پاکستان سے امریکا ، برطانیہ اور کینیڈا جانے کی خواہش رکھنے والوں کی تعداد لامتناہی ہے۔اِن ممالک میں ہجرت کرجانے کی تمنا رکھنے والے ہمارے نوجوانوں کی بیقراری قابلِ دید بھی ہے اور قابلِ تجزیہ بھی ۔ ہمارے اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے بھی ملک میں روزگار اور ملازمت کے مواقع سکڑتے جارہے ہیں ۔ حکومت سرکاری ملازمتوں پر ویسے بھی مزید پابندیاں عائد کررہی ہے ۔
سوشل میڈیا ، انٹر نیٹ، ایکس وغیرہ پر عائد کی جانے والی سرکاری تحدیدات کے کارن آئی ٹی کے میدان میں ہمارے نوجوانوں کے لیے جنم لینے والے متنوع مواقع بھی ناپید ہورہے ہیں۔ ایسے میں نوجوان پاکستانیوں کا ملک سے بھاگ کر بیرونِ ملک سینگ سمانے کا سودا پختہ تر ہورہا ہے ۔ بلوم برگ نے اپنے تازہ ترین سروے میں یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے87فیصد لوگ امریکا جانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں اچانک ذہن میں ایک سوال ابھرا کہ جو پاکستانی اِس وقت امریکا میں آباد ہیں، وہ پاکستان بارے کیا سوچ رہے ہیں؟ اور ان کی اپنی ذہنی اور نفسیاتی و سماجی حالت کیا ہے؟؟
اِس وقت امریکا میں بسنے والے پاکستان نژاد امریکیوں کی تعداد 7 لاکھ بتائی جاتی ہے ۔ یہ سب لوگ کسی نہ کسی لحاظ سے پاکستانی اثاثہ ہیں ۔ ان کے بھیجے جانے والے ڈالروں سے پاکستان کی سرکاری معیشت کا پہیہ گردش میں آتا ہے۔ یہی پاکستان نژاد امریکی انکل سام کے دیس میں، دامے درمے، پاکستان بارے اپنی آوازیں بھی بلند کرتے سنائی اور دکھائی دیتے ہیں ۔
اِن لاکھوں پاکستان نژاد امریکیوں میں ہمارے ایک دوست جناب سردار نصراللہ بھی ہیں۔ آپ نیویارک میں رہائش پذیر ہیں ۔ بنیادی طور پر مزنگی لاہوری ہیں ۔ تشکیلِ پاکستان سے کئی سال قبل ان کے دادا جی،مولوی انشا اللہ، لاہور سے ایک روزنامہ (وطن) بھی شایع کرتے رہے ہیں ۔ان کے والد گرامی، سردار ظفراللہ، تحریکِ پاکستان کے سرگرم کا رکن اور قائد اعظم علیہ رحمہ کے ساتھی تھے ۔مادرِ ملت، محترمہ فاطمہ جناح ، ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے خلاف انتخابی میدان میں اتریں تو سردار ظفر اللہ صاحب مرحوم ان کے ہمقدم، ہم آواز اور ہمدوش رہے ۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے پاکستان نژاد امریکی دوست ، سردار محمد نصراللہ صاحب ، کو سیاست و صحافت کا چسکا وراثت میں ملا ہے۔ وہ امریکا اور پاکستان میں کونسل مسلم لیگ کے سربراہ بھی ہیں ۔ نیویارک میں اپنے بزنس کے ساتھ سیاست و صحافت کا چراغ بھی جلا رکھا ہے ۔ ان کی سیاست وصحافت میں مگر امریکی سیاست و سماج کے مسائل کم اور پاکستان بارے گھن گرج زیادہ سنائی دیتی ہے ۔
ایک دور میں انھوں نے امریکا میں نواز شریف و شہباز شریف کی لیگی سیاست کا جھنڈا خاصا بلند کیے رکھا تھا ۔ مگر پھر اختلافات نے انھیں شریف برادران اور نون لیگی سیاست سے دور پھینک دیا ۔ سیاست کاری مگر چونکہ ان کی گھٹی میں پڑی ہے، اس لیے وہ نون لیگ سے دور اور مہجور رہ کر بھی سیاست بازی سے باز نہیں آ سکے۔
سردار محمد نصراللہ صاحب نے کہا:44سال قبل لاہور سے نیویارک پہنچا تو خیال تھا کہ چند برس یہاں محنت مشقت کروں گا، خود کو معاشی اعتبار سے مستحکم کروں گا اور واپس وطن چلا جاوں گا۔ ساڑھے چار عشرے گزر گئے مگر واپسی کی نوبت نہیں آئی ۔ اب بھی ہر سال دل پشوری کرنے اپنے گھر لاہور جاتا ہوں ۔ کئی کئی مہینے وہاں قیام کرتا ہوں لیکن اپنی جڑوں سے مکمل طور پر جڑ نہیں سکا ۔
