جسٹس منیر سے آج تک، ججز کے سپرسیڈ ہونے کی 70 سالہ تاریخ۔۔۔ تحریر :سید صفدر گردیزی

پاکستان کی عدالتی تاریخ میں موجودہ چیف جسٹس یحیٰی آفریدی تیسرے ایسے عدالتی سربراہ ہیں جن کا تقرر سینیئر ترین جج کے چیف جسٹس بننے کی روایت سے ہٹ کر کیا گیا ہے۔
ماضی کے برعکس موجودہ چیف جسٹس کی تقرری کے لیے قانونی بنیادیں 26 ویں ترمیم فراہم کرتی ہے۔ آئین پاکستان میں تبدیلی کے بعد پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی تین ججز میں سے ایک کا انتخاب کرتی ہے۔
کچھ حلقوں کی جانب سے سنیارٹی لسٹ میں نظر انداز کیے جانے والے ججز کی جانب سے مستعفی ہونے کے خدشات بے بنیاد ثابت ہو چکے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر ماضی میں اعلٰی عدلیہ میں آؤٹ آف ٹرن چیف جسٹس کی تعیناتی سے متاثر ہونے والے ججز نے بھی کسی طرح کا ردِ عمل نہیں دیا تھا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کی مانند ماضی کی عدالتی روایات کا بھی حال میں کسی نہ کسی انداز میں احیا ہوتا رہتا ہے۔
عدالت کے سینیئر ججز کے سپرسیڈ ہونے کا آغاز 70 برس پہلے ہوا تھا۔
جسٹس منیر کو کیوں ترجیح دی گئی؟
جسٹس منیر کو آج بھی نظریہ ضرورت کے بانی کے طور پر عدالتی بگاڑ کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ 29 جون 1954 کو جب وہ فیڈرل چیف کورٹ کے چیف جسٹس بنے تو سنیارٹی میں دوسرے نمبر پر تھے۔
ڈھاکہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس رہنے والے ابو صالح محمد اکرام کو 15 فروری 1950 کو فیڈرل چیف کورٹ کا جج نامزد کیا گیا جبکہ جسٹس منیر کا تقرر اکتوبر 1951 میں ہوا۔ یوں جسٹس منیر سینارٹی میں ان سے جونیئر تھے۔
پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سرعبدالرشید کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے جانشین کے تقرر کا سوال گورنر جنرل کا امتحان بن گیا۔
سینیئر صحافی اور عدالتی و قانونی امور پر گہری نظر رکھنے والے سعید چوہدری کے مطابق گورنر جنرل غلام محمد نے ایک سمری تیار کروائی جس میں ملکہ برطانیہ سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ پاکستان کے لیے برطانیہ سے کسی کو چیف جسٹس بنا کر بھیجیں۔
جسٹس منیر کو نظریہ ضرورت کے بانی کے طور پر عدالتی بگاڑ کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ فوٹو: لاہور ہائیکورٹ میوزیم
مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جسٹس ابو صالح محمد اکرام کو اس کی خبر ہوئی۔ انہوں نے غلام محمد سے درخواست کی کہ اگر سینیئر جج کی حیثیت سے ان کی بطور چیف جسٹس تقرری گورنر جنرل کے مفاد کے منافی ہے تو وہ اپنے حق سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں، مگر ان کی شرط یہ ہو گی کہ ملکہ برطانیہ سے آزاد ملک پاکستان کے لیے چیف جسٹس کی درخواست کا عمل ترک کر دیا جائے۔
یوں جسٹس منیر کے لیے آؤٹ آف ٹرن چیف جسٹس بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔ آنے والے دنوں میں مولوی تمیز الدین کیس میں سندھ چیف کورٹ کے چیف جسٹس کانسسٹائین نے غلام محمد کے حکم کو غیرقانونی قرار دیا تو یہی جسٹس منیر گورنر جنرل کی مدد کو آئے۔
فیڈرل چیف کورٹ نے اکثریت سے تکنیکی بنیادوں پر سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔ اس فیصلے سے اختلاف کرنے والے واحد جج جسٹس کارنیلیئس تھے۔
مگر اس کیس میں حیرت کا ایک اور پہلو جسٹس ابو صالح محمد اکرام کا جسٹس منیر کے فیصلے سے متفق ہونا تھا۔ دیگر تین ججوں سمیت انہوں نے آئین ساز اسمبلی توڑنے کے فیصلے کی توثیق کی۔ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد 1962 سے 1964 تک اس دور کی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کے طور پر بھی کام کیا۔
جسٹس عبدالقدیر چیف جسٹس بننے سے کیوں رہ گئے؟
جسٹس عبدالحلیم ان ججوں میں شامل تھے جنہوں نے سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ ضیا دور میں انہوں نے پی سی او کے تحت حلف بھی اٹھایا اور نو برس تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے۔
31 دسمبر 1989 کو ان کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر اگلے چیف جسٹس کے لیے سنیارٹی میں پہلے نمبر کے لیے ایک تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔
جسٹس افضل ظلہ اور جسٹس عبدالقدیر چوہدری کے درمیان موسٹ سینیئر جج کے اختلاف کی وجہ تکنیکی نوعیت کی تھی۔
جسٹس عبدالقادر چوہدری آٹھ اکتوبر 1974 کو سپریم کورٹ کے جج بنے تھے۔ ان سے تقریباً چار سال بعد جون 1979 میں جسٹس افضل ظلہ کو سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا تھا۔ اور تاریخ تقرری میں اس واضح فرق کے باوجود وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے۔
اصل میں عبدالقدیر چوہدری کے چیف جسٹس نہ بننے کی وجہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ تھا جس نے ان کی سنیارٹی کو متاثر کیا۔
مولوی تمیز الدین کیس میں سندھ چیف کورٹ کے حکم کو غیرقانونی قرار دینے پر جسٹس منیر ان کی مدد کو آئے۔ (فوٹو: تحریک پاکستان)
جنوری 1975 میں انہیں سپریم کورٹ سے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ انہوں نے اس شرط پر یہ تعیناتی قبول کی کہ سپریم کورٹ میں ان کی سنیارٹی برقرار رہے گی۔
حکومت نے ان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا مگر ابرار حسن خان نامی ایک وکیل نے اس نوٹیفکیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے جسٹس عبدالقدیر کو موقع دیا کہ اگر وہ واپس سپریم کورٹ آ جائیں تو ان کی سنیارٹی برقرار رہے گی مگر انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بننے کو ترجیح دی۔ یوں بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں افضل ظلہ موسٹ سینیئر ہونے کی وجہ سے چیف جسٹس قرار پائے۔
تقریباً پانچ برس بعد عبدالقدیر چوہدری پر قسمت کی دیوی ایک مرتبہ پھر مہربان ہوئی اور انہیں چیف جسٹس بنانے کی پیشکش کی گئی۔ لیکن اس بار انہوں نے خود آؤٹ آف ٹرن چیف جسٹس بننے سے انکار کر دیا۔
اس کی تفصیل سے قبل جسٹس افضل ظلہ کی ریٹائرمنٹ سے جڑے ایک واقعے کا ذکر ہو جائے۔
سینیئر صحافی سہیل وڑائج کی کتاب ’عدلیہ کے عروج و زوال کی کہانی‘ میں شامل اپنے انٹرویو میں جسٹس افضل ظلہ کا کہنا تھا کہ ’سنہ 1993 میں نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کا اعلان اس وقت تک التوا میں رکھا گیا جب تک ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ نہیں آ گئی۔‘
’حکومت کو خدشہ تھا کہ وہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دیں گے، مگر ان کے جانشین جسٹس نسیم حسن شاہ نے اسمبلیاں توڑنے کے صدارتی حکم کو غیرآئینی قرار دے ڈالا تھا۔‘
سپریم کورٹ کے سینیئر ججوں نے استعفے کیوں نہیں دیے؟
موجودہ چیف جسٹس یحیٰی آفریدی کی تقرری کے بعد نظر انداز ہو جانے والے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے بارے میں کچھ حلقوں کا کا دعوٰی تھا کہ وہ سپرسیڈ ہونے پر استعفٰی دینے پر غور کر سکتے ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ یوں جسٹس ابو صالح محمد اکرم کے بعد تیسری بار ایسا ہوا ہے کہ سینیئر ترین ججز نے ایسا فیصلہ کیا ہو۔ اس کی تفصیلات کے ساتھ عدالتی تاریخ کی ایک دلچسپ داستان بھی جڑی ہوئی ہے۔
سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی مدت ملازمت 14 اپریل 1994 کو تمام ہوئی۔ ان کے بعد موسٹ سینیئر جج جسٹس سعد سعود جان کو حکومت نے قائمقام چیف جسٹس مقرر کیا، لیکن ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کی حکومت نے مستقل چیف جسٹس کی تلاش بھی شروع کر دی۔
دوسرے نمبر پر جسٹس عبدالقدیر اور تیسرے پر جسٹس اجمل میاں تھے۔
بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں افضل ظلہ (دائیں) موسٹ سینیئر ہونے کی وجہ سے چیف جسٹس قرار پائے۔ (فوٹو: فلکر)
سابق چیف جسٹس رہنے والے جسٹس اجمل میاں اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’اے جج سپیکس آؤٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’وفاقی وزیر قانون سید اقبال حیدر نے جسٹس عبدالقدیر سے ملاقات میں انہیں آگاہ کیا کہ وفاقی حکومت انہیں چیف جسٹس بنانا چاہتی ہے۔ ان کی مدت ملازمت میں صرف تین ماہ باقی تھے۔ تاہم جسٹس عبدالقدیر نے پیشکش کو ماننے سے انکار کر دیا اور وزیر قانون کو سینیئر ترین جج کو مستقل چیف جسٹس بنانے کا مشورہ دیا۔‘
یوں پیپلز پارٹی کی حکومت نے تین سینیئر ججوں کو نظر انداز کر کے چوتھے نمبر والے سجاد علی شاہ کا انتخاب کیا۔
ان کی تقرری پر سینیئر ججوں نے مستعفی ہونے کے لیے آپس میں مشورہ کیا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
جسٹس اجمل میاں کے مطابق ’پانچ جون کو انہیں کراچی میں سجاد علی شاہ کے چیف جسٹس بننے کی خبر ملی۔ انہوں نے لاہور میں جسٹس سعد سعود جان سے رابطہ کر کے اپنے اور عبدالقدیر کے استعفے کی پیشکش کی۔ مگر ان کا جواب تھا کہ وہ ایسا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اس کے بجائے وہ لمبی چھٹی پر جائیں گے۔‘
جسٹس سعد سعود جان نے طویل رخصت سے واپس آ کر دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اور جلد ہی ان کی ریٹائرمنٹ کا وقت بھی آ گیا۔
ابتدا میں اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو خدشات کا شکار تھیں کہ سجاد علی شاہ کی آؤٹ اف ٹرن تعیناتی پر ردعمل ہوا تو متاثر ہونے والے جج کہیں استعفٰی نہ دے دیں۔ اس کے علاوہ انہیں وکلا کی تنظیموں اور بار کونسلز کی جانب سے احتجاجی تحریک کا خطرہ بھی تھا۔
سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ  نے حلف لینے سے قبل وزیراعظم کے ساتھ اپنی ملاقات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اپنی خود نوشت ’لا کورٹس ان گلاس ہاؤس‘ میں لکھا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے انہیں بتایا کہ ’انٹیلیجنٹس کی رپورٹس کے مطابق بار کونسلز کی جانب سے کسی مزاحمت کا کوئی امکان نہیں۔‘
اگلے برسوں میں انہی سجاد علی شاہ کے ساتھ پیپلز پارٹی کی حکومت کے بدترین اختلافات نے عدلیہ میں ایک کشمکش کو جنم دیا۔
سجاد علی شاہ کے مطابق جب وزیراعظم سے ان کے اختلافات شدت اختیار کر گئے تو انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ’وہ جسٹس سعد سعود جان کو چیف جسٹس بنانا چاہتی تھیں مگر فاروق لغاری کا دباؤ تھا کہ وہ سجاد علی شاہ کا انتخاب کریں۔‘
الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیف جسٹس بننے کی راہ میں رکاوٹ بن گیا
قاضی فائز عیسٰی کی ریٹائرمنٹ کے وقت سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج منصور علی شاہ کے چیف جسٹس نہ بننے کو کچھ لوگ الیکشن کمیشن کے مخصوص نشستوں کی تقسیم کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے حکم نامے کو قرار دیتے ہیں۔
جسٹس اجمل میاں نے سجاد علی شاہ کے چیف جسٹس بننے کے بعد جسٹس سعد سعود جان سے رابطہ کر کے اپنے استعفے کی پیشکش کی۔ (فائل فوٹو: فلکر)
معلوم نہیں کہ اس مفروضے میں کتنی صداقت ہے۔ مگر جسٹس اجمل میاں کے مطابق 30 برس قبل صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کی صوبائی اسمبلی کے دو ممبران کی نااہلی کے ریفرنس پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر ہونے والی اپیل پر حکومت مخالف فیصلے کے خدشات نے جسٹس سعد سعود جان کے مستقل چیف جسٹس بننے کے امکانات مسدود کر دیے تھے۔
فروری 1994 میں صدر فاروق لغاری نے آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت صوبے میں ایمرجنسی لگا کر وزیراعلٰی پیر صابر شاہ کی حکومت کو معطل کر دیا تھا۔
انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ اس وقت کے قائمقام چیف جسٹس سعد سعود جان کی سربراہی میں نو رکنی فل بینچ نے سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے اکثریت رائے سے حکومت بحال کر دی اور ساتھ ہی وزیراعلٰی کے خلاف عدم اعتماد کی صورت میں گورنر کو اسمبلی اجلاس بلانے کا بھی حکم دیا۔
وزیراعلٰی پیر صابر شاہ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو گئی اور آفتاب احمد شیر پاؤ اگلے وزیراعلٰی بن گئے۔ انہیں مسلم لیگ کی اتحادی عوامی نیشنل پارٹی کے دو اراکین نے پارٹی پالیسی سے بغاوت کر کے ووٹ دیا۔
اقتدار سے محروم ہو جانے والے پیر صابر شاہ نے منحرف اراکین کے خلاف پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 1962 کے تحت الیکشن کمیشن میں نااہلی کا ریفرنس دائر کیا۔ جسے الیکشن کمیشن نے ایک کے مقابلے میں دو ووٹوں سے مسترد کر دیا۔
انہوں نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ اس وقت کے قائم قام چیف جسٹس نے نو جون کو صابر شاہ کی درخواست کی سماعت کا فیصلہ کیا مگر اس سے قبل ہی حکومت نے سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنا کر سعد جان کو ان کے عہدے سے محروم کر دیا گیا۔
سابق چیف جسٹس اجمل میاں اس کیس کے حوالے سے سعد جان کے ساتھ اپنی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’میں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ ممکن ہے وفاقی حکومت اس کیس کی سماعت کی تاریخ سے قبل کوئی حیران کن کام کر سکتی ہے کیونکہ یہ کیس حکومت کے لیے بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔‘
اخباری کالم پر توہین عدالت کی کارروائی
سجاد علی شاہ نے چیف جسٹس بننے کے بعد اس کیس کی کاروائی نو جون کے بجائے عدالتی تعطیلات کے بعد 19 اکتوبر کے دن مقرر کی۔ اس پر مسلم لیگ ن اور اے این پی نے سپریم کورٹ کے سامنے احتجاجی کیمپ لگا کر کیس کی جلد از جلد سماعت کا مطالبہ کیا۔
اس کیس کی اگلی تاریخ سے قبل سپریم کورٹ میں پانچ ایڈہاک ججوں کی تقرریاں کی گئیں۔ صابر شاہ کیس سننے والے 12 رکنی بینچ میں یہ ججز بھی شامل تھے۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اس کیس میں سینیئر وکلا خالد انور اور افتخار گیلانی کے ہمراہ پیر صابر شاہ کی طرف سے عدالت میں بطور وکیل پیش ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ نے پانچ کے مقابلے میں سات ججوں کی اکثریت رائے سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔
صابر شاہ کی درخواست کی سماعت سے قبل ہی حکومت نے سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنا کر سعد جان کو ان کے عہدے سے محروم کر دیا۔ (فوٹو: فلکر)
اس فیصلے کو پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ وکلا اور میڈیا میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
25 نومبر 1994 کو روزنامہ ڈان میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقیدی آرا پر مبنی ایک کالم کی اشاعت پر لکھاری، اخبار کے ایڈیٹر اور پبلشر کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا۔
چار جون 1995 کو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں توہین عدالت کی کاروائی کی سماعت ہوئی۔ سابق چیف جسٹس اجمل میاں بھی اس بینچ کا حصہ تھے۔
انہوں نے اٹارنی جنرل کو اخباری مضمون پڑھ کر اس میں سے توہین آمیز کلمات کی نشاندہی کرنے کو کہا لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔
جسٹس اجمل میاں کے مطابق چائے کے وقفے میں سجاد علی شاہ نے ان سے پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟
ان کا جواب تھا کہ ’جلد بازی اور غصے سے پرہیز کرنا چاہیے۔‘ اس کے بعد اس کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گئی۔
اس کالم کے لکھاری مشہور کاروباری شخصیت اور دانشور اردشیر کاؤس جی تھے۔ انہوں نے عدالت کے روبرو اپنی تحریر میں اٹھائے گئے اعتراضات پر قائم رہنے کا اعلان کیا۔ ان کی زندگی میں عدالت نے اس کیس کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
انڈیا میں سپرسیڈ ہونے پر ججوں کا ردعمل
چیف سعد سعود جان کو سپریم کورٹ کا قائمقام چیف جسٹس بنائے جانے کے فیصلے پر اس دور کے ایک وکیل نے روزنامہ ڈان میں چھپنے والے اخباری کالم میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں قائمقام تقرریوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے سندھ اور لاہور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی فیڈرل شریعت کورٹ میں ان کی مرضی کے برخلاف تبادلے کا تذکرہ کیا۔ ان کی دلیل تھی کہ یہ کورٹ ضیا الحق کے حکم نامے کے ذریعے معرض وجود میں آئی۔ جسے بدنام زمانہ آٹھویں ویں ترمیم میں آئینی تحفظ دیا گیا۔
پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت آٹھویں ترمیم کو آئین پر حملہ سمجھتی ہے مگر اس کے تحت قائم کورٹ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
اندرا گاندھی کی حکومت نے سنہ 1973 میں روایت کے برعکس سنیارٹی میں چوتھے نمبر والے جسٹس این اے رائے کو ملک کا چیف جسٹس بنایا۔ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)
عدلیہ میں سنیارٹی کے اصول کی پامالی پر آواز اٹھانے والے یہ بیرسٹر پاکستان کے 29 ویں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی تھے۔
اسی دور میں ارد شیر کاؤس جی نے اپنے ایک اور کالم میں انڈیا میں سنیارٹی کے اصول کی خلاف ورزیوں پر ججوں کے ردعمل کا تذکرہ کیا۔
پڑوسی ملک انڈیا میں 1950 سے لے کر 1973 تک سپریم کورٹ کے سینیئر موسٹ جج کے چیف جسٹس بننے کی روایت موجود تھی۔ اندرا گاندھی کی حکومت نے سنہ 1973 میں اس روایت کے برعکس سنیارٹی میں چوتھے نمبر والے جسٹس این اے رائے کو ملک کا چیف جسٹس بنایا۔
اس فیصلے سے متاثر ہونے والے تین ججوں نے استعفے دے دیے۔ ان میں جسٹس شلت، جسٹس ہگڑے اور جسٹس گروور شامل تھے ۔ان کے مستعفی ہونے پر انڈیا میں عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جس میں دو سابق چیف جسٹس حضرات جے سی شاہ اور ایم ایچ ہدایت اللہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اندرا گاندھی کی حکومت نے دوسری بار ایمرجنسی کے بعد سینیئر ترین جج ہنسراج کھنہ کو بائی پاس کر کے مرزا حمید اللہ بیگ کو چیف جسٹس بنایا۔ وہ اپنے فیصلوں کی وجہ سے حکومت کے قریب تصور کیے جاتے تھے۔
اس امتیازی سلوک کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے جسٹس کھنہ بھی مستعفی ہو گئے۔
انڈیا میں اگلے ماہ نئے چیف جسٹس کا تقرر کیا جانا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نئے چیف جسٹس بننے والے سنجیو کھنہ انہی راج ہنس کھنہ کے بھتیجے ہیں۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ کے تنازعات کی تشریح مختلف فریقین اپنے مزاج اور مفاد کے مطابق کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خود سری اور خود سپردگی کے درمیان جھولتے عدالتی سفر سے نہ عام آدمی مطمئن ہوا اور نہ ہی حکمران طبقہ۔

بشکریہ : اردو نیوز