سیاست ہو تو ایسی … تحریر : سلیم صافی


پارلیمنٹ سے آئینی ترامیم کی منظوری کے اگلے روز دوپہر کو مولانا فضل الرحمان کا مسیج آیا کہ شام کے کھانے کے لئے ان کے ہاں حاضر ہوجاؤں۔ پہنچا تو ان کے گھر میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔لوگ مبارک باد دینے آرہے تھے جبکہ دوسری طرف وہاں چھوٹی سی تقریب کااہتمام بھی تھا۔ تمام ایم این ایز، سینیٹرز اور اہم رہنما مدعو تھے لیکن تقریب کے دولہا مولانا فضل الرحمان تھے۔

تقریب کا سبب حضرت مفتی تقی عثمانی بنے تھے کیونکہ وہ خصوصی طور پر مولانا کا ماتھا چومنے کراچی سے تشریف لائے تھے لیکن درجنوں اور بھی ایسے تھے جن میں کوئی گل دستہ پیش کررہا تھا ، کوئی ہاتھ چوم رہا تھا تو کوئی معانقہ کرکے مولانا کو خراج تحسین پیش کررہا تھا۔مولانا فضل الرحمان نے مختصر روداد بیان کی اور پھر اس معرکے کے اپنے سپہ سالار سینیٹر کامران مرتضی سے کہا کہ وہ شرکا کو بریف کریں ۔

کامران مرتضی نے عدلیہ سے متعلق ترامیم کا سرسری تذکرہ کیا اور پھر نکات تفصیل کے ساتھ بیان کئے جو مذہب سے متعلق تھے ۔ ان کی بریفنگ سن کرپتہ چلا کہ مولانا نے تو اصل کام یہاں نکالا ہے لیکن اس طرف لوگوں کی توجہ نہیں۔ سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ مقررہ تاریخ تک سود کا خاتمہ کیا جائے گا۔ چار کی بجائے اب ایک جگہ مدارس کی رجسٹریشن ہوگی۔ فیڈرل شریعت کورٹ میں اصلاحات کی گئی ہیں ۔و غیرہ ۔ یہ سن کو مولانا تقی عثمانی ،جو وفاق المدارس کے صدر بھی ہیں ،نے آئندہ جمعہ کو ملک بھر میں یوم تشکر منانے کی اپیل بھی کی ۔

مولانا کی قسمت اچھی ہے کہ چند سیٹوں کے باوجود اللہ نے حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کو ان کا محتاج بنا دیا اور پھر مولانا نے ایسی سیاست کی کہ بلاول بھٹو بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد کے بعد اگر کسی سیاستدان کو مانتے ہیں تو وہ مولانا فضل الرحمان ہیں۔ حالانکہ کچھ عرصہ قبل وہ مولانا کا نام لینے کے بھی روادار نہ تھے ۔

آئین میں ترمیم کا جو پہلا مسودہ حکومت نے تیار کیا تھا اس کو ماننے کے لئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی قیادت نے مولانا کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی ۔ ان کا خیال تھا کہ مولانا حکومت میں حصہ ڈیمانڈ کریں گے لیکن وہ ڈٹ گئے اور پہلے مسودہ سامنے لانے کا مطالبہ کیا۔ مسودہ دیکھا تو بقول مولانا کے اس لفافے سے کالا ناگ نکل آیا اور اب ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس ناگ کے دانت توڑ دئیے ہیں۔

اصل چیز جو مولانا نے حاصل کی وہ سیاست میں دو بارہ اپنے آپ کو محور بنانے کی ہے ۔ الیکشن میں شکست کے بعد ان کا گھر سیاسی کعبہ بن گیا جس کے گرد شہباز شریف، بلاول بھٹو اور پی ٹی آئی کے لیڈر باری باری طواف کررہے تھے ۔وہ ڈٹے بھی رہے اور لچک بھی دکھاتے رہے ۔ حکومت کے ساتھ ساتھ انہیں پی ٹی آئی کو بھی ساتھ لے کر چلنا تھا۔ یہ پل صراط پر سفر تھا جو انہوں نے خوش اسلوبی سے عبور کیا۔ انہوں نے حکومت کو ایسا خوش کیا کہ نواز شریف اور بلاول مولانا کے لئے واہ واہ کررہے ہیں جبکہ وہ اس طریقے سے کھیلے کہ پی ٹی آئی ترمیم کی مخالف ہوکر بھی مولانا سے ناراض نہیں ہے ، حالانکہ مولانا نہ مانتے تو یہ ترمیم پاس نہیں ہوسکتی تھی اور اگر پاس ہوتی تو اس کے لئے حکومت کو ہارس ٹریڈنگ کرنا پڑتی۔

مولانا نے آٹھ ممبران کے ساتھ اپنی سیاسی ساکھ اتنی بڑھا دی کہ کوئی 80ممبران کے ساتھ بھی نہیں بڑھا سکتا اور آٹھ ممبران کے ساتھ اپنے منشور کے مطابق اس قدر مذہبی قانون سازی کرادی کہ کوئی سو ممبران کے ساتھ بھی نہیں کرسکے گا لیکن مولانا کے لئے اب یہ مشکل ہوگیا ہے کہ وہ بیک وقت نون لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے ساتھ دوستی کب تک نبھائیں گے ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