اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے جعلی دستاویزات پر چارافراد کو پشاور ایئرپورٹ سے قطر بھجوانے پر ایف آئی اے کی جانب سے جبری ریٹائر کئے گئے ملازم کے خلاف دوبارہ انکوائری کرکے فیصلہ کرنے کاحکم دے دیا۔جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایف آئی اے دوبارہ انکوائری کرے اوراگرالزامات ثابت ہوتے ہیں توبے شک درخواست گزار کو ملازمت سے برخاست کردے،ایسے لوگ ملک کی بدنامی کرواتے ہیں، چرس، ہیروئن چھوڑی دی،اگر بغیر چیکنگ لوگوں کو بیرون ملک جانے دیا جائے گاتوکوئی بڑاحادثہ ہوسکتا ہے۔ ایف آئی اے کے انکوائری آفیسر کوگلگت سے عدالت بلوالیں ان کی تربیت ہوجائے گی کہ انکوائری کرنی کیسے ہے۔جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے کہا ہے کہ کیاایف آئی اے کاایئرپورٹ پر چیک کرنے کاکام نہیں تھا، کیاعملے ڈیوٹی کی ،کسی نے چیک ہی نہیںکیا۔ قطر سے لوگوں کو واپس بھیج دیا گیااس سے بدنامی توملک کی ہوئی، یا درخواست گزار تساہل اور نااہلی کا شکار ہے یا ملا ہوا ہے۔ ان کے پاسپورٹ اورویزے چیک کرنا تھے۔ جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل 2رکنی بینچ نے راولپنڈی کے رہائشی 4افراد کو جعلی دستاویزات پر پشاور ایئرپورٹ سے قطر ائیرلائن کی پرواز کے زریعہ قطر بھجوانے کے معاملہ پر ملازمت سے کمپلسری ریٹائرڈ کئے جانے والے ایف آئی اے اہلکاروں طارق خان کی جانب سے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (نارتھ)، وفاقی تحقیقاتی ادارہ ، اسلام آباد اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل اورایف آئی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر پیش ہوئے جبکہ درخواست گزارکی جانب سے آفتاب عالم یاسر بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ ملک کوبدنام کرواتے ہیں، ملازمت سے برخاست کرنا چاہیئے تھا کیوں کمپلسری ریٹائرمنٹ کی، کیا کوئی ان سے رشتہ داری تھی۔ چرس، ہیروئن چھوڑ دی، 20،25کیس خلاف ہوں گے توپھر نوکری سے برخاست کریں گے، چچا، ابا، پھوپھا انکوائری اآفیسر ہوں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ انسانی اسمگلنگ ہورہی ہے ،ذمہ داران سے کہا جارہا ہے کہ گھر جاکربیٹھ جائو اور پورے پیسے لے لو۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ قطر سے لوگوں کو واپس بھیج دیا اس سے بدنامی توملک کی ہوئی۔ درخواست گزارکے وکیل کاکہناتھاکہ تربیت یافتہ آفیسر کو دوسال کی سزادی جبکہ زیر تربیت آفیسر کو ملازمت سے کمپلسری ریٹائرڈ کردیی، ایک کانسٹیل اورایک اے ایس آئی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اتنے الزامات لگاکرکمپلسری ریٹائرڈ کردیں، کیااس کے ساتھ رشتہ داری تھی ،پھر معاف ہی کردو۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگرالزامات ثابت نہیں ہوئے توپھر سزاکیوں دی، آخری دنوں میں جو کرسکتا ہے کرلیں اور کوئی مسئلہ ہو گیا توکمپلسری ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ بے شک نوکری سے نکال دیں تاہم پراپرانکوائری کریں، دوباری انکوائری کریں ، نوکری جاتی ہے توجائے یا معاف کردیں، ہم وقفہ کررہے ہیں سوچ لیں کیا کرنا ہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایکھ لیں کہیں سزازیادہ نہ ہوجائے۔ وقفہ کے بعد جب کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی توجسٹس محمد علی نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسارکیا کہ کیا ہوا۔ اس پر وکیل آفتاب عالم یاسر کاکہناتھاکہ ان کے مئوکل تمام حالات کاسامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ کمپلسری ریٹائرمنٹ ماننے کے لئے تیار نہیں، کمپلسری ریٹائرمنٹ ہو یا نوکری سے برخاستگی ہو دوبارہ انکوائری کرکے فیصلہ کریں۔ سرکاری وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار غفلت کامرتکب ہوا۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ درخواست گزاروں 2014میں آئی بی این ڈیٹا میں غلط انٹری پر دونوں درخواست گزاروں کی ایک انکریمنٹ روکنے کاحکم دیا گیا تھا۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہناتھا کہ اگر ملوث نہیں توسزادینے کی کیا ضرورت تھی۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہناتھاکہ قطر ایئرلائن کے عملے نے بزنس کلاس مسافرہونے کی وجہ سے پروٹوکول بھی دیا۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ کیا ایف آئی اے کا ایئرپورٹ پر چیک کرنے کاکام نہیں تھا، کیا عملے نے ڈیوٹی کی، کسی نے چیک ہی نہیں کیا۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ جانے والے چاروں افراد کو قطر سے ڈی پورٹ کردیا گیا، یاتودرخواست گزار کاتساہل یانااہلی تھی یا ملا ہواتھا۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر بغیر چیک کئے لوگوں کو باہر جانے دیں گے توکوئی بڑاحادثہ بھی ہوسکتا ہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ ان کے پاسپورٹ اورویزے چیک کرنا تھے۔ سرکاری وکیل کاکہناتھا کہ پنڈی کے مسافر تھے جو پشاور سے قطرگئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ انکوائری آفیسر کواپنی رپورٹ میں حتمی نتائج دینا ہوتے ہیں۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ درخواست کی تعیناتی واقعہ سے کتنی دیر قبل ہوئی، کیا کوئی درخواست دی تھی کہ میری تربیت نہیں ہے میراکہیں اورتبادلہ کردیں۔ عدالت کی جانب سے استفسار پر ایف آئی اے افسر نے بتایا کہ واقعہ کی انکوائری کرنے والے افسراس وقت گلگت میں تعینات ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ انکوائری افسر گلگت تعینات ہیں انہیں عدالت بلالیں ، ان کی تربیت ہوجائے گی کہ انکوائری کیسے کرنی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ دوبارہ انکوائری کرتے ہیں توٹھیک نہیں توہم انکوائری افسر کوبلالیتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ درخواست گزارکی دوبارہ انکوائری ہوگی۔ وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ واقعہ میں ملوث پانچ افراد میں سے 2کو کمپلسری ریٹائرڈ کیا گیا، ایک کو دوسال ملازمت شمار نہ کرنے کی سزادی گئی جبکہ دوافسران کو بری کردیا گیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کویقین دہانی کروائی کہ معاملہ کی دوبارہ انکوائری کی جائے گی۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ یہ معاملہ بھی دیکھا جائے کہ کیو ں نرم رویہ اختیار کیاگیا اور ملازمت سے برخاست کرنے کی بجائے کمپلسری ریٹائرڈ کیا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگرالزامات ثابت ہوتے ہیں توبے شک ملازمت سے برخاست کردیں۔ دفاع کا مناسب موقع فراہم کرنے کے بعد فیصلہ کریں۔ عدالت نے درخواست نمٹادی۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ صرف ایک ہی درخواست گزارکے خلاف دوبارہ انکوائری ہوگی دیگر کودوبارہ نہیں سنا جائے گا۔ZS