مر کے آخری حصے میں پہنچ کر آپ یقینا نئی چیزیں سیکھنے کے قابل نہیں رہتے۔ ’’آتش‘‘ نوجوانی سے ادھیڑ عمری میں داخل ہوتے ہوئے بھی تھوڑی کوشش کے باوجود اردو میں ٹائپ کرنے کے قابل نہ ہوپایا۔ آج بھی ہاتھ سے لکھ کر ٹائپ ہونے بھجواتا ہوں۔ کالم ٹائپ ہوجائے تو واٹس ایپ کے ذریعے اس کی نقل وصول کرکے پروف ریڈنگ کے بعد دفتر بھجوادیتا ہوں۔
عمر کی وجہ سے نئی چیزیں سیکھنے کے قابل نہ رہنے کی وجہ سے میں یوٹیوب چینل بنانے میں بھی ناکام رہا۔ حالانکہ اس کے لئے عمران حکومت کے آغاز کے ساتھ ٹی وی چینلوں پر بین ہونے کی وجہ سے مجھے بہت دوستوں نے رضا مند کرنے کی کوشش کی۔ ہر شخص نہایت اعتماد سے بتاتا کہ موبائل فون پر کیسے اپنی بات ریکارڈ کرکے لوگوں تک پہنچائی جاسکتی ہے۔ کئی بار اس حوالے سے کوشش کی مگر مطمئن نہ ہوا۔ سکول کے زمانے سے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے پروگراموں میں حصہ لینا شروع ہوگیا تھا۔ اس کی وجہ سے ہمیشہ یہ احساس رہا کہ پروڈیوسر، کیمرہ مین اور ایڈیٹر کے بغیر پروگرام تیار نہیں ہوسکتے۔ آج کے نوجوان مگر اس تناظر میں انگریزی محاورے والے ’’تھری اِن ون‘‘ ہوتے ہوئے یوٹیوب چلاتے ہیں اور پنجابی محاورے والے ’’پھٹے چک‘‘ دیتے ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے اپنی کوتاہی پرواز کا اعتراف کرنے کے بعد اطلاع آپ کو یہ بھی دینا ہے کہ دنیا میں ان دنوں ’’مصنوعی ذہانت‘‘ کا بہت شور ہے۔ یہ ’’آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘‘ کا معروف ترجمہ ہے۔ مجھے اگرچہ اس کی ساخت پر اعتراض ہے۔ ’’مصنوعی‘‘ جعلی پن کا تاثر دیتی ہے۔ کمپیوٹر کے ذریعے تشکیل دی ذہانت مگر ذہانت ہے۔ اپنے موبائل پر نصب کیلکولیٹر پر جائیں تو حساب کتاب میں غلطی کا ذرا برابر امکان نہیں اور کیلکولیٹر نام نہاد ’’مصنوعی ذہانت‘‘ کاآج سے کئی دہائیاں قبل متعارف ہوا ایک اوزار ہی توتھا۔ ’’مصنوعی ذہانت‘‘ مگر تیزی سے فروغ پارہی ہے۔ امریکہ اور چین اس میدان میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کے لئے خطیر رقوم اور بے پناہ وسائل استعمال کررہے ہیں۔ دونوں میں سے جو بھی اس میدان میں ’’سپر‘‘ ثابت ہوا اس امکان کو رد نہیں کرسکتا کہ ’’مصنوعی ذہانت‘‘ اپنے کمال کو پہنچی تو یہ انسانی کنٹرول سے بالاتر ہوجانے کے بعد بہت خوفناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ مثال کے طورپر ایٹم بم کا استعمال۔ فرض کیا اسے ’’مصنوعی ذہانت‘‘ کے حوالے کردینے کے بعد اس کے ’’ذہن‘‘ میں یہ بات مشینی انداز میں ڈال دی جائے کہ فلاں فلاں نوعیت کی پیش قدمیاں ’’دشمن ملک‘‘ کی جانب سے اٹھائی جائیں تو اپنے تحفظ کے لئے ایٹم فی الفورچلادیا جائے۔ ایسا ہوا تو انسانوں کے پاس اس ضمن میں آخری لمحات میں اس مہلک ہتھیار کا استعمال روکنے کی قوت یا گنجائش ہی باقی نہیں رہے گی۔
مصنوعی ذہانت کے حیران کن فروغ کے ساتھ ابھرتے بے تحاشہ سوالات دنیا بھر کے مفکرین کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔ ہمارے ریگولر یا سوشل میڈیا پر لیکن یہ سوالات زیر بحث نہیں۔ موبائل فون فی الوقت مگر ایک سیاسی جماعت یعنی تحریک انصاف کا پیغام پھیلانے یا اسے رد کرنے کے لئے استعمال ہورہا ہے۔ کوئی پسند کرے یا نہیں حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ پراپیگنڈے کے محاذ پر تحریک انصاف نے اپنے مخالفین کو چاروں شانے چت کردیا ہے۔ کیوں اور کیسے؟ اس سوال کا جواب آج کے کالم کا موضوع نہیں۔ فی الوقت آپ سے ’’مصنوعی ذہانت‘‘ کے حوالے سے ایک تجربہ شیئر کرنا ہے۔
