آئین کے تحت ایک کیس میں دوسراٹرائل نہیں ہوسکتا۔ اجازت دی توپھر درخواستوں کا سیلاب آجائے گا،جسٹس اطہرمن اللہ

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ہے کہ آدھے سے زیادہ پاکستان میں لوگ ذہنی مریض ہیں۔ یہ سپریم کورٹ کے فیصلے ہیں کہ اگرکوئی کہے کہ وہ ذہنی مریض ہے تواُ ُس نے ہی یہ ثابت کرنا ہے۔ اگر خطرہ ہوکہ پاگل باہر نکل کرکسی اور کونقصان پہنچائے گا توپھر اسے دماغی ہسپتال میں رکھا جائے گا۔

دیکھنا یہ ہوگا کہ شیزوفرینیا کی بیماری سے قبل قتل کیا یا بعد میں۔آئین کے تحت ایک کیس میں دوسراٹرائل نہیں ہوسکتا۔ اگر ایک ٹرائل کے بعد ایک ہی کیس کادوبارہ ٹرائل کرنے کی اجازت دی توپھر درخواستوں کا سیلاب آجائے گا۔ جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر کوئی ذہنی مریض ہوتوپہلے اُس کاعلاج ہو گااوربعد میں ٹرائل ہوگا۔ عدالتیں ملزم کے حق میں صوابدید استعمال کرسکتی ہیں۔جبکہ بینچ نے اغواکیس میںملزم کی تین مختلف کیسز میں سزائیں اکٹھی چلانے کاحکم دے دیا۔ ملزم 18سال10ماہ اور27روز سے جیل میں ہے اور عمر قید سے زیادہ سزابھگت چکا ہے۔ جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کورٹ ایسوسی ایٹ کوہدایت کی ہے کہ 2017والے فوجداری کیسز کوجلد سماعت کے لئے مقررکرناہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے جمعرات کے روز مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے مقبول احمد کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کااپنی بیوی کے قتل کاٹرائل ہوا تاہم وہ بری ہو گیا جس کے بعد اس نے اپنے سسر اورسالوں کے خلاف اپنی بیوی کے قتل کی پرائیویٹ شکایت درج کروائی۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ ملزمان کوٹرائل کے لئے طلب کیا جائے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ آئین کے مطابق ایک کیس میں دوبارہ ٹرائل نہیں ہوسکتا۔ اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب عرفان ضیاء کاکہنا تھا کہ ایک کادوبارہ ٹرائل نہیں ہوسکتاتاہم کوئی نئے شواہد سامنے آئیں تواور بات ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ اگر ایک ٹرائل کے بعد ایک ہی کیس کادوبارہ ٹرائل کرنے کی اجازت دی توپھر درخواستوں کا سیلاب آجائے گا۔

جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ کسی خاتون کاخاوند قتل ہوجائے اور بیوی کوبھی قاتل ساتھ لے جائیں اور کیس کاٹرائل ہوجائے اورکس ناحق کوسزاہوجائے اور بیوی واپس آکر کہے کہ کیس کے حقائق تومختلف ہیں اس کے سامنے قتل ہوا توپھر کیا ہوگا۔ بینچ نے درخواست گزار کے وکیل محمد عزیر چغتائی اور اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کوہدایت کی کہ وہ اس نقطہ پر تیاری کرکے آئیں کہ آیا ایک مرتبہ ٹرائل ہونے کے بعد دوبارہ اسی کیس میں پرائیویٹ شکایت درج کروائی جاسکتی ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔ جبکہ بینچ نے قدیر احمد کی جانب سے ریاست پاکستان کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزار کو قتل کیس میں پھانسی کی سزاہوئی جسے ہائی کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کردیا۔

درخواست گزار ن کی جانب سے چوہدری محمد زرداد بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرل عرفان ضیاء پیش ہوئے۔درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہ اس کا مئوکل ذہنی مریض ہے ۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ مقتول کودرخواست گزار نے چارگولیاںماری ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ مقتول کے اپنے بیان پرایف آئی آر ہوئی۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ میڈیکل بورڈ نے درخواست گزار کوٹرائل کے لئے فٹ قراردیا مگرلگتا تویہ نیم پاگل ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ شیزوفرینیا کی بیماری سے قبل قتل کیا یا بعد میں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا میڈیکل بورڈ کودرخواست کی کہ درخواسست گزا پاگل پن کاشکا رہے، ثابت یہ کرنا ہے کہ جس وقت واقعہ ہوااُس وقت اِس کواچھے برے کی تمیز تھی کہ نہیںیا قتل کرنے کاپتا ہی نہیں چلا کہ کیا کرنے جارہاہوں اور نتائج کیانکلیں گے، ہوسکتا ہے واقعہ کے وقت اُس کودورہ پڑگیاہو۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ دماغی طور پر فٹ نہیں تھاتواِس کاٹرائل نہیں ہوناچاہیئے تھا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ 19مئی2011کا وقوعہ ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ یہ سپریم کورٹ کے فیصلے ہیں کہ اگرکوئی کہے کہ اسے شیزوفرینیا ہے تواُس نے ہی یہ ثابت کرنا ہے، آدھے سے زیادہ پاکستان میں لوگوں کو شیزوفرینیا ہوگیا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر کوئی ذہنی مریض ہوتوپہلے اُس کاعلاج ہو گااوربعد میں ٹرائل ہوگا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر درخواست گزار پاگل ہے توکیاوکیل چاہتے ہیں کہ کیس ووبارہ ٹرائل کورٹ کوبھیج دیا جائے وہ فیصلہ کرے کہ درخواست گزار پاگل ہے کہ نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ اگر خطرہ ہوکہ پاگل باہر نکل کرکسی اور کونقصان پہنچائے گا توپھر اسے دماغی ہسپتال میں رکھا جائے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست گزارواقعہ کے وقت عدم توازن کاشکار تھا تو اوراسے اپنے اقدام کی سمجھ نہیں اگر یہ ثابت نہ کرسکے توآپ کاکیس گیا۔ درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہنا تھا کہ اُس کامئوکل 19مئی2011سے گرفتار ہے۔عدالت نے درخواست گزارکے وکیل کومزید تیاری کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی مزیدسماعت ایک ماہ تک ملتوی کردی۔

دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے کورٹ ایسوسی ایٹ کوہدایت کی ہے کہ 2017والے کیسز کوجلد سماعت کے لئے مقررکرناہے۔ جبکہ بینچ نے اغواکرنے کے کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے مجرم نور محمد کی جانب سے ریاست پاکستان کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ ایک مجرم فضل محمد پہلے ہی انتقال کرچکا ہے جبکہ درخواست گزار 18سال سے جیل میں ہے۔

درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہ اس کامئوکل 2006سے جیل میںہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس جورپورٹ آئی ہے اس کے مطابق درخواست گزار کی سزا 2030میں مکمل ہوگی۔ وکیل کاکہنا تھا کہ ایک ہی واقعہ کے تین الگ، الگ کیسز درج کئے گئے اور الگ الگ سزاہوئی اور تینوں سزائیں الگ ، الگ چل رہی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اِس کاکوئی اورکام نہیں یہ جرائم کرتا تھا، کون ہے یہ شخص۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ وکیل کہہ رہے ہیں کہ تینوں سزائیں اکٹھی شروع کی جائیں۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ وکیل بتائیں کہ اگر پرچہ الگ بھی ہوتو ہم ایک ساتھ سزائیں شروع کرواسکتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست گزار 2006سے جیل میںہے ، درخواست گزار کی نشاندہی پر مغوی بازیاب ہوا، اسلحہ بھی برآمد ہوا اور پولیس پرفائرنگ بھی کی گئی۔ انسداد دہشت گردی عدالت نمبر 1کوئٹہ میں ٹرائل چلا اور سزاہوئی جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ نے سزابرقراررکھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا ماتحت عدالتوں نے تینوں سزائیں اکٹھی شروع کرنے کاصوابدیدی اختیاراستعمال نہیں کیا، درخواست گزار2006سے جیل میں ہے اوراُس نے عمرقید سے زیادہ سزاگزارلی ہے۔

سرکاری وکیل روبینہ بٹ نے درخواست گزار کے دلائل کی مخالفت کی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھاکہ عدالتیں ملزم کے حق میں صوابدید استعمال کرسکتی ہیں۔ ملزم کوجیل میں 18سال10ماہ اور27دن ہوگئے ہیں۔ ملزم نابالغ بھی تھا تاہم ماتحت عدالتوں نے اسے نابالغ ہونے کافائدہ بھی نہیں دیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سزائیں برقراررہیں گی تاہم وہ تینوں اکٹھی چلیں گی۔ ملزم کوسی آرپی سی کی دفعہ 382کا فائدہ بھی حاصل ہو گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اپیل خارج ہے لیکن سزائیں اکٹھی چلیں گی۔