مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ 16دسمبر 71ء جسے آج یوم سقوط ڈھاکہ کے نام سے یاد کیا جاتاہے ۔تاریخ پاکستان کاوہ سیاہ دن ہے جب قائد اعظم کا پاکستان دشمنوں کی سازشوں اور اپنوں کی بے بصیرتی کے باعث دو لخت ہوگیا ۔یہ سانحہ اچانک نہیں ہوا اس کے کئی پس پردہ عوامل تھے جنہوں نے 71ء کے سانحہ کی راہ ہموار کی، یہ صرف 71ء کی پاک بھارت جنگ کانتیجہ بھی نہیں بلکہ حکمت وبصیرت سے محروم قیادتوں اور دور اندیشانہ پالیسیوں کے اختیار نہ کرنے اور ہر مسئلے کو طاقت سے حل کرنے کے روّیے اور بھارتی سازشوں نےجلتی پر تیل کا کام کیا۔
70ء کے انتخابات کا نتیجہ شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت اور کامیابی کی صورت میں سامنے آیا مگر پرامن اقتدار کی منتقلی نہ ہو سکی۔ بھٹو نے ادھر تم ، ادھر ہم کا نعرہ لگایا اور طالع آزماؤں کے ساتھ مل کر حالات کی خرابی میں اضافہ کیا۔بھارت اس موقع کی تاک میں تھا اس نے اس موقع کو غنیمت جانا آپریشن جیک پاٹ لانچ کیا گیا ۔ بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے گٹھ جوڑ سے مشرقی پاکستان خون میں نہلا دیا گیاا ور اس طرح مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا،اور دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک بنگلہ دیش کے نام سے معرض وجود میں آ گیا۔ پاکستانی تاریخ کایہ ایک سیاہ باب ہے جس کو کسی طور پر فر اموش نہیں کیا جاسکتا ۔ دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی ریاست دو حصوں میں تقسیم ہو گئی،بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے کہا تھا کہ ’’ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا‘‘
حبیب جالب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
محبت گولیوں سےبو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھورہے ہو
گماں تم کو رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھورہےہیں
آج بنگلہ دیش کے قیام کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ گزشتہ دو دہائیوں میں قائم حسینہ واجد کی حکومت اپنے تمام تر ظلم وجور اور بھارت دوستی کے باجود رخصت ہو گئی ہے، بھارت دوستی کا کلائمیکس اپنے انجام کو پہنچا۔ پاکستان سے محبت کا دم بھرنے والے اہل بنگلہ دیش آج پاکستان سے پہلےسے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ ان آشفتہ سروں نے وہ قرض بھی چکا دیئے جو ان پر واجب بھی نہیں تھے۔ یہ اسلام اور پاکستان سے وفا اور محبت کا درس تھاجو پروفیسر غلام اعظم،مطیع الرحمن نظامی اور ان کے جلو میں چلنے والوں نے دیا۔
سانحہ مشرقی پاکستان بلاشبہ تاریخ پاکستان بڑا سانحہ تھا بعض لوگ یوم سقوط ڈھاکہ اور APS کاتقابل کرنے لگتے ہیں جو مناسب نہیں, مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحہ کا سارا ملبہ عسکری اور سیاسی قیادت پر ڈالا جا سکتاہے،اور نہ دوسرے عوامل کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر!
آج پھر پاکستان کے حالات جوں کےتوں ہیں ملک دشمن طاقتیں وطن عزیز کے خلاف سازشوں کے جال بن رہی ہیں وہیں پر اپنوں کی بے بصیرتی ، حماقتیں اور ناعاقبت اندیشانہ رویے اور پالیسیوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ایسے مشکل اور گھمبیر حالات میں سیاستدان ذاتی مفادات کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ حکمران سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں جس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ ملکی سلامتی، امن وامان ، معیشت کی بہتری اور عوام کی بھلائی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔
یوم سقوط ڈھاکہ سے کسی فریق نے سبق سیکھا اورنہ اپنی اصلاح کی شعوری کوشش کی ۔سیاست دانوں نے سدھار کی طرف قدم بڑھایا اور نہ اداروں نے حالات کا ادراک کیا۔ضرورت یہ ہے کہ قیادت کے منصب پر فائز اہل قیادت حالات کی خرابی کا ادراک کریں، سدھار اور اصلاح کی جانب قدم بڑھائیں اور وطن عزیز کو ان گھمبیر حالات سے نکالنے کیلئے مخلصانہ جدوجہد کے ساتھ میدان میں آئیں۔ یہی حالات کا تقاضا ہے اور وقت کی پکار
Load/Hide Comments