جناب محمد اشرف ڈار تحریک آزادی کشمیر کا ایک روش ستارہ ہیں۔ان کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔وہ ایسے نقوش چھوڑ کر گئے ہیں جو آج بھی مقبوضہ جموں و کشمیر کے جنگلوں،وادیوں اور بیابانوں میں برہمن سامراج کے خلاف برسر پیکارسرزمین کشمیر کے فرزندوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔جناب محمد اشرف ڈار کی شہادت کو آج پورے 32 برس مکمل ہوچکے ہیں مگر ان کی یادیں آج بھی تازگی کا احساس دلاتی ہیں۔ان 32 برسوں میں ان کی زندگی کے شب وروز اور مسلح جدوجہد میں ان کے سرخیلی کردار پرکئی بار قلم کو جنبش دینا چاہی مگر قلم بھی قرطاس پر کچھ نہ لانے پر آمادہ کرتا رہا۔حال ہی شہید محمد اشرف ڈار کے بچپن کے دوست،مسلح جدوجہد میں ان کے ہمرکاب اور راز دار شیخ عبدالوحید کیساتھ ملاقات میں اچانک جناب محمداشرف ڈار یاد آگئے۔دل ودماغ کے دریچوں پر شہید کے گول مٹول اور خوبصورت چہرے نے دستک دی اور پھر ان کی یادوں کو تازہ کرنے پر آمادہ مائل کیا۔محمد اشرف ڈار ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔وسطی ضلع بڈگام کی مردم خیز بستی سنور کلی پور ہ جو سیب اور بادام کے باغات سے گھری ہوئی،چھوٹی چھوٹی پہاڑی ٹیکریاں اس کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔چنار،سفیدے اور آخروٹ کے بڑے بڑے درخت بھی اس بستی کی شان میں اضافہ کرتے ہیں جبکہ اس کی نزدیک ترین بستی رازوین ہے جہاں سے شیخ عبدالوحید تعلق رکھتے ہیں۔محمد اشر ف ڈار کے والد جناب عبدالعزیز ڈار پروفیسر تھے،لہذا شہید کو بچپن سے ہی گھر میں تعلیم سے بھرپور ماحول میسرآیا۔اس کے علاوہ انہیں جناب غلام محمد میر المعروف شمس الحق کا شاگرد ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔جس پر وہ فخرکیساتھ ذکر کرکے اس تعلق کو اپنے لیے خوش بختی کہتے تھے اور جب بھی شہید حق صاحب کا ذکر کرتے تھے توبڑے ادب واحترام کیساتھ کرتے کہ میں نے جو کچھ سیکھا ہے انہی سے سیکھا۔وہ انہیں اپنے روحانی استاد کا درجہ دیتے تھے۔وہ پڑھنے میں لائق تھے۔ابتدائی تعلیم اپنی بستی سے حاصل کی اور میٹرک کے بعد ہائیر سیکنڈری کالج ماگام میں داخلہ لیا۔ابھی گیارہویں جماعت میں ہی زیر تعلیم تھے کہ 14 اگست کے موقع پر ہائیر سیکنڈری کالج کی عمارت پر پاکستانی سبز ہلالی پرچم لہرایا۔اس واقع نے بھارتی انتظامیہ اور بھارتی ایجنسیوں کو سیخ پا کیا۔شہید بھارتی ایجنسیوں کے راڈار پر آگئے۔ان کا پیچھا شروع ہوگیا۔نتیجتا ان کا گھر اور والد صاحب بھی اس کی زد میں آگئے۔لے دے کے شہید نے گیارہویں جماعت پاس کیا اور ابھی بارہویں جماعت میں آئے ہی تھے کہ میڈیکل اسسٹنٹ کی لسٹ میں ان کا نام آگیا۔ان کی پوسٹنگ بیروہ ہسپتال میں ہوئی،یہاں تک کہ1987 آن پہنچا۔ پرندوں کی دنیا کا بادشاہ ہوں میں کے مصداق محمد اشرف ڈارکسی اور ہی راستے کا مسافر تھا۔ دوران ملازمت ہی وہ اس راستے کا انتخاب کرچکے تھے جس میں بالآخر اپنی متاع عزیز بھی قربان کی۔ 