یہ منحوس کھیل … تحریر : حامد میر


نحوست کیا ہوتی ہے؟ جس معاشرے میں ایک بیٹا اپنی ماں کا گلا کاٹنا نیکی سمجھ بیٹھے اس معاشرے میں نحوست کے تسلط پر کوئی شک نہیں رہنا چاہئے۔ نحوست دراصل کم بختی اور بدنصیبی کا دوسرا نام ہے ۔ کل رات میں نے اپنی ٹی وی اسکرین پر بار بار ایک بریکنگ نیوز سنی جو ہتھوڑے کی طرح میرے اعصاب پر برستی رہی ۔ کراچی میں بلال نام کے ایک شخص نے اپنی ماں،بہن، بھا بھی اور بھانجی کے گلے کاٹ دیئے ۔ بلال چند ہفتے قبل عمرہ کر کے آیا تھا اور اپنی بہن کے کردار پر شک کرتا تھا ۔شک کی بنا پر بہن اور بیٹی کا قتل ہمارے معاشرے میں عام ہے لیکن بیٹے کے ہاتھوں ماں کا قتل ناقابل یقین ہے ۔ یہ کیسا بد نصیب انسان تھا جسے اللہ تعالی نے عمرے کا موقع فراہم کیا لیکن اللہ تعالی کے گھر پر حاضری بھی اسکا دل نرم نہ کر سکی اور اس نے عمرے سے واپس آکر اپنی جنت کو خون میں نہلا دیا ۔ کیا بلال نے قرآن پاک میں یہ نہیں پڑھا تھا کہ اپنے والدین پر احسان کرو ؟ کیا اس نے ماں کی عظمت کے بارے میں احادیث نہیں سنی ہونگی ؟ یقینا بلال نے قرآن بھی پڑھا ہوگا اور ماں کی عظمت کے بارے میں احادیث بھی سنی ہونگی لیکن اسکی بری نیت سے برے عمل نے جنم لیا۔ یہ عمل اس کے پورے خاندان کی بدبختی کا باعث بنا اور معاشرے پر نحوست کے تسلط کا ثبوت بن گیا۔ یہ صرف کراچی کے ایک خاندان کی کہانی نہیں ہے ۔ جو کچھ ہمارے ارد گرد آج کل ہو رہا ہے میں نے تو پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔ کہیں بیٹا اپنے باپ کو کرائے کے قاتلوں کے ذریعہ قتل کروا رہا ہے اور کہیں بیٹی اپنے باپ کو بے وقوف بنا رہی ہے ۔ کہیں ایک بھائی دوسرے بھائی کے خلاف سازش کر رہا ہے اور کہیں بھائی اپنی بہن کا حق مار رہا ہے ۔ جھوٹ، بہتان ، منافقت اور سازش آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔دھونس اور دھاندلی ہمارا قومی مفاد بن چکاہے جب رہنما رہزن بن جائے تو پھر چور اور چوکیدار میں فرق بھی ختم ہو جاتا ہے ۔جب عدالت میں بیٹھا ہوا قاضی ضمیر فروش بن جائے تو لوگ صرف قاضی کو نہیں بلکہ حاکم وقت کو بھی بددعائیں دیتے ہیں ۔جب علما اور صحافی جابر سلطان کے کلمہ حق کہنا چھوڑ دیں تو پھر چاپلوسی سب سے بڑا میرٹ بن جاتی ہے۔ چاپلوسی اور خوشامد یس سر یس سر کے کلچر کو فروغ دیتی ہے اور یہی کچھ معاشرے کی بنیادیں ہلاتا ہے۔

