زیڈ موڑ ٹنل سے بھارت کا لداخ اور سیاچن تک رسائی کا منصوبہ

نئی دہلی (صباح نیوز)بھارت چین سے کشیدگی کے پیش نظرجموں و کشمیر، ہماچل پردیش اور اروناچل پردیش میں چین کے ساتھ لگنے والی سرحدوں پر سرنگوں اور سڑکوں کی تعمیر کے بڑے بڑے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔  اسی طرح کا منصوبہ  زیڈ موڑ ٹنل لداخ  سیاچن کے لیے بھی بہت اہم ہے۔سری نگر کو لداخ سے ملانے والا زیڈ موڑ ٹنل منصوبہ ڈھائی ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے 9 سال میں  مکمل ہوگیا ہے  بھارتی وزیر اعظم  نریندر مودی  اتوار کو مقبوضہ کشمیر کے  گاندربل میں لداخ ہائی وے پر بنائی جانے والی ایک سرنگ کا افتتاح کرنے والے ہیں۔

بی بی سی رپورٹ کے مطابق  اس سرنگ کے بارے میں وزیراعلی عمر عبداللہ نے کہا کہ اس سے لداخ اور کشمیر کے درمیان پورے سال آمدورفت بحال رہے گی جس سے سیاحت کو فروغ ملے گا۔لیکن ماہرین اس ٹنل کو انڈیا اور چین کے درمیان تناو اور چینی سرحد تک انڈین افواج کی فوری رسائی کے حوالے سے ایک اہم ترین دفاعی پروجیکٹ قرار دے رہے ہیں۔واضح رہے کہ لداخ ہائی وے پر سونہ مرگ کا علاقہ ایک مشہور سیاحتی مقام ہے لیکن سرینگر سے سونہ مرگ تک کا راستہ برف باری کی وجہ سے اکثر سردیوں میں بند رہتا تھا۔

زیڈ موڈ نامی مقام پر ساڑھے چھ کلومیٹر طویل اس ٹنل کی وجہ سے اب یہ ہائی وے پورا سال ٹریفک کے لیے کھلی رہے گی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر سے لداخ جانے کا واحد یہی زمینی راستہ ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ انڈیا جموں و کشمیر، ہماچل پردیش اور اروناچل پردیش میں چین کے ساتھ لگنے والی سرحدوں پر سرنگوں اور سڑکوں کی تعمیر کے بڑے بڑے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔

سابق انڈین سفیر اور چینی امور کے ماہر پھنچوک ستوبدن نے نئی دہلی سے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ سرحدی علاقوں تک سڑک اور ریل رابطے بنانے کے منصوبوں پر چین نے پچاس سال پہلے کام شروع کیا تھا۔ ہمارے یہاں اس  جانب صرف بیس سال پہلے توجہ دی گئی۔ زیڈ موڑ ٹنل صرف لداخ میں چینی سرحد کے  لیے نہیں بلکہ سیاچن کے لیے بھی بہت اہم ہے۔انڈین فوج کے ایک سابق افسر نے نام ظاہر نہ کرنے  کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس طرح کے منصوبے سٹرٹیجِک ہوتے ہیں جن پر دشمن ملکوں کی نظر ہوتی ہے۔ یہ کام صرف ٹنل بنانے تک محدود نہیں ہوتا، ان سرنگوں یا ریلوے لائنز کو محفوظ کرنا بھی بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے لیکن حکومت اس بارے میں مناسب حکمت عملی اپنا رہی ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے گذشتہ برس اکتوبر میں زیڈ موڑ ٹنل پر کام کرنے والے مزدوروں اور انجینئیرز کے کیمپ پر مسلح حملہ ہوا تھا جس میں سات کارکن مارے گئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ٹنل کی افتتاحی تقریب کے لیے وزیراعظم مودی کی آمد سے قبل اس سڑک کو تین روز تک عام ٹریفک کے لیے بند کیا جائے گا اور دیگر سکیورٹی انتظامات کے ساتھ ساتھ آس پاس کی چوٹیوں پر کمانڈو دستے بھی تعینات کیے گئے ہیں۔اس ٹنل کو بنانے والی کمپنی ایپکو انفراٹیک سے وابستہ ایک افسر نے بتایا کہ صرف زیڈ موڑ ٹنل سے لداخ تک مکمل رسائی ممکن نہیں اور یہی وجہ ہے برسوں سے زیڈ موڈ سے آگے بھی زوجیلا کے قریب ایک اور ٹنل پر کام چل رہا ہے۔۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن دوسرے مرحلہ پر کام مکمل ہو جائے تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرینگر سے لداخ ایک آل ویدر (سال بھر) سڑک بن گئی ہے۔کیا کشمیر میں سرنگوں کی تعمیر میں تیزی لداخ کی پنگونگ جھیل پر چین کے رابطہ پل تعمیر کرنے کے جواب میں ہوئی؟اس کے جواب میں پھنچوک ستوبدن کہتے ہیں کہ یہ ٹنل سٹریٹجک ضرور ہے، افواج کی نقل و حمل میں آسانی ہو گی لیکن جو کچھ سرحد پر متنازع علاقوں میں چین کر رہا ہے، اس کا جواب ہماچل پردیش میں تیار ہے، جہاں سے لداخ پہنچنے کے راستے پر کام تقریبا مکمل ہوچکا۔واضح رہے کہ تین سال قبل جب پینگونگ جھیل پر چین کے پل تعمیر کرنے کی خبریں عام ہوئیں تو صرف ایک سال بعد وزیراعظم مودی نے لداخ کا دورہ کیا اور سطح سمندر سے 15800 فٹ کی بلندی پر ایک ٹنل کا سنگ بنیاد رکھا۔

شِنکن لا پاس پر نیوما پدم دارچا روڑ پر بننے والی اس سرنگ پر انڈیا 17 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔سرنگوں اور ریلوے لائنز کی دفاعی اہمیت اپنی جگہ لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ ان منصوبوں سے کشمیر میں معاشی ترقی بھی ممکن ہے۔معاشی امور کے ماہر اعجاز ایوب کہتے ہیں پوری دنیا میں سرحدی علاقوں کے قریب سرنگوں اور ریلوے لائنز کا بنیادی مقصد تو دفاعی ہوتا ہے لیکن ان سے ایک ہی خطے میں پہاڑوں اور خراب موسم کی وجہ سے ایک دوسرے سے کٹے علاقوں کے درمیان رابطہ بحال ہوجاتا ہے۔

اعجاز ایوب کہتے ہیں کہ رابطوں کی بحالی سے سیاحت اور تجارت دونوں میں  ترقی ہوتی ہے۔ جب سے کشمیر اور دوسرے علاقوں میں سرنگیں بننا شروع ہو گئیں ہیں وہاں زمینوں  کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ لداخ میں تجارت کرنے والے کئی کشمیری لداخ ہائی وے پر  سرمایہ کاری کر رہے ہیں کیونکہ سرنگوں کا یہ منصوبہ جب مکمل ہو جائے گا تو لداخ، گریز، کشتواڑ جیسے دور دراز خطے سرینگر کے ساتھ جڑ جائیں گے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ کشمیر میں اور پاکستان اور چین کے ساتھ سرحدوں پر اگر امن جاری رہا تو کشمیر کی معاشی صورتحال میں بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