1987 میں جب متحدہ مسلم محاذ کو کشمیری عوام کی بھرپور حمایت کے باوجود انتخابات میں ان کی کامیابی کو شکست میں بدلا گیا تو اہل کشمیر کے گبروجوان نے بدترین نا انصافی پر مبنی اس ظلم کے خلاف بلیٹ کو بلٹ میں بدلنے کا فیصلہ کیا تو اس فیصلے میں جناب محمد اشرف ڈار بنفس نفیس شامل تھے۔وہ 1987 کے انتخابی عمل میں اپنے استاد جناب شمس الحق کے دست راست تھے اور وہ اپنی آنکھوں سے پوری صورتحال کا مشاہدہ کرچکے تھے۔شروع کے چند گنے چنے افراد جو کنٹرول لائن عبور کرکے بیس کیمپ پہنچے تھے ان میں محمد اشرف ڈار اور شیخ عبدالوحید بھی تھے۔یہاں سے واپسی پر انہوں نے ضیا ٹائیگرز کے نام سے گروپ تشکیل دیا،چونکہ وہ شہید جنرل ضیا الحق کے شیدائی تھے گو کہ بعدازاں حزب المجاہدین کے قیام کے بعد ضیا ٹائیگرز کو حزب المجاہدین میں ضم کیا تھا۔وہ کئی بار کنٹرول لائن کو اپنے پائوں تلے روند چکے تھے اور خود نوجوانوں کو اپنی میت میں بیس کیمپ لاتے رہے۔خود ایکبار کہہ رہے تھے کہ سردیاں شروع ہونے کو تھیں اور سرحدوں پر ہلکی برفباری بھی ہوچکی تھی میرے ساتھ چند ایک نوجوان تھے جن میں ایک بہت زیادہ تھک چکا تھا تو دوسرے یہ کہہ رہے تھے کہ مذکورہ نوجوان کو یا تو واپس بھیج دیا جائے یا پھر یہیں چھوڑ دیا جائے لیکن میری غیرت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ محمد اشرف ڈار کی قیادت میں جانے والا کوئی نوجوان جس نے آگے جاکر خود کو قربان کرنا ہو اس سے راستے میں بے یارو مدد گار چھوڑا جائے لہذا میں نے ایک رسی ان کے دونوں ہاتھوں کیساتھ باندھ کر سرا خود پکڑ لیا اور پھر اس سے منزل مقصود تک پہنچا کر ہی دم لیا،حالانکہ میرے پاس کھانے کیلئے صرف ڈیلشس سیب تھے جومیں گھر سے ساتھ لایا تھا۔1989کے آخری ایام تک محمد اشرف ڈار مقبوضہ جموں و کشمیر میں دشمن کے خلاف دو دو ہاتھ کرتے رہے اور بیروہ میں نیشنل کانفرنس کے جلسے میں شریک اس وقت کے وزیر اعلی فاروق عبداللہ پر حملہ بھی شہید اشرف ڈار نے ہی شیخ عبدالوحید کیساتھ ملکر کیا تھا۔پھرانہی ایام میں پورے ضلع بڈگام کا ایک ساتھ کریک ڈاون بھی کیا گیا تھا،جس میں پہلی دفعہ ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے گئے تھے۔مگر دشمن خاک چھاننے کے باوجود ان دونوں کا بال بھی بیکا نہیں کرسکا۔عصر کے قریب کریک ڈاون ختم کیا گیا تو یہ دونوں نمودار ہوگئے۔جس پر انہیں چھلاوے کا لقب دیا گیا۔ 1990 کے آغاز میں محمد اشرف ڈار پھر ایکبار بیس کیمپ پہنچے چونکہ 1989 کے آخری ایام اور نوے کے شروع میں پورے مقبوضہ جموں وکشمیر سے ہزاروں کی تعداد میں قافلے بیس کیمپ پہنچے تو عسکری کیساتھ ساتھ دینی و اخلاقی تربیت کا انتظام و انصرام کا اہتمام ایک کٹھن مرحلہ جماعت اسلامی پاکستان و آزاد کشمیر کے بھرپور تعاون اور مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا جس میں مرحوم قاضی حسین احمد اور جناب عبدالرشید ترابی پیش پیش تھے۔بحیثیت شخصیات اور جماعت یہ کردار تعاون اور پشتبانی تاریخ کا وہ سنہری باب ہے جس سے بھلایا جانا ممکن نہیں ہے۔اس کام میں جناب محمد مقبول الہی بھی پیش پیش تھے اور وہ تمام معاملات کی نگرانی کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔وہ بھی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور بلاشبہ مسلح جدوجہد کے اولین سالار ٹھرے تھے۔ انہی کی سربراہی میں بدنام زمانہ پولیس آفیسر وٹالی پر حملہ کیا گیا تھا جس میں جناب اعجاز احمد ڈار مرتبہ شہادت پر فائز جبکہ محمد مقبول الہی دائیں بازو میں گولیاں لگنے سے مضروب ہوچکے تھے۔
محمد اشرف ڈار گو کہ نازو و نعم سے پلا بڑا تھا لیکن موجودہ تحریک آزادی میں سادگی میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ان کے پاس ایک ہی قیمض شلوار ہوتا تھا اور پھٹی پرانی پلاسٹک چپل ان کے پاوں میں دیکھ کر قرون اولی کی یاد تازہ ہوجایا کرتی تھی۔وہ کم عمر ضرور تھے لیکن انہیں ہر تنظیمی میٹنگ کا حصہ ضرور جاتا تھا حالانکہ وہ نمود و نمائش اور بڑا بننے سے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ راقم کئی بار عباسی کیمپ میں ان کے پاس عسکری امور کے بڑے ماہر جناب علی محمد ڈار اور دوسرے اکابریں کو صلاح و مشورہ کیلئے آنے کا مشاہدہ کرچکا تھا۔ جناب غلام رسول ڈار 1990 کے وسط میں بیس کیمپ پہنچے تو وہ بھی عباسی کیمپ میں ہی قیام پذیر ہوئے تو محمد اشرف ڈار جو کہ مقبوضہ کشمیر میں ہی شہید ڈار صاحب سے شناسا تھے لیکن یہاں کی قربت نے انہیں جناب غلام رسول ڈار کا گرویدہ بنایا تھا۔وہ ڈار صاحب کے سامنے زانوے تلمیذ تہ بیٹھا کرتے تھے پھر حزب المجاہدین کے سالار سید صلاح الدین احمد بھی بیس کیمپ پہنچنے پر عباسی کیمپ میں ہی ٹھرے تھے۔ پیر صاحب نے شہید اشرف ڈار کی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑے جو شہادت کے دن تک ان کی زندگی کا حصہ تھے۔یہاں اس بات کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ چند ناعاقبت اندیش جو ہر وقت اپنی دال گلنے کی فکر میں رہتے تھے نے محمد اشرف ڈار کو جناب مقبول الہی سے بدظن کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی اور مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہے کہ اصل میں ایسے ناعاقبت اندیش افراد محمد اشرف ڈار کے پیچھے چھپنا چاہتے تھے البتہ پیر صاحب اور شہید غلام رسول ڈار کی یہاں آمد پر شہید اشرف ڈار محمد مقبول الہی سے شیر و شکر ہوگئے اور پھر دونوں ایک ساتھ مقبوضہ کشمیر میں وارد ہوئے۔ان کی مقبوضہ کشمیر واپسی پر بھارتی میڈیا نے یہ کہا تھا کہ دو خطرناک دہشت گرد وادی کشمیر میں داخل ہوگئے۔
یہ جولائی 1992 کے ایام تھے جب محمد اشرف ڈار نے مقبوضہ کشمیر کیلئے رخت سفر باندھا۔انہیں جماعت اسلامی آزاد کشمیر بالعموم اور جناب عبدالرشید ترابی نے بالخصوص روکنا چاہا مگر شہادت پر فائز ہونا ان کے نصیب میں لکھا جاچکا تھا۔محمد اشرف ڈار نے ترابی صاحب کو اپنا خواب سنایا کہ کئی روز سے شہید اشفاق مجید وانی خواب میں آکر کہتے ہیں کہ میں تمہارا گھر میں انتظار کرتا ہوں آپ آئے کیوں نہیں۔ گویا ایک سالار دوسرے سالار کو بلارہا تھا۔بس پھر تین ماہ بعد جناب محمد اشرف ڈار اپنی ہی مردم خیز بستی میں22 اکتوبر1992 میں دشمن کے ہاتھوں شہادت کی خلعت پہن کر شہید اشفاق مجید وانی کے پاس پہنچ گئے۔ان کیساتھ کراچی پاکستان کے عمر سرفراز اور گرند کے رہنے والے مجاہد بھی جام شہادت نوش کرگئے۔ہم بیس کیمپ میں ایک مقام پر مقیم تھے کہ رات کو بی بی سی نے ان کی شہادت کی خبر بطور بریکنگ نیوز چلائی۔میرے دوست محمد مشتاق زاہد علی نے مجھے آگاہ کیا تو پورا کیمپ جیسے سوگ میں ڈوب گیا۔دوسرے روز علی الصبح ایک اور عالمی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ VOA نے اپنی نشریات کا آغاز ہی اسی خبر سے کرکے کیا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حزب المجاہدین کے ایک اعلی کمانڈر کی موت۔پھر اپنے نمائندے قیصر مرزا کی تفصیلی رپورٹ پیش کی۔قیصر مرزا نے سید صلاح الدین احمد سے پوچھا کہ کیا محمد اشرف ڈار کی موت تحریک اور تنظیم کیلئے بڑا دھچکہ نہیں ہے؟ تو جناب سید کا جواب تھا اشرف ڈار اپنے پیچھے ہزاروں اشرف ڈار چھوڑ کر گئے ہیں۔ شہید محمد اشرف ڈار کی نماز جنازہ میں لوگوں کا سمندر امڈ آچکا تھا اور تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ بعدازاں یہ پتہ چلا کہ اس رات پیر صاحب اور شمس الحق کی میت میں سینکڑوں مجاہدین سنور کلی پورہ میں ہی مقیم تھے اور نماز فجر کی ادائیگی کے بعد فائرنگ کی آواز سن کر محمد اشر ف ڈار پیر صاحب اورشہید شمس الحق سے یہ کہہ کر فائرنگ کے مقام کی طرف چلے گئے کہ شاید دوسری تنظیم کے لوگ ہمارے ساتھیوں سے لڑپڑے ہیں میں اپنے ساتھیوں کو واپس لاتا ہوں۔چونکہ ان دنوں حزب المجاہدین کو کئی محاذوں پر دشمن کے علاوہ اپنوں سے بھی نبرد ازما ہونا پڑتا تھا۔باہر دشمن نے علاقے کو گھیر رکھا تھا۔ محمد اشرف ڈار اپنے دو ساتھیوں اعجاز گرند اور عمر سرفراز کراچی کے ہمراہ براہ راست گولیوں کی زد میں آچکے تھے اور ایک گولی ان کے گول مٹول اور ہنستے مسکراتے چہرے پر پیوست ہوچکی تھی اور یوں ملت اسلامیہ کے ماتھے کا جھومر اور چمکتا ستارہ جناب محمد اشرف ڈار نے جس راستے کا انتخاب کیا اسی راستے میں اپنا گرم گرم لہو بھی بہایا۔
ان کی شہادت کے دو برس بعد جناب شمس الحق اور جناب میر احمد حسن بیس کیمپ تشریف لائے تو پتہ چلا کہ محمد اشرف ڈار کو صوبہ جموں میں بھیجنے کی تیاری مکمل ہوچکی تھی۔کیونکہ شہید صوبہ جموں بطور خاص ڈوڈہ سے خاصی عقیدت رکھتے تھے اور وہاں کے تحریکی افراد کیساتھ ان کی انسیت قابل دید تھی۔شہید احمد حسن کہہ رہے تھے کہ ہم نے اپنا ایک گروپ بیس کیمپ بھیجنا تھا اور اس کیلئے کپڑے ،جوتے اور دوسرا زاد راہ خریدا جاچکا تھا ،اسی اثنا میں وہاں صوبہ جموں سے بھی ایک گروپ آں پہنچاتو شہید محمد اشرف ڈار نے اپنے ساتھیوں کیلئے خریدا گیا سارا سامان جموں کے ساتھیوں میں تقسیم کیا اور پھر گھر سے پیسے لیکر نیا سامان خریدنے کیلئے دیئے تھے۔البتہ ان کی صوبہ جموں جانے کی آرزو پوری نہیں ہوئی،جو ان کے دل میں مچل رہی تھی۔اسی طرح یہاں سے واپسی پر وہ جنوبی کشمیر گئے اور وہاں اراکین جماعت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ تحریک فوری نتائج کی حامل نہیں بلکہ برسوں پر محیط ہے ،اس کی آبیاری جماعت کے لوگوں نے اپنے خون سے کرنی ہے۔محمد اشرف ڈار جہاں سنجیدہ فکر مزاج کے مالک تھے وہیں انہیں غیر سنجیدہ افراد کا طرز عمل پڑا ناپسند اور ناگوار گزرتا تھا اور کبھی کبھار وہ ایسے لوگوں کی ٹھیک ٹھاک کلاس لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ،حتی کہ میدان کار زار میں بھی انہوں نے بڑے بڑوں کو ٹھیک بھی کیا ہے،جس کی گواہی شمس الحق اور احمد حسن کے علاوہ مرحوم مولانا غلام نبی نوشہری نے بھی دی ہے۔میدان کارزار میں نوشہری صاحب کی سربراہی میں ایک مصالحتی کمیشن بھی بناتھا جس میں محمد مقبول الہی اور محمد اشرف ڈار بھی ممبر تھے۔محمد اشرف ڈار کی شہادت کے بعد ان کے والد پروفیسر عبدالعزیز ڈار حج بیت اللہ پر تشریف لے گئے تو وہاں سے انہوں نے شہید غلام رسول ڈار کیساتھ فون پر بات کی اور شہید ڈار صاحب سے کہا کہ اب تو اشرف کو واپس بھیج دیتے ،جس پر شہید ڈار صاحب کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔یہ ایک والد کی اپنے بیٹے کیساتھ عقیدت کا اظہار تھا۔شہید محمد اشرف ڈار بھی دوسرے ہزاروں نوجوانوں کی طرح غیر شادی شدہ تھے۔حالانکہ ان کے اولعزم والدہ، بہنیں نکاح کیلئے بہت کہہ رہی تھیں۔چند برس قبل شہید کی والدہ کیساتھ ملاقات اور میزبانی کا شرف حاصل ہوا تو میں نے ا ن کی جانب سے بیٹے کو شادی پر راضی کرنے کے سلسلے میں پوچھنے کی جسارت کرہی لی تو ان کا کہنا تھا کہ میں بطور والدہ میری خواہش تھی کہ ان کا کوئی بچہ وغیرہ ہوتا تاکہ میں اس سے دیکھ کر بیٹے کی جدائی کا غم کچھ ہلکا کرسکوں لیکن اشرف کہاں ماننے والے تھے ان پر جذبہ جہاد اور شوق شہادت کا جنون سوار تھا سو وہ اپنے حصے کا کام کرگیا۔
جہاں شیخ عبدالوحید اور محمد اشرف ڈار بچپن سے ہی راز و نیازکی باتیں کرتے تھے وہیں انہیں شہید عبدا لماجد ڈار،محمد مظفر،عبدالقادر اورفاروق احمد جیسے ہیرے بھی میسر آئے ،جو اپنے خون سے تحریک آزادی کشمیر کی آبیاری کرچکے ہیں۔بلاشبہ یہ انہی باکردار اور پاک نفوس کی قربانیوں کا ہی ثمر ہے کہ آج بھی ان جبر کے حالات میں اہل کشمیر برہمن سامراج کے خلاف برسر پیکار لاکھوں قربانیوں سے مزیں اپنی تحریک آزادی جاری رکھے ہوئے اس سے ہر حال میں پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔یہ قربانیاں ہر حال میں وفا کا تقاضا کرتی ہیں اور فی زمانہ یہ تقاضا کرتی رہیں گی۔شہید محمد اشرف ڈار نے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جو شمع جلائی ہے اس شمع کی روشنی کو ماند نہیں بلکہ جلائے رکھنا زندہ ضمیر قوموں ،جماعتوں اور افراد پر فرض ہے۔اللہ تعالی شہدا کے درجات بلند اور ان کی قربانیوں کو تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کا ضامن بنائیں۔آمین
Load/Hide Comments