مشاورت یا شوری، اسلامی تعلیمات میں گہرائی سے جڑا ہوا ایک اصول ہے جو اجتماعی فیصلہ سازی کی جمہوری روح کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ اصول اجتماعی دانش کو تلاش کرنے، انصاف کو یقینی بنانے، اور اتحاد کو فروغ دینے پر زور دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی اہمیت کو یوں بیان کیا گیا ہے:
اور وہ لوگ جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کا کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور وہ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں” (سور الشوری، 42:38)
یہ آیت گفتگو اور شراکت داری پر مبنی حکمرانی کو ایک خوشحال معاشرے کی بنیاد کے طور پر اجاگر کرتی ہے۔
نبی کریم ۖ کی زندگی شوری کی عملی مثالیں فراہم کرتی ہیں۔ اہم مواقع جیسے غزوہ احد اور صلح حدیبیہ میں آپ ۖ نے اپنے صحابہ کرام سے مشورہ لیا، ان کی بصیرت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا، اور اجتماعی دانش کا ایک مضبوط کلچر پیدا کیا۔ اس عمل سے فیصلے ذاتی خواہشات سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ اجتماعی جوابدہی اور الہی رہنمائی کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ یہ ابتدائی اسلامی ریاست میں حکمرانی کا ایک اہم ستون بن گیا، جس سے انصاف، شمولیت، اور اعتماد کو فروغ ملا۔
شوری جدید پارلیمانی جمہوریت کے اصولوں کے ساتھ گہرائی سے مطابقت رکھتی ہے۔ پاکستان میں قومی اسمبلی اور پارلیمنٹ مشاورت کے لیے جدید پلیٹ فارمز ہیں، جہاں نمائندگان قومی اہمیت کے امور پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ یہ ادارے شوری کی روح کی عکاسی کرتے ہیں، خاص طور پر قانون سازی، پالیسی سازی، اور نگرانی کے کردار میں۔ تاہم، ان کی کامیابی کا دارومدار ان میں شامل افراد کی دیانت داری، شفافیت، اور انصاف کے لیے عزم پر ہے۔ یہ وہ اقدار ہیں جو اسلامی حکمرانی میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
آج کے پولرائزڈ سیاسی ماحول میں، جمہوری ادارے اکثر جماعتی اختلافات اور اعتماد کے فقدان جیسے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ مسائل مشاورت کی اصل روح کو کمزور کر دیتے ہیں، اور اسے بامقصد تبادلہ خیال کے بجائے محض ایک رسمی کارروائی بنا دیتے ہیں۔ لیکن اسلام شوری کو ایک اخلاقی اور روحانی فریضہ قرار دیتا ہے۔ رہنما صرف عوام کے ہی نہیں بلکہ اللہ کے بھی جواب دہ ہوتے ہیں، جو عاجزی، ایمانداری، اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے خالص عزم پر زور دیتے ہیں۔
پاکستان کے لیے، جو اسلام کے نام پر قائم ہوا، شوری کی حقیقی روح کو اپنانا نہ صرف ایک اخلاقی ضرورت ہے بلکہ عملی طور پر بھی لازم ہے۔ باہمی احترام، شمولیت، اور بامقصد مکالمے کو فروغ دے کر قومی اسمبلی اختلافات کو کم کر سکتی ہے، اتفاق رائے پیدا کر سکتی ہے، اور عوام کی امنگوں کو بہتر انداز میں پورا کر سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ ان گنت مثالیں پیش کرتی ہے جن میں رہنماں نے شوری کے اصولوں کی رہنمائی میں انصاف کو فروغ دیا اور اپنی برادریوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا۔ یہ مثالیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ مشاورت محض ایک رسمی عمل نہیں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور ترقی کا راستہ ہے۔
اسلام آباد میں 18 سے 20 دسمبر 2024 تک ہونے والی 18ویں اسپیکرز کانفرنس شوری کے اصولوں کو جدید طرز حکمرانی میں عملی جامہ پہنانے کی ایک شاندار مثال ہے۔ یہ اہم ایونٹ، جو اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی میزبانی میں منعقد ہوگا، پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے سربراہوں کو اکٹھا کرے گا۔ کانفرنس کا مقصد مکالمے اور تعاون کے ذریعے جمہوری عمل کو مضبوط بنانا ہے، اور مشترکہ چیلنجز اور قانون سازی کے معاملات پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرے گا جہاں قانون ساز رہنما بہترین طریقے، جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کی حکمت عملیاں، اور باہمی دلچسپی کے معاملات پر مربوط اقدامات پر بات چیت کر سکیں گے۔
اس کانفرنس کے انعقاد میں اسپیکر سردار ایاز صادق کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی کوششیں یقینی بناتی ہیں کہ 18ویں اسپیکرز کانفرنس نہ صرف پاکستان کے لیے ایک تاریخی ایونٹ ہوگی بلکہ پارلیمانی تعاون کے لیے امید کی ایک کرن بھی۔ یہ کانفرنس 17ویں اسپیکرز کانفرنس کے ایک دہائی بعد منعقد ہو رہی ہے، جو 13 سے 15 اپریل 2014 کو اسلام آباد میں ہوئی تھی اور اس کی میزبانی بھی اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کی تھی۔
اٹھارویں اسپیکرز کانفرنس میں شرکت کرنے والوں میں چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان، اسپیکر سندھ اسمبلی سید اویس قادر شاہ، اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی، اسپیکر بلوچستان اسمبلی کیپٹن (ر) عبد الخالق خان اچکزئی، اسپیکر گلگت بلتستان اسمبلی نذیر احمد، اور اسپیکر آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی چوہدری لطیف اکبر شامل ہوں گے، جو اپنی متعلقہ پارلیمانی وفود کے ساتھ شریک ہوں گے۔ یہ کانفرنس پاکستان میں پارلیمانی تعاون کے لیے ایک نئی مثال قائم کرنے کے لیے تیار ہے، جس سے قانون سازی کے عمل کو مزید مثر، شفاف، اور جامع بنایا جا سکے گا۔
پاکستان میں اسپیکرز کانفرنس کی روایت کا آغاز 10 جولائی 1972 کو ہوا، جب اس وقت کے معزز اسپیکر قومی اسمبلی فضل الہی چوہدری نے پہلی کانفرنس کی میزبانی کراچی میں کی۔ یہ پاکستان کی پارلیمانی ترقی میں ایک اہم قدم تھا، جس نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز کے لیے ایک فورم فراہم کیا تاکہ وہ چیلنجز پر تبادلہ خیال کریں، جمہوری عمل کو مضبوط کریں، اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیں۔
اٹھارویں اسپیکرز کانفرنس اس میراث کو ایک جامع ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھائے گی، جو ملک بھر کے اسمبلیوں کے سربراہوں کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے۔ اس کے کلیدی مقاصد میں سالانہ کانفرنس کی روایت کو ادارہ جاتی بنانا، پارلیمانی معیار کے لیے طریقہ کار کو معیاری بنانا، اور سیکرٹریز کانفرنس کے ذریعے تعاون کو فروغ دینا شامل ہیں۔ کانفرنس میں اہم امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، جیسے 18ویں آئینی ترمیم کا جائزہ، ادارہ جاتی اصلاحات، پارلیمانی جوابدہی، شفافیت، اور قانون سازی کے عمل میں ٹیکنالوجی کا انضمام شامل ہیں۔
شوری کی روح کے مطابق، 18ویں اسپیکرز کانفرنس چیلنجز سے نمٹنے، اتحاد کو فروغ دینے، اور معاشرے کی اجتماعی فلاح و بہبود کو آگے بڑھانے کے لیے مشاورت کی تبدیلی طاقت کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ جدید حکمرانی میں اسلامی اصولوں کی دائمی اہمیت کو نمایاں کرتی ہے، اور پاکستان اور اس کے عوام کے لیے انصاف، ہم آہنگی، اور ترقی کا ایک راستہ پیش کرتی ہے۔