عائلی قوانین پر قانون سازی: ماہرین کا آئی پی ایس گول میز بحث میں تہذیبی اور مذہبی تقاضوں سے ہم آہنگ قانونی اصلاحات کا مطالبہ

اسلام آباد(صباح نیوز)قوانین کا سماجی تبدیلیوں کے ساتھ تبدیل ہونا ضروری ہے، لیکن پاکستان کے منفرد سماجی تناظر سے مطابقت کے بغیر کسی غیر قانونی ماڈل کو اپنانے سے ناقص اور غیر موثر قانون سازی کے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ  نہ صرف ابہام، غیر ارادی نتائج اور جرائم کے امکانات میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے، بلکہ ایسی سماجی سوچ جو قوانین کا غلط استعمال کرنے کی طرف مائل ہو، اس مسئلے کو مزید پیچیدہ  بھی بنا  سکتی ہے۔ انصاف اور سماجی بہبود کو یقینی بنانے کے لیے قانونی صلاحات کو بہت سوچ سمجھ کر ایسے تیار کرنا ہو گا کہ وہ پاکستان کی بنیادی اسلامی اور ثقافتی اقدار پر سمجھوتہ کیے بغیر بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کر سکیں۔ اس کے ساتھ قانون سازی کے عمل میں وضاحت، عملداری اور سیاق  و سباق کے ترجیح دینی ہو گی ، جبکہ شہریوں کو بھی قانون کی پاسداری اور احترام کرنا ہو گا تاکہ ایک فعال قانونی نظام قائم کیا جا سکے۔

ان خیالات کا اظہار قانونی اور تعلیمی ماہرین نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد میں منعقدہ ‘خاندان میں حقوق کی ضمانت: قانون سازی کی تجاویز کا جائزہ’ کے موضوع پر ایک گول میز بحث کے دوران کیا۔ اجلاس میں ازدواجی اثاثوں اور دیکھ بھال سے متعلق پارلیمنٹ میں حال ہی میں مجوزہ قانون سازی بلز پر توجہ مرکوز کی گئی، جس کا آغاز بالترتیب سینیٹر سید علی ظفر اور سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے کیا۔ بحث کے شرکا میں  چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمن، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ عمران شفیق، ایڈووکیٹ اور ڈائریکٹر سینٹر فار اسلامک لا اینڈ ہیومن رائٹس سید معاذ شاہ ، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ عاصمہ مشتاق، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ اسامہ بن سلام، سابق ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ، اور اسسٹنٹ پروفیسر بحریہ یونیورسٹی، اسلام آباد تاج محمد شامل تھے۔

پاکستان میں خاندانی ڈھانچے کی بدلتی ہوء نوعیت، جو کہ زرعی سے صنعتی معیشتوں کی طرف منتقلی کی وجہ سے کارفرما ہے، نے خاندانی ذمہ داریوں کو نمایاں طور پر تبدیل کیا ہے۔ اس تبدیلی کے لیے ایسے قانونی فریم ورک کی ضرورت ہے جو ثقافتی اور مذہبی اقدار کو مدِ نظر رکھتے ہوِے عصری حقائق کے موافق اور عکاس ہوں۔ ماہرین نے تجویز کردہ ازدواجی اثاثوں کے بلوں میں قانونی تعریف کے مسائل پر تشویش کا اظہار کیا۔ پینل نے زور دیا کہ مجوزہ بل مردوں پر غیر مناسب مالی بوجھ ڈالنے کا تاثر دیتے ہیں۔ مزید برآں، ناقص طور پر تیار کردہ قانونی تجاویز خاندانی نظام کو غیر مستحکم کر سکتی ہیں، اور جائیداد کھونے کے خوف سے ممکنہ طور پر مردوں کے لیے شادی کرنے میں ہچکچاہٹ یا  طلاق دینے میں انکار کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس طرح کے غیر ارادی نتائج اور بھی پیچیدہ سماجی مسائل کو جنم دے سکتے ہیں۔

