یونیورسٹیوں کے مستقل وائس چانسلرز کی تقرری کیس ، ریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آبادڈاکٹر ثمینہ یاسمین ملک وہیل چیئر پر عدالت میں پیش

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے یونیورسٹیوں کے مستقل وائس چانسلرز کی تقرری کے کیس میں طلب کرنے پر ریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آبادڈاکٹر ثمینہ یاسمین ملک وہیل چیئر پر عدالت میں پیش ہوگئیں۔ جبکہ عدالت نے ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک کا معاملہ وفاقی حکومت پر چھوڑتے ہوئے قراردیا کہ وفاقی حکومت فیصلہ کرے کہ ثمینہ ملک کو ریکٹر کے عہدے پر رکھنا ہے یا نہیں۔جبکہ عدالت نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے نائب صدر محمد سرور کی تقرری غیر قانونی قرار دے دی ۔جبکہ دوران سماعت وفاقی سیکرٹری تعلیم محی الدین احمد وانی نے اسلامی یونیورسٹی کا آڈیٹر جنرل کے زریعے آڈٹ کرانے کی یقین دہانی کروادی۔

جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سب سے آسان کام چیف جسٹس کو گالیاں دینا ہے،میں نے صرف ایک سوموٹو نوٹس لیا تھا وہ بھی کسی کے کہنے پر لیا تھا،کیا ہم پھر توہین عدالت کا نوٹس لے کر جیل بھیجنا شروع کر دیں؟ پورے پاکستان میں ایک ہی خاتون ملی ہے جو ہر وقت بیمار رہتی ہے؟ لوگوں کو میڈیا پر ہائر کرکے گالم کلوچ شروع کر دی جائے گی، باہر کے ممالک بھی اسلامک یونیورسٹی کے ٹرسٹیز ہیں،اگر ریکٹر بیمار ہیں کام نہیں کر سکتیں تو عہدہ چھوڑ دیں۔سرکاری شعبہ کی یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز اوردیگر اہم عہدوں پر تعیناتیوں کے معاملہ پر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3رکنی بینچ نے روزآئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت آل پبلک یونیورسٹیز پی بی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن (اپوبٹا)کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست میں وفاق پاکستان اوردیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔ دوران سماعت وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس جبکہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر ضیاء القیوم، سیکرٹری تعلیم محی الدین احمد وانی، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق اوردیگر حکام پیش ہوئے۔

چیف جسٹس کادوران سماعت کہنا تھا کہ ایک یونیورسٹی نے تو ہمارے اوپر انگلی اٹھادی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ انٹرنیشنل اسلام یونیورسٹی اسلام آباد کے وکیل کدھر ہیں۔ اس پر یونیورسٹی کے وکیل ریحان الدین گولڑہ روسٹرم پر آگئے۔چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے توہین آمیز درخواست دائر کی ہے ہم پاکستان بار کونسل کو لکھ رہے ہیں کہ آپ کالائسنس معطل کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ فوری طور پر یونیورسٹی ریکٹر کوبلائیں۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ ریکٹر ثمینہ ملک خرابی صحت کے سبب نہیں آئیں،ان کو کمر کی تکلیف ہے، ہم نے درخواست کیساتھ میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی لگایا ہے۔وکیل کاکہنا تھا کہ میں کیس کے حساب سے فیس لیتا ہوں اس کیس کی ایک لاکھ 10ہزارفیس لی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ توہین آمیز درخواست دائر کی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست پر کس نے دستخط کئے ہیں۔ اس پروکیل کاکہنا تھا کہ ریکٹر ثمینہ یاسمین نے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ کبھی ریکٹر اپنا نام ثمینہ یاسمین اورکبھی ثمینہ ملک لکھتی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست میں ثمینہ ملک لکھا ہے جبکہ میڈیکل سرٹیفکیٹ میں ثمینہ یاسمین لکھا ہوا ہے،بوگس میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کیا گیا ہے،ریکٹر کو بلا لیں اگر سپریم کورٹ سے ایمبولینس کی ضرورت ہے تو بھی فراہم کی جائے گی اوراگروہیل چیئر کی ضرورت ہو تووہ بھی دے دیں گے۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ریکٹر کوبلائیں اگر نہیں آئیں گی توانہیں توہین عدالت کانوٹس دیں گے۔

چیف جسٹس کاکہناتھاکہ غلط میڈیکل سرٹیفیکیٹ دے رہے ہیں۔ نماز جمعہ کے وقفے کے بعدریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک وہیل چیئر پر سپریم کورٹ میں پیش ہوگئیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس اور وکیل اسلامک یونیورسٹی ریحان الدین گولڑہ کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔وکیل کاکہنا تھا کہ آپ نے الزام لگایا تھا کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ جعلی ہے،ڈاکٹر ثمینہ کی حالت دیکھ لیں میڈیکل سرٹیفکیٹ کیسے جعلی ہے؟ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ اور دوسری دستاویز میں نام مختلف ہونگے تو شک ہی ہوگا،ایچ ای سی کہتا ہے ثمینہ ملک کو جب بھی میٹنگ کا کہیں بیماری کا بہانہ بنا لیتی ہیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ صرف ایک میٹنگ میں شرکت نہیں کی، دیگر میں آن لائن شرکت کی تھی۔اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا ایچ ای سی کا دفتر کسی دوسرے شہر میں ہے جو آن لائن شرکت کرتی تھیں؟ یونیورسٹی میں کتنی اسامیاں خالی ہیں اس کا جواب دیں۔اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ آپ نے یونیورسٹی بورڈ اجلاس میں بطور رکن بھی یہ سوال پوچھا تھا،وہاں بھی جواب دیا تھا آج عدالت میں بھی وہی جواب دے دیتا ہوں۔ چیف جسٹس کاوکیل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم خاموش ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بدتمیزی کریں۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود سیکورٹی اہلکاروں کو ہدایت کی کہ وکیل ریحان الدین گولڑہ کو روسٹم سے ہٹایا جائے۔