گزرے جمعے کی رات دوستوں کی محفل سجی تھی۔ وہاں بیٹھے چند دوست امریکی سیاست پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔ سوال یہ زیر بحث تھا کہ ہمارے یار چین کے صدر شی ٹرمپ کی دعوت پر 20جنوری 2025کے دن اس کے بطور صدر امریکہ تقریب حلف برداری میں شریک ہوں گے یا نہیں۔ مزید بڑھنے سے قبل آگاہ کرنا لازمی ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں آج تک کسی غیر ملکی کو نو منتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ ٹرمپ مگر روایت شکن آدمی ہے۔ گزرے جمعرات کی صبح نیویارک پہنچ گیا اور گونگ بجاکر وہاں سٹاک ایکس چینج کا دھندا شروع کروایا۔ وہاں سے نکلتے ہوئے اس نے صحافیوں میں پھیلی اس افواہ کی تصدیق کردی کہ اس نے چینی صدر کو اپنی تقریب حلف برادری میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ اس کے مشیر مگر ’’خبردار‘‘ کررہے ہیں کہ چینی صدر مذکورہ تقریب میں شرکت سے انکار کرسکتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست ٹرمپ کے حامی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ بنیادی طورپر امن پسند شخص ہے اور امریکہ ہی نہیں دنیا بھر میں کاروبار کا پھیلا? چاہتا ہے۔ وہ مصر ہیں کہ ٹرمپ کی ’’بڑھک بازی‘‘ اس کی شخصیت کو مسخ کرکے پیش کرتی ہے۔ ہمارے یہ دوست اس امر پر بھی اصرار کرتے رہے کہ نیویارک سٹاک ایکس چینج کا افتتاح کرنے کے بعد ’’کائیاں‘‘ ٹرمپ نے امریکی صنعت کاروں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں لگائی بڑھکوں کے برعکس اپنے ملک میں چینی اشیاء کی درآمد پر ناقابل برداشت ٹیکس لگانا نہیں چاہتا۔ ایسا ہوا تو ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے چند ہی ماہ بعد امریکہ ناقابل برداشت افراطِ زر کے سامنے ڈھیر ہوجائے گا۔ امریکی روایت کے برعکس چینی صدر کو اپنی حلف برادری کی تقریب میں بلاتے ہوئے ٹرمپ درحقیقت ’’کاروبار دوست‘‘ ہونے کا تاثر دینا چاہ رہا تھا۔
ٹرمپ کی حیران کن پیش قدمی کے باوجود چینی صدر نے مگر امریکی صدر کی تقریب حلف برا دری میں شرکت سے معذرت کرلی ہے۔ ٹرمپ کے ناقد صحافی چینی صدر کی معذرت کو امریکی صدر کو ٹھینگا دکھانے کے مترادف ٹھہرارہے ہیں۔ بہرحال جمعہ کی شام ہم دوست متجسس تھے کہ چینی صدر ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوں گے یا نہیں۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ہمارے ایک دوست نے ’’مصنوعی ذہانت‘‘ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کے فون میں اس کا ایک پلیٹ فارم نصب تھا۔ یہ جدید ترین ہونے کی وجہ سے مفت بھی نہیں تھا۔ اسے استعمال کرنے کے لئے ہر مہینے 20ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔
مذکورہ دوست نے جب اپنے فون میں نصب ’’مصنوعی ذہانت‘‘ کی ایپ کھولی تو پہلی حیرت مجھے یہ ہوئی کہ وہ اردو بھی سمجھ سکتی تھی۔ خاتون نے شستہ اردو میں یہ جاننا چاہا کہ ہم اس سے کیا معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کے بجائے میں نے ’’نسوانی آواز‘‘سے یہ پوچھا کہ وہ مرد ہے یا عورت تو جواب ملا کہ ’’میں مصنوعی ذہانت ہوں‘‘۔ ’’مصنوعی ذہانت‘‘ لہٰذا جنس سے ماورا ہے۔ ٹرمپ کے بارے میں سوال ہوا تو اس نے محض یہ جواب دیا کہ امریکی صدر کی تقریب حلف برداری میں عموماََ کسی غیر ملکی سربراہ مملکت کو دعوت نہیں دی جاتی۔ ’’مصنوعی ذہانت‘‘ کو یاد دلانا پڑا کہ جمعرات کے روز ٹرمپ نے چینی صدر کو یہ دعوت دی ہے۔ تھوڑے وقفے کے بعد ’’مصنوعی ذہانت‘‘ نے پاکستان کے ایک موقر اردو روزنامے کا نام لیتے ہوے کہا کہ ہاں اس اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی تھی مگر وہ چینی صدر کی آمد کی تصدیق نہیں کرسکتی۔
’’مصنوعی ذہانت‘‘ سے چونکہ اردو میں سوال پوچھے جارہے تھے اس لئے اس نے پاکستان کے ایک اردو اخبار کا ذکر کیا۔ حقیقت جبکہ یہ تھی کہ چینی صدر شی کو اپنی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دینے کا اعتراف ٹرمپ نے بذاتِ خود کیا تھا اور اس کا اعتراف سی این این، بی بی سی اور گارجین جیسے نشریاتی اداروں نے بھی نہایت تفصیل سے رپورٹ کیا تھا۔
’’مصنوعی ذہانت‘‘ کی ’’اوقات‘‘ یوں میرے لئے تو واضح ہوگئی۔ اس صنف کے مگر یہ ابتدائی ایام ہیں۔ جس تیزی سے اس پر گرانقدر سرمایہ کاری کی بدولت نت نئی جدتیں لائی جارہی ہیں ان پر غور کرتے ہوئے کچھ خوف کھانا مگر لازمی ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت