27اکتوبر تاریخ کا جبر۔۔۔تحریر محمد شہباز



27 اکتوبر1947 وہ تاریخی جبر ہے جب بھارت نے کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کا خون کرنے کے علاوہ تمام عالمی اصولوں اور قوانین کو پاوں تلے روند کر مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنی ناپاک فوجیں سرینگر ائیر پورٹ پر اتار کر داخل کیں۔ 27 اکتوبر 1947 کا سانحہ تقسیم برصغیر کے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔اسی لیے 27 اکتوبر1947 اہل کشمیرکیساتھ ساتھ مہذب اقوام کیلئے یوم سیاہ اور سوگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اہل کشمیر 27 اکتوبر 1947 سے مقبوضہ جموں و کشمیر پر ناجائز بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد میں مصروف عمل ہیں ،جس میں لاکھوں انسانی جانوں کی قربانیوں کے علاوہ جائیداد و املاک کی تباہی اورہزاروں عفت مآب خواتین کی عزت و آبرو بھارتی درندوں کے ہاتھوں لٹ چکی ہے۔آج بھی کشمیری عوام کو بھارتی درندگی اور بربریت کے نتیجے میں خون کے دریا سے گزرنا پڑتا ہے۔ بھارت نے 27 اکتوبر 1947 میں ایک منظم اور پہلے سے منصوبہ بند سازش کے ذریعے اپنی فوجی طاقت کے بل پر جموں و کشمیر پر ناجائز اور غاصبانہ قبضہ کرکے ایک جیتی جاگتی قوم کو اپنی جبری غلامی میں جکڑ لیا۔البتہ اہل کشمیر کو داد دینی چاہیے جو تمام تر مظلومیت کے باوجود نہ تو اس بھارتی قبضے کو تسلیم کرتے ہیں اور پھر بے سرو سامانی اور نہتے ہوکر دنیا کی چھٹی بڑی فوجی قوت کیساتھ نبردا زما بھی ہیں۔ دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں کی جانب سے 27 اکتوبر یوم سیاہ منانابھارت کے علاوہ عالمی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کو مسترد کرتے ہیں۔اہل کشمیر بھی موجودہ ظالم دنیا کا ہی حصہ ہیں جس کے کوئی اصول و ضوابط نہیں ہیں ‘ جو خود کو مظلوم کے بجائے ظالم کیساتھ کھڑا ہونا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ورنہ غزہ میں اسرائیلی بربریت کا یونہی ننگا ناچ جاری نہ رہتا اور صرف ایک برس کے مختصر عرصے میں 45000 فلسطینی یونہی گاجر مولی کی طرح نہ کاٹے گئے ہوتے ۔
اہل کشمیر بہرحال داد تحسین کے مستحق ہیں کہ وہ گزشتہ 77 برسوں سے بھارتی قبضے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔اس عرصے میں کشمیری عوام بھارت کے ہاتھوں بار بار قتل عام کے بدترین واقعات سے گزر چکے ہیں جن میں 06 نومبر 1947 میں جموں کا خونین واقعہ بھی شامل ہے، جس میں ڈھائی لاکھ کے قریب مسلمانوں کا اجتماعی طور پرتہہ تیغ کیا گیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ اس قتل عام کے بعد ہی صوبہ جموں مسلم اکثریت سے اقلیت میں تبدیل ہوا۔جس کے عینی شاہد وید بھیسن بھی ہیں،جس نے پھر بہت سارے واقعات کو قلم بند بھی کیا،جس کی آج تک ان کا خاندان سزا بھگت رہا ہے ۔بلا شبہ وید بھیسن کا مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے پہلے سے موجود منصوبہ بند قبضے کی سازش کو طشت از بام کرنا ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے،جو 22 اکتوبر کے واقع کو مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کی فوجی جارحیت کی راہ ہموار کرنے کو بطور جواز یا دلیل پیش کرنے کی بھونڈی کوشش کرتے ہیں،حالانکہ وید بھیسن ایک کٹر ہندو تھے،لیکن انہوں نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں وکشمیر کو ہڑپنے کے منصوبے کو جس بے باکی کیساتھ بے نقاب کیا،اس پروہ یقینا داد کے مستحق تھے۔اس کے بعد بھی بھارت کی جانب سے قتل عام کے واقعات جاری رہے جبکہ 1989 سے لیکر آج کے دن تک قریبا ایک لاکھ کشمیری بھارتی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔27 اکتوبر1947 میں جہاں بھارتی حکمرانوں نے باضابطہ ریاست پر فوج کشی کی ،تورہی سہی کسر 05 اگست 2019 میں پوری کی گئی،جب مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کیلئے بھارتی حکمرانوں نے اپنے ہی آئین کی مٹی پلید کرکے اپنے منہ پر کالک مل دی۔یہ 05اگست2019 کی آئینی جارحیت ہی ہے،جس کی آڑ میں اہل کشمیر پر ایک ایسا فوجی محاصرہ مسلط کیا گیا جس کے نتیجے میں کشمیری عوام کا دم گھٹ گیا اور وہ اس گھٹن زدہ ماحول میں سانس لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ان سارے حالات و واقعات کا رونما ہونا تب ممکن ہوسکا جب شاطر انگریز ہندو بنیے کے دست بازو بنے اور پھر حالات کا دھارا کشمیری عوام کی مخالفت میں ہی بہا۔ان تمام سازشوں کے تانے بانے لارڈ مونٹ بیٹن اور پنڈت جواہر لعل نہرو نے اس وقت بنے جب دونوں نے راجواڑوں کو اپنی انفرادی حیثیت ختم اور پھر بھارت کیساتھ الحاق پر مجبور کیا۔مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے کی راہ ہموار کی جائے جس کیلئے ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ کو نام نہاد دستاویز الحاق پر دستخط کیلئے مجبور کرنا تھا۔ حالانکہ مہاراجہ ریاست کی خود مختار حیثیت کی بحالی پر بہر صورت مصر تھے جس کی تصدیق معروف برطانوی تاریخ دان اور محقق پروفیسر السٹر لیمب بھی کرچکے ہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ قطعا بھارت کی عملداری کو تسلیم کرنے کے حق میں نہیں تھے جس کی بعدازاں آنے والے واقعات نے بھی تصدیق کی ہے کہ مہاراجہ کے شدید اصرار پر ہی ریاست کا بھارت کیساتھ دفاع’ خارجہ اور مواصلات کی حد تک اتفاق کیا گیا اور خود جموں کے لوگوں کے شدید مطالبے پر بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کو شامل کرایا گیا تاکہ بھارتیوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں زمین کی خریداری سے روکا جائے، لیکن 05 اگست 2019 میں مودی نے یہ رکاوٹ بھی ختم کرڈالی اور اب نہ صرف بھارتی بزنس ٹائیکونز کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں ابھی تک بہت ساری زمینیں منتقل کی جاچکی ہیں بلکہ ان بھارتیوں کو ووٹ کے حق سے بھی نوازا گیا ہے جو مقبوضہ جموں وکشمیر میں چار برس تک بطور خدمات انجام یا ان کے بچے یہاں تعلیم حاصل کرتے رہے ۔اس کے علاوہ لاکھوں غیر ریاستی باشندوں جو کہ اصل میں بھارتی ہیں کو ڈومیسائل فراہم کیا جاچکا ہے جس سے ریاست کی مسلم اکثریت کو ہندو اقلیت میں بدلنا ہے۔آئے روز کشمیری عوام کی جائیداد واملاک، مکانات اور زرعی اراضی کو قبضے میں لیا جاتا ہے ۔