مجوزہ بلوں کی زبان میں موجود متعدد ابہامات کو اجاگر کرتے ہوئے مقررین نے متنبہ کیا کہ مبہم اصلاحات مستقبل میں قانونی تنازعات کا باعث بن سکتی ہیں۔ انہوں نے ابہام اور استحصال کو روکنے کے لیے واضح اور درست قانونی تعریفوں کی اہمیت پر زور دیا، ساتھ ہی ایک ایسے  قانون سازی کے طریقہ کار کی وکالت کی جو پاکستان کے سماجی تناظر سے موافقت پیدا کیے بغیر ازدواجی قانون کے مغربی ماڈلز سے متاثر نہ  ہو۔ اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ ناقص وضع کردہ قوانین کمزور فریق، خاص طور پر خواتین کے خلاف استحصال اور جرائم کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں، مقررین نے قانون سازوں پر زور دیا کہ وہ وسیع تر سماجی مضمرات پر بھی غور کریں۔ اگرچہ طلاق کے معاملات میں کمزور فریقوں کو درپیش مشکلات کو دور کرنے کے لیے قانونی اصلاحات ضروری ہیں، لیکن ردِ عمل کے طور پر کی جانے والی قانون سازی اگر احتیاط سے نہ کی گئی تو یہ سماجی مسائل کو مزید بڑھا سکتی ہے۔

بحث میں ان قانون سازی کی تبدیلیوں کے پیچھے وجوہات کی نشاندہی کرنے اور موجودہ عائلی قوانین میں ان خامیوں کا جائزہ لینے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا جنہوں نے اصلاحات کی ضرورت کو جنم دیا ہے۔مقررین نے قانون سازوں کو ان نظامی خامیوں کو سوچ سمجھ کر حل کرنے کی ترغیب دی، بجائے اس کے کہ وہ جلد بازی میں ایسے نئے قوانین بنائیں جو وسیع تر تناظر کو نظر انداز کر رہے ہوں۔ مجوزہ اصلاحات میں اسلامی فقہی اصولوں سے انحراف کا ایک اہم نکتہ بھی اٹھایا گیا۔ پینلسٹس نے غور کیا کہ کس طرح سنت کی مثالیں عصری قانونی فریم ورک کی رہنمائی کرسکتی ہیں کیونکہ اسلامی تعلیمات انصاف، مساوات اور خاندانی ذمہ داریوں کی تکمیل پر زور دیتی ہیں۔ جدید معاشرتی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے مجوزہ قوانین کو اسلامی اصولوں میں بنیاد بنا کر ایک زیادہ متوازن اور منصفانہ قانونی نظام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمن نے نوٹ کیا کہ خاندان اور خواتین کے حقوق کثیر جہتی مسائل ہیں، جن کی جڑیں ثقافتی، سماجی اور اقتصادی عوامل میں گہری ہیں۔ انہوں نے غیر ملکی ماڈلز کو پاکستانی معاشرے پر ان کے مخصوص اثرات پر غور کیے بغیر اپنانے سے خبردار کیا۔ رحمن نے اس بات پر زور دیا کہ شادی محض ایک قانونی تصور نہیں ہے بلکہ عملی زندگی کا ایک نمونہ ہے، جہاں اصل چیلنج  نئے قوانین کا مسودہ تیار کرنے میں نہیں ہے بلکہ ان کو صحیح طریقے سے نافذ کرنے میں ہے۔ انہوں نے خاندانوں کے اندر مفاہمت کی کوششوں پر زور دیا اور مردوں اور عورتوں کے درمیان تعلقات کے لیے متوازن، مساوات پر مبنی ایسے نقطہ نظر کی وکالت کی جس میں انہیں ایک دوسرے کا حریف سمجھنے کے بجائے ان کے تکمیلی کردار وں پر زور دیا جائے۔۔