اتوار کی صبح آنکھ کھلی تو حسب عادت نہیں بلکہ اجازت دیں تو حسب علت سرہانے رکھا موبائل اٹھالیا۔ کوئی اہم فون یا پیغام مس نہیں ہوا تھا۔ جمائیاں لیتے ایکس پر چلا گیا۔ سوشل میڈیا کا یہ پلیٹ فارم ہمارے ہاں عام ذرائع سے دیکھا نہیں جاسکتا۔ کسی دور میں ٹویٹر کہلاتے اس پلیٹ فارم پر اگرچہ ہمارے حاکم پیغام لکھنے سے باز نہیں رہتے تانکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک ان کی بات پہنچ سکے۔ اپنے حاکموں کی نقالی میں یہ عامی ایسی جگاڑ ڈھونڈنے کو مجبور ہوا جس کے ذریعے پاکستان میں رہتے ہوئے بھی ایکس تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تک عدم رسائی کا جو طویل وقفہ آیا اس کے دوران میں اسے دیکھنے کا علت کی حد تک عادی نہ رہا۔ کچھ دیر کو وہاں پھیرا لگاکر اخبار یا کتابیں پڑھنا شروع ہوجاتا ہوں۔
بہرحال اتوار کی صبح یہ کالم لکھنے سے قبل ایکس کاپھیرا لگایا تو بے شمار عاشقانِ عمران نہایت شادمانی محسوس کرتے ہوئے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کا ایکس پر لکھا ایک اعلان دھڑادھڑ ری پوسٹ کررہے تھے۔ ٹرمپ نے جو اعلان کیا وہ رچرڈ گرنیل(Richard Grenell)نام کے ایک صاحب کی تعیناتی کے بارے میں تھا۔ اسے ٹرمپ نے خصوصی فرائض سرانجام دینے کے لئے اپنا سفیر تعینات کیا ہے۔ اس کی تعیناتی کا اعلان کرتے ہوئے ٹرمپ نے امید کا اظہار کیا کہ وہ دنیا کے مشکل ترین ممالک مثال کے طورپر وینزیلا اور شمالی کوریا میں امریکی مفادات کے حصول میں اہم کردار ادا کرے گا۔ رچرڈ کا تعارف کرواتے ہوئے نو منتخب صدر نے یہ بھی یاد دلایا کہ موصوف ٹرمپ کے سابقہ دور صدارت میں جرمنی کا سفیر رہا ہے۔ نیشنل انٹیلی جنس کا عبوری سربراہ رہا اور اس نے سربیا اور کوسوو کے مابین صلح کے مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ امریکی حکومت میں شمولیت سے قبل رچرڈ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پانچ سال تک کام کرتا رہا اور شمالی کوریا پر توجہ مرکوز رکھی۔
ٹرمپ کی جانب سے رچرڈ کی تعیناتی کا اعلان اور اس کی تعریفوں کے پل باندھتا تعارف میں نے نہایت غور سے پڑھا تو محسوس ہوا کہ ٹرمپ اس کی بدولت ایک بار پھر شمالی کوریا سے معاملات طے کرنے کی کوشش کرے گا۔ اپنے سابقہ دور صدارت میں بھی اس نے شمالی کوریا سے معاملات طے کرکے تاریخ بنانے کی کوشش کی تھی۔ ناکام رہا۔ ویت نام کے دورے کے دوران اگرچہ اس نے یہ اعلان کیا کہ پاکستان اور بھارت بالاکوٹ میں ہوئی فضائی جارحیت اور ایک بھارتی پائلٹ کی جہاز گرانے کے بعد ہوئی گرفتاری کے بعد ایک اور جنگ کی جانب نہیں بڑھ رہے۔ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کی جانب سے ہوئے ایسے کسی اعلان سے قبل ہی ٹرمپ نے دنیا کو درحقیقت یہ بتایا تھا کہ اس کی قیادت میں امریکہ نے پاکستان او بھارت کے مابین ممکنہ جنگ روک دی ہے جو ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال تک بڑھ سکتی تھی۔
اصل موضوع کی جانب لوٹتے ہوئے التجا یہ کرنا ہے کہ ٹرمپ کی رچرڈ کے بارے میں لکھی پوسٹ نے مجھے یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ وہ اس کے ذریعے شمالی کوریا سے معاملات طے کرنے کی حکمت عملی طے کرنے کا متمنی ہے۔ وینزویلا کا ذکر بھی اہم ہے۔ یہ لاطینی امریکہ کا تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے۔ خود کو کمیونسٹ کہلاتی آمر حکومت نے مگر اس کا برا حال کردیا ہے۔ اس ملک کے لاکھوں افراد تحفظ اور روزگار کی تلاش میں ہمسایہ ملکوں میں دھکے کھارہے ہیں۔ ٹرمپ کو واجب بنیادوں پر خوف لاحق ہے کہ وینزویلا کے ہزاروں باشندے بالآخر امریکہ بھی آسکتے ہیں اور غیر ملکی تارکین وطن کی امریکہ آمد کو روکنا اس کا اہم ترین انتخابی نعرہ رہا ہے۔
مذکورہ بالا نتائج اخذ کرنے کے بعد دل میں تاہم یہ سوال اٹھا کہ نظر بظاہر شمالی کوریا اور وینزویلا جیسے ممالک کے لئے خصوصی مشن سرانجام دینے کے لئے تعینات ہوئے رچرڈ کے بارے میں عاشقان عمران شادمانی کیوں محسوس کررہے ہیں۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے پاکستان سے عمران حکومت کی فراغت کے بعد امریکہ منتقل ہوئے ایک عاشق عمران کی ایکس پر لکھی پوسٹ کی بدولت علم ہوا کہ 26نومبر 2024کے دن رچرڈ گرنیل نے بھی ایک پوسٹ لکھی تھی۔ یاد رہے کہ اس دن تحریک انصاف ڈو اور ڈائی کے لئے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد آئی تھی۔ مقامی پولیس اور انتظامیہ نے مگر ریاستی طاقت کے بھرپور استعمال سے اسے پسپا ہونے کو مجبور کردیا تھا۔
رچرڈ نے اس روز اپنا پیغام غالباتحریک انصاف کی پسپائی سے پہلے لکھا تھا۔ اس نے لکھا:پاکستان پر نگاہ رکھو۔وہاں کا ٹرمپ جیسا رہنما بے بنیاد الزامات کی وجہ سے جیل میں ہے مگر وہاں (پاکستان) کے عوام امریکہ کی سرخ لہر سے متاثر ہیں۔ سرخ لہر برصغیر میں اردو پڑھنے والوں کے لئے سوشلسٹ انقلاب کا استعارہ تصور ہوتی ہے۔ امریکہ میں سرخ رنگ مگر دائیں بازو کی ری پبلکن پارٹی کے لئے مختص ہے۔ رچرڈ کی جانب سے سرخ لہر کا مطلب حال ہی میں ہوئے امریکی انتخابات کے دوران ٹرمپ اور اس کی جماعت کی تاریخی کامیابی تھا۔ اسے گماں ہے پاکستان کے عوام بھی اپنے ٹرمپ کی قیادت میں سرخ لہر لانے کو بے چین ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے اپنی پوسٹ میں یہ بھی لکھا کہ دنیا بھر میں سیاسی وجوہات کی بنا پر دی سزائیں روکی جائیں۔
رچرڈ کی 26نومبر کو لکھی پوسٹ کو ذہن میں رکھتے ہوئے عاشقان عمران نے دو جمع دو کرتے ہوئے یہ فرض کرلیا کہ غالبا ٹرمپ اسے بانی تحریک انصاف کی رہائی کے لئے پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لئے بھی استعمال کرے گا۔ شاید ان کی سوچ درست ہو۔ ٹرمپ مگر اس کی تعیناتی کا اعلان کرتے ہوئے وینزویلا اور شمالی کوریا کے ساتھ پاکستان کا ذکر بھی تو کرسکتا تھا۔ ایسے سوال اٹھاکر لیکن میں عاشقان عمران کو مایوس کرتا سنائی دوں گا۔ انہیں خوش ہونے سے روکنے کا مجھے کوئی حق حاصل نہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت