جس طرح بادبانوں کی طاقت سے چلنے والے بحری جہاز ہوا سے محروم خلا یعنی ڈول ڈرم میں پھنس کر اپنی حرکت کھو بیٹھتے ہیں بالکل اسی طرح پاکستان جیسے ممالک تشکیل سرمایہ سے محرومی اور جدید ٹیکنالوجی کے فقدان کی وجہ سے پسماندگی کے خلا میں لٹکے رہتے ہیں اور دن بدن سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں میں تنزلی کا شکار رہتے ہیں سرمایہ کا حصول اور ٹیکنالوجی کی ضرورت معاشی ترقی کے انجن کا ایندھن ہیں انہی کی بدولت قومی آمدنی اور روزگار کے معیار میں اضافہ ہو تا ہے اور غربت میں کمی واقع ہوتی ہے پاکستان جیسے ممالک میں معاشی ترقی کے لیے چند بنیادی لوازمات ضروری ہیں اول انسانی اور قومی وسائل کو غیر ملکی سرمائے کے استحصال سے نجات دلائی جائے دوم انسانی، مادی اور غیر مادی ذرائع پر اجارہ داری ختم کی جائے سوم انسانی صلاحیتوں اور صنعتی وسائل کو مسابقتی بنا یا جائے چہارم دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے سے بچایا جائے
اس وقت کی کارپوریٹ ورلڈ میں صنعتی، مالیاتی اور ٹیکنالوجی کا سپر سٹرکچر بہت طاقتور ہے اور اس کے حامل ممالک کی زندگی کے ہر شعبہ حیات میں اجارہ داری قائم ہو چکی ہے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی منڈیاں انکی اشیاء و خدمات کی درآمدات سے بھری پڑی ہیں مثبت تجارتی توازن کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک اربوں ڈالرز کے فاضل ریزروز کے
مالک ہیں جبکہ پسماندہ ممالک کو مسلسل ان ممالک کے ساتھ
توازن تجارت اور توازن ادائیگیوں میں خسارے کا سامنا ہے ترقی یافتہ ممالک ان ممالک کو تیار شدہ اشیاء تو برآمد کرتے ہیں مگر ان اشیاء کو مقامی سطح پر تیار کرنے کے لیے ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے کتراتے ہیں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی آزادانہ تجارتی
معاہدوں نے بھی پسماندہ ممالک کی مقامی صنعتوں کو پھلنے پھولنے سے روک رکھا ہے ترقی یافتہ ممالک پسماندہ ممالک کی سستی افرادی قوت اور خام مال کو استعمال کر کے انہی ممالک کی منڈیوں میں کئی گنا زیادہ قیمت پر لوگوں کو فروخت کرتے ہیں اور کڑووں ڈالرز کے منافع جات اپنے ممالک میں منتقل کرتے ہیں اور اس پر مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ممالک کو سامراجی ممالک اور کارپوریشنز قرضوں کے جال میں پھنسا کر معاشی نو آبادیاتی نظام میں غلام بنائے ہوئے ہیں صنعت اور ٹیکنالوجی سے محروم ممالک کی محنت، ٹیلنٹ اور وسائل نہ صرف زبردست استحصال کا شکار ہیں بلکہ تخلیقی اور پیداوار ی صلاحیتوں سے محرومی کے سبب سامراجی استحصال سے نجات پانے سے بھی قاصر دکھائی دیتے ہیں آج کی جدید دنیا میں سامراجی سرمایہ انفرادی ملکیت کی بجائے کارپوریٹ اداروں کی ملکیت بن گیا ہے اور سٹاک مارکیٹوں کے ذریعے ملٹی نیشنل کمپنیاں حصص کی فروخت سے عوام کی دولت پر بھی تصرف قائم کر لیتی ہیں اور ان کمپنیوں کے شراکت دار بالواسطہ طور پر ان کے منافع یا نقصان میں شریک ہوتے ہیں اب ایسی طاقتور کارپوریٹ ورلڈ کی دیومالائی مالیاتی استحکام اور ٹیکنالوجی کی طاقت کا مقابلہ انفرادی طور پر کرنا ممکن نہیں ہے سوشلزم کے تحت گزشتہ صدی کے دوران سامراجی کارپوریٹ اداروں کا مقابلہ کرنے کے لیے تشکیل سرمایہ کرنے والے اداروں اور ٹیکنالوجی کو سٹیٹ کی ملکیت بنا کر عالمی کارپوریٹ سرمائے کے سامراج کو مزاحمت دی گئی تاکہ اس کے استحصالی کردار سے نجات حاصل ہو سکے مگر سامراجی کارپوریٹ ورلڈ کے سرمائے اور ٹیکنالوجی نے اس جدوجہد کو ناکام بنا دیا سویت یونین ٹوٹ گیا اور سوشلسٹ ماڈل کیمونسٹ ممالک میں ختم ہو گیا اور منڈی کی معیشت کو غلبہ حاصل ہو گیا کیوبا، وینزویلا اور چند لاطینی ممالک نے سوشلزم کے اصولوں پر معیشت کو چلانے کی کوشش جاری رکھی مگر گلوبل ورلڈ کے تقاضوں پر پورا نہ اتر سکے جین سوشلزم کے افکار کو نظریاتی طور پر اپنائے رکھے ہوئے ہے مگر معیشت کو آزادانہ طلب و رسد اور بین الاقوامی اصولوں کے تحت چلا کر خود ایک بڑا سامراجی ملک اور کارپوریٹ ورلڈ بن گیا ہے اس کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت سنگاپور، تائیوان، ویت نام، جنوبی کوریا نے بھی امریکہ اور یورپ سے تصادم کی بجائے مفاہمت کا طریقہ اپنا کر ورلڈ تجارت میں اپنا معقول حصہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے سستی اور موزوں ٹیکنالوجی کے استعمال سے کم قیمت اور معیاری اشیاء کی تیار کر کے چین اور کئی دوسرے ممالک نے امریکہ اور جاپان کی اجارہ داری کو ختم کر دیا ہے اور یہ ایک الگ بحث ہے کہ ان ممالک نے بھی ایک مختلف طرز کے سامراج کی شکل اختیار کر لی ہے جو ضرورت مند ممالک کو اپنی شرائط پر قرضے فراہم کرتے ہیں اور اپنے مفادات کے لیے ان ممالک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں
آج کی مسلم دنیا رقبے، آبادی اور وسائل کے لحاظ سے سے اسرائیل پر واضح برتری رکھتی ہے مگر جدید جنگی ٹیکنالوجی، اشیائے سرمایہ کی فراوانی کی طاقت کے بل بوتے پر اسرائیل غزہ اور لبنان میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے ایران، حزب اللہ اور حماس کے میزائل اور راکٹ آئرن ڈوم کی وجہ سے اسرائیل میں ہدف پر نہیں گرتے ہیں اور فضا ہی میں تباہ ہو جاتے ہیں آج کے زمانے میں جنگ کا میدان ہو یا معیشت کی دنیا ہو جن ممالک کے پاس سرمائے اور ٹیکنالوجی کی فراوانی ہوتی ہے وہی اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو تے ہیں شاذونادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور ویت نام اور افغانستان کو تباہ تو کر دیتی ہے مگر مطلوبہ نتائج نہیں حاصل کر پاتی ہے مگر بحٹیت مجموعی دیکھا جائے تو دنیا میں انہی ممالک نے معاشی ترقی کی منازل طے کیں ہیں جنہوں نے تباہی و بربادی کے باوجود اپنی تخلیقی محنت، سائنسی علوم اور جدید ٹیکنالوجی سے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی برتری قائم کی جاپان اور جرمنی اس کی واضح مٹالیی ہیں جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں تباہی و بربادی کے بعد بھی جدید سائنسی تحقیق و ترقی اور ٹیکنالوجی کی مدد سے معاشی استحکام حاصل کیا مارشل پلان کے تحت یورپی ممالک کو امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں نے قرضے دیئے ان ممالک نے اس ذرائع نقل و حمل اور صنعتی سٹرکچر کو بنا کر بہتر ٹیکنالوجی کی مدد سے اشیاء و خدمات تیار کیں اور نہ صرف اپنے قرضے ختم کیے بلکہ خود ڈونرز بن گئے پاکستان نے بھی انہی ممالک کی طرح امریکہ اور عالمی اداروں سے قرضے حاصل کر کے معاشی ترقی کا خواب دیکھا مگر بدقسمتی سے کئی عوامل کی وجہ سے وہ مسلسل معیشت کو بہتر شرح نمو نہ دے سکا اول ہم نے ان قرضوں کے ساتھ ڈونر ممالک سے ہی فنی ماہرین، مشینری اور ٹیکنالوجی امپورٹ کی جس سے ان قرضوں کا بڑا حصہ انہی ممالک کو واپس چلا گیا دوم جو قرضے پراجیکٹس پر لگے ان کا بڑا حصہ حکمرانوں اور بیورو کریسی کی کرپشن کی نذر ہو گیا سوم ہماری بھارت کے ساتھ جنگوں کی وجہ سے مغربی ممالک نے ہماری معاشی امداد بند کر دی
چہارم ہم انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو کر جاگیرداروں، جرنیلوں اور براؤن صاحب کے غلام بن گئے جن کے مائیڈ سیٹ ایسے تھے کہ وہ اس ملک میں صنعت سازی، جدید ٹیکنالوجی اور کاروباری جدت پسندی کے خلاف تھے جب وفاقی اداروں کو باہر کی این جی او ز نے کمپیوٹرز اور کیلکولیٹرز دیئے تو ٹاپ بیوروکریسی اس کو استعمال ہی نہیں کرتی تھی اور وزارت خزانہ کے اکثر سیکرٹری کاغذ پنسل پر جمع تفریق کرتے تھے اس ٹیکنالوجی گیپ نے ہمیں بیرونی قرضوں سے سرپلس سرمایہ تخلیق نہیں کرنے دیا جسطرح جاپان، جرمنی وغیرہ نے کیا اور ہمارے پاس کوئی ٹیکنالوجی نہ کل تھی ن آج ہے ہم قرضوں کو کل بھی ضائع کرتے تھے آج بھی ایسا ہی ہے ریکوڈک ہو بجلی کے منصوبے ہوں ہائی ویز اور موٹر ویز بنانی ہوں ہم غیر ملکی سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی اور قرض کے محتاج ہیں ہم قرضوں پر سود ادا کرنے کے لیے بھی قرضے لینے پر مجبور ہیں آج 76 سال گزرنے کے بعد بھی ہم ٹیکنالوجی کے خلا کو پر کرنے سے قاصر ہیں کمر توڑ قرضوں کے بوجھ، محنت اور ذہانت کی پسماندگی، وسائل اور پیسے کی غیر منصفانہ تقسیم،معاشی و سماجی تفاوت عدم پرداشت، دقیانوسی سوچ اور خیالات، لسانی، مذہبی اور قومیت کے تعصبات، عدالتی نا انصافیوں اور طاقت کے ناجائز استعمال نے پاکستان کو بدقسمتی کے ایسے منحوس چکر میں پھنسا دیا ہے جن سے نکلنا جوئے شیر لانے کے مترادف دکھائی دے رہا ہے
رات ڈھلتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا
Load/Hide Comments