اِس کا مجھے شدید قلق ہے۔ اب میری امریکی اہلیہ ، امریکی بیٹا، امریکی بہو اورامریکی پوتے مجھے اپنے حصار میں لے چکے ہیں۔ میرا یہ مختصر خاندان مکمل طور پر امریکی ہے ۔ پاکستان ان کے لیے ایک وہمہ اور اجنبی ہے ۔پھر وہ گلا صاف کرتے ہوئے بولے : جب مجھے امریکی شہریت ملی تھی ، میں بے اختیار اشکبار ہو گیا تھا ۔ نجانے کیوں ؟ شاید اس لیے کہ میرے وطن کے جملہ حکمران اگر میرے وطن کی شکل و صورت قائد اعظم کے ارشادات کے مطابق سنوارنے میں کامیاب رہتے تو مجھ ایسے لاکھوں پاکستانی وطن سے نکلنے پر مجبور نہ ہوتے ۔
سردار نصراللہ صاحب کہتے ہیں: آج پاکستان کے جو دگرگوں حالات ہیں ، میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ 44سال قبل پاکستان سے نکل آیا تھا ۔ آج مجھے اور میرے خاندان کو امریکا میں جو عزت و اکرام اور تحفظ حاصل ہے، پاکستان میں ایسے اکرام و تحفظ کا بس خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے ۔ہمیں بغیر کسی تعصب و عناد امریکا میں روزگار کے مساوی مواقع میسر ہیں ۔
میں ذاتی طور پر کبھی اپنے حلقے کے کسی کانگریس مین یا سینیٹر کو نہیں ملا ۔ ملنے کی ضرورت ہی کبھی نہیں پڑی ۔ مجھے نجی طور پر امریکی حکومت ، امریکی سماج ، اپنے امریکی دوستوں کی جانب سے کبھی اسلامو فوبیا نہیں ہوا ۔ وہ مزید جوابا گویا ہوئے :مجھے امریکا کی ہر مسجد میں جانے کی مکمل آزادی حاصل ہے ۔ میرا کبھی کسی پولیس مین نے راستہ نہیں کاٹا ۔ نائن الیون کے جانسوز سانحہ کے بعد کچھ ہفتوں تک پولیس سادہ کپڑوں میں مساجد کی سیکیورٹی میں تعینات نظر آتی رہی لیکن پھر کبھی نہیں۔ تراویح اور جمعہ کی نمازوں کی ادائیگی میں یہاں کی پولیس خاص طور پر ہماری سہولت کار ثابت ہوتی ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کی بنائی گئی مساجد میں زیادہ تر ملا اور مولوی صاحبان اردو میں جمعہ کی تقاریر کرتے ہیں ۔ انگریزی میں نہیں ۔ مگر اب کہیں کہیں مسلم نوجوان بھی تربیت پاکر امریکی لہجے والی انگریزی زبان میں خطبات دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ہمارے دوست سردار نصراللہ صاحب بولے :میں پہلے نیویارک ٹائمز باقاعدہ پڑھا کرتا تھا۔ اب پڑھنا چھوڑ چکا ہوں۔ میں نے امریکا میں گزارے44برسوں کے دوران صرف ایک بار نیویارک ٹائمز کو خط لکھا۔ وہ چھپا بھی ۔ اب Foreign Affairsکا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ یو ٹیوب پر پاکستانی ٹاک شوز دیکھتا سنتا ہوں ۔ وہ ٹاک شوز مجھے زیادہ پسند ہیں جن میں پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کی تحسین و تعریف کی جاتی ہے ۔پی ٹی آئی کے حامی اینکرز بھی مجھے پسند ہیں ۔ پاکستان بارے کوئی اچھی کتاب مارکیٹ میں آئے تو اسے ترجیحا خریدتا ہوں ۔ وہ بولے :اگرچہ میرا بزنس سبھی امریکیوں کے ساتھ ہے لیکن میرے قریبی دوست پاکستانی اور بھارتی نژاد امریکی ہیں ۔ ان کے ساتھ کھل کر پنجابی اور اردو میں گفتگو کے ہر روز مواقع ملتے ہیں۔
کبھی تعصب کا احساس نہیں ہوا۔ ہمارا جینا مرنا اب امریکا کے ساتھ وفاداری میں ہے۔ پاکستان کے تمام حکمرانوں نے ہم پاکستان نژاد امریکیوں کو مایوس کیا ہے۔ پھر بھی ہماری ہر مجلس میں پاکستان کا ذکر بکثرت رہتا ہے ۔ بیک ہوم (Back Home) کا تصور اور ذکر اذکار دل و دماغ سے نہیں نکلتا۔ بانی پی ٹی آئی سے اب بھی امیدیں وابستہ ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس