھ سکیں۔ مظاہروں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اداروں سے تعصب کے بغیر اپنی رائے کا اظہار کرنا کسی بھی شہری کا جائز حق ہے۔جہاں تک موجودہ عبوری حکومت میں ایک رنگ کی تقرریوں کا تعلق ہے احمد الشرع نے وضاحت کی کہ یہ قدم اس لیے اٹھایا گیا ہے کہ اس مرحلے کے لیے نئی اتھارٹی کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعیناتیوں کی موجودہ شکل اس مرحلے پر ایک ضرورت تھی۔ یہ کسی کو نکالنا نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس مرحلے میں کوٹہ عبوری عمل کو تباہ کر دے گا۔کچھ انتقامی کارروائیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ انتقامی کارروائیاں بحران کے حجم کے مقابلے میں توقع سے کم تھیں۔ انہوں نے کہا پچھلی حکومت نے شامی معاشرے میں بہت بڑی تقسیم پیدا کی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ شام کے اندر کوئی تشویش نہیں ہے کیونکہ شامی ایک ساتھ رہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جرائم کے تمام مرتکب افراد کو ان کے عمل کی سزا ملے گی۔جہاں تک ھیئہ تحریر الشام سمیت دھڑوں کو تحلیل کرنے کا تعلق ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ گروپ یقینی طور پر تحلیل ہو جائے گا۔ اس کا اعلان قومی ڈائیلاگ کانفرنس میں کیا جائے گا۔ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ نئی اتھارٹی ریاستی ذہنیت کے ساتھ ملک کو چلائے گی۔ انہوں نے کہا کہ شام کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بنے گا۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ موجودہ انتظامیہ شمال مشرقی شام میں بحران کو حل کرنے کے لیے “سیرین ڈیموکریٹک فورسز” (SDF) کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔ بعد میں اسے حکومتی مسلح افواج کے ساتھ ملا لے گی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کرد شام کے اجزا کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ ملک کی کوئی تقسیم نہیں ہوگی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں نئی امریکی انتظامیہ ملک پر سے پابندیاں اٹھا لے گی۔
سعودی عرب کے حالیہ بیانات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ بیانات بہت مثبت ہیں۔ مملکت شام میں استحکام کی خواہاں ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ سعودی عرب کے پاس شام میں سرمایہ کاری کے بڑے مواقع موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مجھے سعودی عرب نے شام کے لیے جو کچھ بھی کیا ہے اس پر فخر ہے۔ سعودی عرب کا شلم کے مستقبل میں اہم کردار ہے۔ انہوں نے ریاض میں پیدا ہونے پر بھی فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ سعودی دارالحکومت میں سات سال کی عمر تک رہے اور دوبارہ اس کا دورہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔احمد الشرع نے کہا ایران کے حوالے سے مجھے امید ہے کہ تہران خطے میں اپنی مداخلتوں کا از سر نو حساب کرے گا اور اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک بڑا طبقہ خطے میں مثبت ایرانی کردار کی خواہش رکھتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ملٹری آپریشنز ڈیپارٹمنٹ نے زخموں کے باوجود ایرانی ہیڈکوارٹرز کے حوالے سے اپنا فرض ادا کیا۔ ہمیں تہران سے مثبت بیانات کی توقع تھی۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ نہیں چاہتے کہ روس ایسے طریقے سے نکلے جو شام کے ساتھ اس کے تعلقات کے موافق نہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ روس دنیا کا دوسرا طاقتور ملک ہے اور اس کی بہت اہمیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ دمشق کے ماسکو کے ساتھ سٹریٹجک مفادات ہیں۔واضح رہے 8 دسمبر کو سابق صدر بشار الاسد کے زوال کے ساتھ ہی ایران خطے میں ایک اہم اتحادی سے محروم ہو گیا اور ساتھ ہی لبنان میں حزب اللہ کو ہتھیاروں کو فراہمی کے لیے ایک اہم زمینی راہداری سے بھی محروم ہوگیا ہے۔ ماسکو نے برسوں کے دفاع کے بعد دمشق میں اپنے اتحادی کو بھی کھو دیا۔ تاہم حالیہ روسی بیانات عارضی طور پر ملک کا انتظام سنبھالنے والی نئی شامی اتھارٹی کے لیے بہت مثبت نظر آئے۔۔