بے حکمتی کے گرداب میں مذاکراتی تنکے کی تلاش!…عرفان صدیقی


عمران خان کی اٹھائیس سالہ سیاسی زندگی، مذاکرات، مفاہمت اور مصلحت جیسے ’’غیرانقلابی‘‘ عوامل سے کُلّی طورپر عاری رہی ہے۔ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں، وہ اپنے سیاسی حریفوں سے ہاتھ ملانا، بات کرنا بلکہ اُن کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی اپنی سیاسی غیرت وحمّیت کے منافی خیال کرتے ہیں۔ آج پی۔ٹی۔آئی جس گرداب میں غوطے کھاتے ہوئے کسی ’’مذاکراتی تنکے‘‘ کا سہارا ڈھونڈ رہی ہے، اُس تک لانے میں بنیادی کردار عمران خان کی اِسی ’’خوئے خُود سری‘‘ کا ہے۔ اِسی سے جُڑی ایک بہت بڑی اُلجھن یہ بھی ہے کہ وہ اُن لوگوں کو کیسے منہ لگائیں جنہیں وہ روز اوّل سے چور، ڈاکو، لٹیرے اور ملک دشمن قرار دیتے رہے ہیں؟ پیپلزپارٹی، آمروں کیخلاف جدوجہد، جمہوریت کے لئے قربانیوں، آئین سازی، اٹھارہویں ترمیم اور مزدوروں، محنت کشوں، غریبوں کیلئے اقدامات کو اپنا سیاسی سرمایہ خیال کرتی اور اِسی اثاثے کی بنیاد پر انتخابات میں اترتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) عوامی فلاح وبہبود کے کاموں، جدید انفراسٹرکچرکی تعمیر، معیشت کی استواری، توانائی اور دہشت گردی کے بحرانوں پر قابو پانے اور قومی تفاخر کی امین توانا خارجہ پالیسی کو اپنے نامہ اعمال کا حسن خیال کرتی اور اِسی کو زادِ راہ بنا کر انتخابی کامرانی کی منزل کی طرف بڑھتی ہے۔ دینی تشخص رکھنے والی جماعتیں اسلامی نظام کی کارفرمائی اور علاقائی جماعتیں مقامی مسائل اور عوامی حقوق کی نگہبانی کا دَم بھرتی ہیں۔ تحریک انصاف کی ’فردِعمل‘ میں اس طرح کا کوئی کارنامہ تو کجا، کوئی نعرہ یا دعویٰ تک بھی نہیں۔ عمران خان کی سیاست اِس نکتے سے شروع ہرکر اِسی نکتے پر ختم ہوجاتی ہے کہ ’’میرے مخالفین چور اور ڈاکو ہیں، میں اُن کے ساتھ کیسے ہاتھ ملا سکتا، کیسے مذاکرات کرسکتا ہوں؟‘‘ اُن کا یہی بیانیہ اُن کے فدائین کے دِلوں کو گرماتا اور ریاستی اداروں سے ٹکرانے کا حوصلہ دیتا ہے۔ عمران خان جانتے ہیں کہ اگر میں ’’چوروں اور ڈاکوئوں‘ کے ساتھ بیٹھ گیا، اُن سے مذاکرات اور معاملات کرنے لگا، تو اپنے پیروکاروں کو کیا منہ دکھائوں گا؟ اٹھائیس برس کی جہدِمسلسل سے نفرتوں کا جو اَلائو بھڑکایا ہے، اگر اُس پر مذاکرات، مفاہمت اور مصلحت کیشی کی برکھا برسنے لگی تو اپنے فدائین کے دل ودماغ میں بونے کیلئے انگارے کہاں سے چُنوں گا؟‘‘یہی وجہ ہے کہ پی۔ٹی۔آئی کے بعض سینئر راہنمائوں کی مساعی کے باوجود، آج تک مذاکرات کی کوئی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ رکاوٹ صرف خان صاحب کا یہ فلسفۂِ سیاست ہے کہ ’’گھاس تو گھوڑے کا رزق، راتب، چارہ اور زندگی ہے۔ وہ گھوڑے سے دوستی کرلے تو کھائے کیا؟اپریل 2022ءمیں، ہماری قومی تاریخ میں پہلی بار، وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے لگی تو پہلے قاسم سوری اور پھر عارف علوی کو استعمال کیا۔ سپریم کورٹ نے دونوں اقدامات کو غیرآئینی قرار دیدیا۔ شہبازشریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تو صرف دو ارکان کی اکثریت سے قائم ہونے والی حکومت کو تگنی کا ناچ نچانے کے بجائے اجتماعی استعفے دے کر گھر چلے گئے۔ اِن بے حکمتیوں سے کہیں بڑا المیہ صرف ایک ماہ بعد، مئی 2022ءمیں اُس وقت پیش آیا جب وزیراعظم شہبازشریف نے مستعفی ہوکر، اسمبلی تحلیل کردینے اور نئے انتخابات کی طرف جانے کا فیصلہ کرلیا۔ 20مئی 2022ءکی تاریخ طے ہوگئی۔ شہباز شریف کی تقریر تیار ہوگئی۔ لندن سے میاں محمد نوازشریف نے جزوی ترامیم کیساتھ اُسکی منظوری بھی دیدی۔ قطر میں آئی۔ایم۔ایف سے مذاکرات کے باعث اِس تاریخ کو دَس دِن آگے کر دیاگیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو اس کی باضابطہ اطلاع کردی گئی۔ فوجی قیادت نے شاہ محمود قریشی، اسد قیصر اور اسدعمر کے ذریعے عمران خان کو اس انتہائی مثبت پیش رفت سے آگاہ کردیا جو اُن دنوں پشاور میں بیٹھے ایک نئے لانگ مارچ کے لئے ڈنڈ پیل رہے تھے۔ پی۔ٹی۔آئی رہنما اسے بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے تھے۔ اُن کی رائے تھی کہ اب لانگ مارچ کی ضرورت نہیں رہی۔ عمران خان نہ مانے۔ 22مئی کی سہ پہر پریس کانفرنس کا پنڈال سجا لیا۔ جنرل باجوہ کے حکم پر ڈی۔جی۔آئی۔ایس۔آئی جنرل ندیم انجم نے شاہ محمود قریشی کو فون ملایا اور کہا__ ’’خان صاحب سے کہیں کہ وہ لانگ مارچ کا اعلان نہ کریں۔ بے شک کہہ دیں کہ مجھے ایک ہفتے کے اندر اندر وزیراعظم کے استعفے، اسمبلی کی تحلیل اور نئے انتخابات کی ضمانت دیدی گئی ہے۔‘‘ قریشی صاحب نے فون خان صاحب کو تھماتے ہوئے سرگوشی کی لیکن خان صاحب نے فون سننے سے انکار کرتے ہوئے 25مئی کو اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کردیا۔ لانگ مارچ نامراد ٹھہرا تو یہ کہہ کر واپس چلے گئے کہ ’’چھ دن بعد پھر آئوں گا۔‘‘ چھ دِن کے اعلان کی منطق یہ تھی کہ اس دوران میں حکومت بہرحال مستعفی ہونے اور نئے انتخابات کرانے کا اعلان کر دے گی جسے میں اپنی فتح مبین سے تعبیر کرتے ہوئے انقلاب کا بیانیہ تراشوں گا۔ اُدھر لندن میں بیٹھے میاں محمد نوازشریف نے عمران خان کا رعونت شعار اعلانِ لشکر کشی سنا تو وزیراعظم کو فون ملاتے ہوئے کہا__ ’’شہباز! اَب دھونس اور دھمکی میں آنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لو۔ ڈٹ کر میعادِ حکومت مکمل کرو، پوری لگن کے ساتھ ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کرو۔‘‘اقتدار سے محرومی کے صرف دو ماہ بعد، طشتری میں سجا کر پیش کئے جانے والے انتخابات کی پیشکش خودسری کے آتشدان میں جھونک دی گئی۔‘‘ ایک سال بعد، اپریل/ مئی 2023میں ایک اور دروازہ کھلا۔ عطا محمد بندیال، اعجازالاحسن اور منیب اختر پر مشتمل معروف ’’انصافی تکون‘‘ نے پہلے تو یہ فرمان جاری کیا کہ کچھ بھی ہوجائے، پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو منعقد کرائے جائیں۔ پھر اسی مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں مل بیٹھ کر اگلے عام انتخابات کی تاریخ طے کریں۔ حکومت نے وزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی سربراہی میں، سید یوسف رضاگیلانی، سید نویدقمر، خواجہ سعد رفیق، اعظم نذیرتارڑ اور محترمہ کشور زہرا پر مشتمل ایک معتبر کمیٹی قائم کردی۔ پی۔ٹی۔آئی نے شاہ محمود قریشی،فواد چوہدری، علی ظفر اور اسدقیصر پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ مذاکرات شروع ہوگئے۔ تین ادوار، پارلیمنٹ ہائوس میں ہوئے اور بنیادی معاملات طے پاگئے۔ فریقین نے بہ صد مسرّت اِس کا اعلان بھی کیا۔ دو انتہائی اہم اجلاس، میڈیا کی آنکھ سے دور، لاہور میں ہوئے۔ پہلا وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کے گھر جس میں شاہ محمود قریشی، سید علی ظفر، فواد چوہدری اور اسدعمر نے شرکت کی۔ دوسرا سید علی ظفر کے گھر۔ طے پاگیا کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی دِن ہونگے۔ ایک ساتھ نگران حکومتیں قائم ہوجائینگی۔ ستمبر کے اواخر میں انتخابات منعقد ہوجائینگے۔ یہ بھی طے پاگیا کہ حتمی اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں ہوگا جہاں باضابطہ مفاہمتی فارمولے کا اعلان کیاجائے گا۔ جس دِن یہ اجلاس ہونا تھا، اُسی رات پی۔ٹی۔آئی ٹیم نے اطلاع دی__ ’’ہم شرمندہ ہیں۔ خان نہیں مان رہا۔ وہ کہتا ہے پنجاب کے انتخابات ہر حال میں 14مئی ہی کو ہوں۔‘‘ ایک بار پھر افہام وتفہیم کی مشق، مشقِ رائیگاں ٹھہری۔ اس وقت تو پی۔ٹی۔آئی کا نہ کوئی نظم ہے نہ ڈھانچہ، نہ فیصلہ سازی کا کوئی فورم نہ راہ و منزل کا تعین۔ درجنوں منہ ہیں اور بیسیوں زبانیں۔ رنگا رنگ نعرے ہیں اور بھانت بھانت کی بولیاں۔ بہتر ہوکہ سات رُکنی مذاکراتی کمیٹی پہلے بانی پی۔ٹی۔آئی کے ساتھ نشستوں کا آغاز کرے۔ وہ قائل ہوجائیں تو پھر دوسری جماعتوں کا رُخ کریں۔ لیکن اِس کی کیا ضمانت ہے کہ عمران خان اُس دِن قائل ہوکر اگلے دِن بھی قائل رہیں گے؟

بشکریہ روزنامہ جنگ