کسی کو اچھا لگے یابرا ۔ سچ تو یہ ہے کہ پچھلے کئی دنوں سے اسلام آباد میں جو کچھ ہو رہا ہے اس نے پارلیمنٹ ، عدلیہ اور میڈیا سمیت پاکستان کے تمام ریاستی اداروں کی ساکھ کو مجروح کیا ہے ۔ پوری قوم 25 اور 26کے کھیل میں پھنسا دی گئی ۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے 25اکتوبر کوریٹائر ہونا ہے۔ شہباز شریف حکومت کا خیال ہے کہ قاضی فائز عیسی چلے گئیتو حکومت کمزور ہو جائے گی۔ انہوں نے حکومت کو بچانے کیلئے 25اکتوبر سے پہلے پہلے 26ویں آئینی ترمیم منظور کرانے کیلئے سردھڑ کی بازی لگادی ۔ 25اور 26کے اس منحوس کھیل میں بہت سے چہروں کے نقاب اتر گئے۔ کسی کی جمہوریت پسندی فراڈ نکلی اور کسی کی آئین پسندی ڈرامہ نکلی۔ کچھ ایسے بھی تھے جن کو میں فصلی بٹیرے اور بکاؤ مال سمجھتا تھا لیکن اس کھیل میں جسمانی تشدد کے باوجود انہوں نے اپنے ضمیرکا سودا نہیں کیا۔ 26ویں آئینی ترمیم کا ابتدائی مسودہ دیکھا تو یقین نہ آیا کہ یہ اعظم نذیر تارڑ نے تیار کیا ہوگا جن کو میں پہلی دفعہ عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ملا تھا۔ یہ مسودہ پاکستان میں ایک غیر علانیہ مارشل لا لگانے کے مترادف تھا ۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ مسلم لیگ(ن) اورپیپلز پارٹی آئینی عدالت کے نام پر بنیادی انسانی حقوق معطل کرنے پر راضی ہو گئیں۔ بھلا ہو مولانا فضل الرحمان کا جنہوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کے ابتدائی مسودے کو مسترد کردیا اور تحریک انصاف ان کی جمہوریت پسندی اور استقامت کے گیت گانے پر مجبور ہوگئی۔ مولانا فضل الرحمان نے آئینی عدالت کی جگہ آئینی بینچ کی تشکیل پر بلاول بھٹو زرداری کو راضی کر لیا ۔ آئینی بینچ پر اتفاق کا مطلب یہ تھا کہ قاضی فائز عیسی کے لئے نئی نوکری کا بندوبست نہیں ہو سکے گا ۔ مسلم لیگ (ن) نے یہ کڑوا گھونٹ تو پی لیا لیکن پھر جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنے کیلئے آئینی ترمیم کے مسودے میں تبدیلیاں کی گئیں ۔ ایک دفعہ پھر وزرا نے 26 ویں آئینی ترمیم کیلئے نمبرز پورے ہونے کا دعوی کیا اور ایک دفعہ پھر میڈیا نے ان دعوؤں کو ہیڈ لائنز بنا کر اپنی ساکھ کو خود تباہ کر دیا۔

اس دوران اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا انعقاد ہوا ۔ اس اجلاس کا انعقاد بہت بڑی کامیابی تھی لیکن صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف اپنی اس کامیابی کو بیچ میں چھوڑ کر بھاگم بھاگ لاہور پہنچے جہاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کو ایک ڈنر پر مدعو کیا تھا ۔ نواز شریف اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ مولانا صاحب راضی ہو چکے ہیں اور ڈنر کے بعد مولانا ان کے ساتھ کھڑے ہو کر 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں بیان جاری کر دیں گے ۔ ابھی ڈنر شروع نہیں ہوا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ وہاں موجود ان کے ایک ساتھی ایم این اے کو دھمکی آمیز فون کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ اگر آپ نے 26 ویں ترمیم کے حق میں ووٹ نہ دیا تو اس کے سنگین نتائج نکلیں گے۔

جب اس دھمکی سے مولانا کو آگاہ کیا تو انہوں نے اپنے مہربانوں سے کہا کہ آپ ہمیں اپنا مہمان بنا کر دھمکیاں کیوں دلوا رہے ہیں ؟ بہرحال وزیر اعظم شہباز شریف نے صورتحال کو وقتی طور پر سنبھال لیا ۔ آئینی ترمیم کی منظوری ملتوی ہوتی رہی اور اتوار کا دن آگیا ۔ اتوار کے واقعات میں کسی کے لئے کامیابی اور کسی کے لئے ناکامی ہے لیکن نحوست ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ 25 اور 26 کے اس منحوس کھیل نے بڑے بڑے سیاستدانوں اور جماعتوں کو بونا بنا دیا ہے ۔ رہنما رہنما نہ رہے ۔ جج جج نہ رہے اور صحافی صحافی نہ رہے ۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی مل کر اپنے جج کو بچانے اور تحریک انصاف کیجج کو راستے سیہٹانے میں سرگرم نظر آئیں ۔ تحریک انصاف نے بار بار لوگوں کو سڑکوں پر لاکر حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی البتہ تحریک انصاف کیاراکین قومی اسمبلی کی ایک بڑی اکثریت نے پشاور میں پناہ لیکر اپنے ضمیر کو فروخت سے بچا لیا ۔ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایسے کئی اراکین قومی اسمبلی کو جانتا ہوں جو کہتے ہیں کہ پختونوں نے انہیں اپنی پناہ میں لیکر پنجاب کے اہل ستم سے بچا کر جو احسان کیا ہے اس کے نتیجے میں پنجاب کے سیاستدان مزید بدنامی سے بچ گئے ہیں ۔ اس منحوس کھیل میں ہمارے ارباب اختیار نے ووٹ حاصل کرنے کیلئے اپنی ماوں بہنوں کی عزت کا بھی خیال نہیں کیا ۔ کسی خاتون سینیٹر کے ووٹ کے لئے اسکا خاوند اغوا کر لیا کسی کا بیٹا اغوا کر لیا ۔ یہ سب قومی مفاد کے نام پر ہوا اور قومی مفاد کے نام پر دھونس اور دھاندلی کا استعمال کرنے والے بھول گئے کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے آج نہیں تو کل جھوٹ نے سامنے تو آنا ہے -عزت اور ذلت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے ۔ جھوٹ بولنے والوں کو کبھی عزت نہیں ملتی ۔25اور 26کے منحوس کھیل میں شامل سب کردار جلد نمونہ عبرت بنیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