27 اکتوبر1947 تقسیم برصغیر کے اصولوں سے مکمل انحراف اور عالمی قوانین کی صریحا خلاف ورزی ہے ہی ،جس نے ایک امن پسند قوم کا بنیادی حق غصب کرکے اسے جبری غلامی کی جانب دھکیلا۔اسی جابرانہ فوجی قبضے کے بعد ڈوگرہ افواج، آر ایس ایس، بجرنگ دل اور ویشو ہندو پریشد کے دہشت گردوں نے نہتے اور معصوم کشمیری مسلمانوں کا بے دریغ قتلِ عام کیا اور ان کی جائیداد و املاک کو اپنے قبضے میں لے لیا۔کشمیری عوام گزشتہ77 برسوں سے بھارت کے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کے خاتمے کیلئے ایک مربوط مزاحمتی تحریک میں مصروف عمل ہیں۔ یہ بھارت کے غیر قانونی اور ناجائز قبضے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج تک سوا 5 لاکھ سے زائد کشمیری بھارتی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لاکھوں لوگ زخمی، ہزاروں خواتین بیوہ، لاکھوں بچے یتیم اور ہزاروں تعمیرات خاکستر کی جاچکی ہیں ۔ یہ خونین اور ریاستی دہشت گردی کا کھیل جاری ہے۔ ریاست کے اکثریتی تشخص کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے منظم اقدامات کئے جارہے ہیں۔کشمیری عوام پر معاشی بدحالی مسلط کی گئی ۔انہیں ان کی زمینوں،جائیداد و املاک سے محروم اور ملازمتوں سے برطرف کرکے باہر سے لوگوں کو لاکر بسانے اور غیر ریاستی آفیسراں کو یہاں تعینات کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔مزاحمتی قیادت کو جیلوں اور کال کوٹھریوں کے اندر مقید کیا گیا ہے جہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں،انہیں علاج معالجے کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔گزشتہ پانچ برسوں میں محمد اشرف خان صحرائی ،سید الطاف فنتوش اور غلام محمد بٹ سمیت کئی تحریکی قائدین اور کارکن علاج و معالجے کی عدم دستیابی کے باعث بھارتی جیلوں میں ہی اپنی جانیں جاں آفریں کے سپرد کرچکے ہیں۔ان حالات میں پاکستان کے ارباب اختیار و اقتدار پر جومسئلہ کشمیر کا مسلمہ فریق اور اہل کشمیر کے وکیل ہونے کے ناطے یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف سیاست اور سفارتکاری تک محدود ر ہنے کے بجائے ٹھوس اقدامات کریں ورنہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے ایک انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے،جس کے نتائج انتہائی سنگین اور خوفناک ہونگے،کیونکہ فسطائی مودی مقبوضہ جموں وکشمیر میں اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کا آغاز ناجائز اسرائیل ارض فلسطین میں 1948 میں کرچکا ہے۔جس کا نتیجہ 07 اکتوبر 2023 میں برآمد ہوا ۔یہ مسئلہ کشمیر ہی ہے جس کی کوکھ نے برہان وانی سے محمد اشرف ڈار ،محمد مقبول الہی،ڈاکٹر منان وانی اور ہزاروں ہیروں کو جنم دیا ہے جن کے لہو نے مسئلہ کشمیر کو سرد خانے سے نکال کر ایک ایٹمی فلیش پوائنٹ میں تبدیل کیا ہے اور اس کے حل تک اہل کشمیر کے گبرو جوان جنم لیتے رہیں گے۔ آج اگر مشرقی وسطی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے ،تو برصغیر جنوبی ایشیا بھی بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے،ایک معمولی چنگاری اس بارود کو راکھ میں تدبیل کرسکتی ہے،جس کے بعد ملامت اور افسوس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیری عوام کے استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حق کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کا فرض ہے کہ وہ کشمیری عوام کو مودی کی جارحیت سے نجات دلائیں کیونکہ کشمیری عوام اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک وہ بھارتی غلامی سے آزادی حاصل نہیں کر لیتے۔