چیف جسٹس کی ہدایت پر سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے وکیل ریحان گولڑہ کو روسٹم سے ہٹا دیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ڈاکٹر ثمینہ ملک میڈیا نمائندوں کے قریب کیا کر رہی ہیں انہیںروسٹرم پر بلائیں۔ چیف جسٹس کاثمینہ ملک کومخاطب کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ اجلاسوں میں شرکت کیوں نہیں کرتیں۔اس پر ثمینہ ملک کا کہنا تھا کہ میں دوائی کے اثر میں ہوں کچھ وقت دیں سوالات کے جواب دیدوں گی۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ آپ نے ڈرامہ کرنا ہے تو یہاں سے چلی جائیں۔ چیف جسٹس نے ثمینہ ملک کو کمرہ عدالت سے جانے کی ہدایت کر دی۔یونیورسٹی کے وکیل نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ آپ نے بطور بورڈ رکن اجلاس میں یہ سارے سوالات پوچھے تھے،آپ بورڈ کے رکن بھی ہیں اس لئے مناسب ہوگا یہ کیس نہ سنیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کاکہنا تھا کہ قانون کے مطابق چیف جسٹس یا اس کا نمائندہ کئی جامعات کے بورڈ کا رکن ہوتا ہے، جب معلومات نہ دینی ہوں تو اعتراض کر دیا جاتا ہے، میرے کسی اہلخانہ کی ڈگری کا کوئی مسئلہ ہوتا تو اعتراض بجا ہوتا، آپ نے کرائے کے جو لوگ رکھے ہیں پراپگنڈہ کے لئے اس کو بھی دیکھیں گے آج۔

جبکہ ثمینہ ملک کے کمرہ عدالت سے روانگی کیساتھ صحافیوں کے کمرہ عدالت سے باہر جانے پر چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ تین چار کرائے کے صحافی جا کر گالیاں دینا شروع کر دیں گے، گالم کلوچ کرو تو سب ٹھیک ہے، سب سے آسان کام چیف جسٹس کو گالیاں دینا ہے،میں نے صرف ایک سوموٹو نوٹس لیا تھا وہ بھی کسی کے کہنے پر لیا تھا،کیا ہم پھر توہین عدالت کا نوٹس لے کر جیل بھیجنا شروع کر دیں؟ پورے پاکستان میں ایک ہی خاتون ملی ہے جو ہر وقت بیمار رہتی ہے؟ لوگوں کو میڈیا پر ہائر کرکے گالم کلوچ شروع کر دی جائے گی، باہر کے ممالک بھی اسلامک یونیورسٹی کے ٹرسٹیز ہیں،اگر ریکٹر بیمار ہیں کام نہیں کر سکتیں تو عہدہ چھوڑ دیں۔جبکہ دوران سماعت ہائر ایجوکیشن کمیشن حکام نے بتایا کہ اسلامی یونیورسٹی کو وفاقی حکومت سب سے زیادہ گرانٹ دیتی ہے ،انٹرنیشنل سلامک یونیورسٹی کو سالانہ 2 ارب10کروڑ روپے سے زائد گرانٹ دی جاتی ہے،سعودی عرب اور کویت سے 60کروڑ روپے کی گرانٹ آتی ہے ،اسلامی یونیورسٹی کا مجموعی خسارہ 4ارب 17کروڑ روپے ہے
جبکہ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس نے بتایا کہ نائب صدر اسلامی یونیورسٹی محمد سرور کو بورڈ آف گورنر کی منظوری کے بغیر غیر قانونی تعینات کیا گیا۔چیف جسٹس نے ڈائریکٹر ایچ آر اسلامی یونیورسٹی عتیق الرحمان سے سوال کیا کہ محمد سرور کو کیسے تعینات کیا گیا۔اس پر ڈائریکٹر ایچ آر اسلامی یونیورسٹی عتیق الرحمان سے کاکہنا تھا کہ محمد سرور نے کہامجھے نائب صدر یونیورسٹی تعینات کر دیں، محمد سرور کو کنٹریکٹ پر دوسال پروفیسر تعینات کیا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے یونیورسٹی کے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے نائب صدر محمد سرور کی تقرری غیر قانونی قرار دے دی ۔وفاقی سیکرٹری تعلیم غلام محی الدین وانی نے اسلامی یونیورسٹی کا آڈیٹر جنرل کے زریعے آڈٹ کرانے کی یقین دہانی کروادی۔ عدالت نے ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک کا معاملہ وفاقی حکومت پر چھوڑتے ہوئے قراردیا کہ وفاقی حکومت فیصلہ کرے کہ ثمینہ ملک کو ریکٹر کے عہدے پر رکھنا ہے یا نہیں۔ عدالت عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دی۔