اسلام آباد (صباح نیوز ) توانائی اور معیشت کے ماہرین نے قرار دیا ہے کہ توانائی کے بحران سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی فوسل فیول منصوبوں میں ضرورت سے زیادہ سرمایہ کاری کے باعث غیر فعال منصوبے قومی معیشت پر بوجھ بن رہے ہیں،ٹیرف کو ہم آہنگ کرنے کیلئے فوسل فیول کے استعمال کو روکنے کاعزم کرنا ہوگا۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ چین کے ساتھ ماحولیاتی صورتحال کے تناظر میں کوئلے سے چلنے والے پلانٹس کی لاگت میں کمی کے لئے بات کرے۔انہوں نے پاکستان میں قابلِ تجدید توانائی کے مقامی حلوں کو اپنانے اور فوسل فیولز سے صاف توانائی کی منتقلی کے لئے ایک مربوط فریم ورک کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ماہرین نے ان خیالات کا اظہار سی او پی 29 میں فوسل فیولز کے نظرانداز پہلو کے موضوع پر ایک اعلیٰ سطح کے پالیسی گول میز مذاکرہ میں کیا جس کا انعقاد پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی نے کیا تھا۔تقریب کے افتتاحی کلمات میں ایس ڈی پی آئی کے توانائی ماہر ڈاکٹر خالد ولید نے زور دیا کہ توانائی کے تحفظ کے لئے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کیلئے قابلِ تجدید توانائی ٹیکنالوجیز کو مقامی سطح پر اپنانا ناگزیر ہے۔ انہوں نے گلوبل نارتھ سے ٹیکنالوجی منتقلی اور معلومات کے تبادلے کے ذریعے بہترین طرزِ عمل اپنانے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر ولید نے خبردار کیا کہ توانائی کے مرکب میں مقامی کوئلے کی شمولیت مستقبل میں کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم (سی بی اے ایم) جیسے بین الاقوامی اصولوں کے تحت مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
انہوں نے توانائی کی ہموار منتقلی کیلئے جسٹ انرجی ٹرانزیشن پارٹنرشپس (JETPs) اور کوئلے سے صاف توانائی کے کریڈٹ میکنزم جیسے مارکیٹ اقدامات کی تجویز دی۔ایس ڈی پی آئی کی زینب بابر نے پاکستان کی آر ایل این جی اور کوئلے پر انحصار کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا نسبتاً کوئلے کا بیڑا ان پرانے پلانٹس کے خاتمہ کی کوششوں میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ انہوں نے قابلِ تجدید توانائی کی توسیع میں ناکافی گرڈ گنجائش، ریگولیٹری غیر یقینی، اور زمین کے حصول کے مسائل کو اہم چیلنجز قرار دیا۔انڈس کنسورشیم کے ڈاکٹر ماجد بلال نے توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیشِ نظر پاکستان میں شمسی توانائی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے بتایا کہ 2023 میں پاکستان نے 2.5 بلین ڈالر مالیت کے سولر پینلز درآمد کئے لیکن توانائی کے مرکب میں شمسی توانائی کا حصہ محض 1.5 فیصد ہے، جبکہ کوئلے کا حصہ 16 فیصد ہے۔ ماہرین نے حکومت پر زور دیا کہ وہ کوئلے کے پلانٹس کے بڑے عالمی شراکت دار چین کے ساتھ ماحولیاتی صورتحال کے تناظر میں شرائط کا از سر نو جائزہ لے کر کوئلے سے چلنے والے پلانٹس کی لاگت میں کمی کیلئے بات کرے۔ توانائی کی غیر ملکی ماہر جولیا نے فوسل فیول پلانٹس کے خاتمے کیلئے بلینڈڈ فنانس کو ایک حل کے طور پر تجویز کیا۔ انہوں نے کہا کہ محدود مالیاتی وسائل کے باوجود دستیاب فنڈنگ کا صحیح استعمال نہیں کیا جا رہا۔ حکومتوں کو ٹیرف کو ہم آہنگ کرنے اور فوسل فیول کے پلانٹس کی مزیدتعمیر کو روکنے کاعزم کرنا ہوگا۔پائیڈ (PIDE) کی سینئر ماہر معیشت عافیہ ملک نے قابلِ تجدید توانائی کے طویل مدتی فوائد پر مبنی اعدادوشمار پیش کئے۔
انہوں نے کہا صدی کے اخر تک قابلِ تجدید توانائی کے اپنانے سے دنیا بھر میں 78 کھرب ڈالر کے فوائد حاصل ہونگے جبکہ کوئلے کے پاور پلانٹس کے مقابلے قابلِ تجدید توانائی میں تین گنا زیادہ ملازمتیں پیدا کرنے کی گنجائش ہے۔پینل نے متفقہ طور پر فوسل فیولز کے مرحلہ وار خاتمے کے لئے بین الاقوامی مالی معاونت اور جیـ7 ممالک کے ساتھ شراکت داری کیلئے ایک 10 سالہ اسٹریٹجک منصوبے کی ضرورت پر زور دیا ۔ایس ڈی پی آئی کے سینئر مشیر شاکب الٰہی نے مذاکرے کا اختتام کرتے ہوئے توانائی کی منتقلی کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے اسے محض پالیسی کا مسئلہ نہیں بلکہ بقا کا معاملہ بھی قرار دیا۔