اہل علم اور خواتین : تحریر تنویر قیصر شاہد


عجب اتفاق ہے کہ جولائی 2024کے پہلے ہفتے میں ایران اور برطانیہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات بیک وقت ہوئے ہیں ۔دونوں کے انتخابات کا نتیجہ بھی آ چکا ہے ۔ ایران میں اصلاح پسند نئے صدر، ڈاکٹر مسعود پزشکیان،منتخب ہو چکے ہیں ۔ اور برطانیہ میں لیبر پارٹی کے امیدوار، بیرسٹر سر کیئراسٹارمر، بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر نئے وزیر اعظم بن چکے ہیں ۔ نومنتخب برطانوی وزیر اعظم ، کیئر اسٹارمر، 10ڈاوننگ اسٹریٹ پہنچ کر اپنی نئی کابینہ بھی تشکیل دے چکے ہیں ۔

ڈاکٹر مسعود پزشکیان اور کیئر اسٹارمر کے حریفوں نے شکست کے بعد جس کھلے دل سے فتح یاب امیدواروں کو مبارکباد دی ہے اور ان کے ساتھ مل کر چلنے کے جو عہد کیے ہیں ، ہماری تو حسرت ہی ہے کہ کاش ہمارے ہاں بھی ایسی شاندار مثال سامنے آتی ۔ نئے ایرانی صدر اور نئے برطانوی وزیر اعظم نے انتخابی کامیابی کے بعد جس مستحسن اسلوب میں اپنے عوام سے وعدے کیے ہیں ، بد قسمتی سے یہ لہجہ بھی ہمارے ہاں کامیاب صدور اور کامیاب وزرائے اعظم میں مفقود ہے ۔

ہمارے میڈیا میں بھی مگر ایرانی صدر اور برطانوی وزیر اعظم کے انتخابات پر تفصیلی گفتگو دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو کم کم ملی ہے۔ دراصل اِس موضوع پر بات چیت کرکے ہم خود کو نادم بھی نہیں کرنا چاہتے کہ ہمارے پاس فخر و انبساط کی کوئی مثال رہی ہی نہیں۔ اس لیے آج مجھے پروفیسر وارث میر مرحوم شدت سے یاد آ رہے ہیں جنھوں نے وطنِ عزیز میں ہمیشہ جمہوری روایات اور آزادیِ اظہار کا پرچم بلند کیے رکھا ۔ 37 برس قبل آج ہی کے گرم مہینے کی 9 تاریخ کو وہ ہم سے بچھڑ گئے تھے ۔

آج تو دل کئی حوالوں سے اداس ہے ۔ کئی خیال رہ رہ کر دل میں آتے ہیں کہ آج وہ زندہ ہوتے تو وہ جمہوری اور آزادیِ اظہار کی اقدار اوراصولوں پر بہادری اور دلاوری کے ساتھ لکھتے۔ پروفیسر وارث میر کی جملہ تحریریں ، جو تین جلدوں میں محفوظ کر دی گئی ہیں، آج بھی زندہ ہیں ۔ یہ تحریریں ہمیں جراتِ اظہار کا سلیقہ اور طریقہ بتاتی ہیں ۔

ہم معروف اخبار نویس اور کئی وقیع انگریزی کتابوں کے مصنف، عامر میر صاحب نے اپنے والدِ گرامی کی سبھی تحریروں کو (وارث میر کا فکری اثاثہکے زیر عنوان)مرتب کر دیا ہے۔ صحافت اور سیاست کے سنجیدہ طالب علموں کے لیے یہ مجموعہ ہمیشہ بیش بہا خزانہ اور اثاثہ ثابت ہوتا رہے گا۔ پروفیسر وارث میر مرحوم مگر آج مجھے ایک اور حوالے سے بھی یاد آ رہے ہیں : وہ ہے خواتین کے حقوق کا معاملہ۔چند دن پہلے ایک نجی ٹی وی کے ٹاک شو پر ایک خود ساختہ اسکالر اور موٹیویشنل اسپیکر قطعیت کے ساتھ ارشاد فرمایا : پاکستان کی 95 فیصد خواتین جاہل ہیں۔اس ایک جملے سے موصوف کا مائنڈ سیٹ عیاں ہو جاتا ہے۔

اِس واقعہ کو گزرے تقریبا ایک ہفتہ گزر چکا ہے ۔ ہم مگر دیکھتے ہیں کہ اِس پر ہمارے مین اسٹریم میڈیا میں کوئی متبادل آواز نہیں اٹھی ۔ البتہ سوشل میڈیا پر سوال کنندہ خاتون کی حمائت میں کئی آوازیں اٹھی اور سنائی دی گئی ہیں۔ یہ مگر کافی نہیں ہیں ۔ اِس خاموشی کا مطلب یہ ہے کہ مزید لوگوں کو خواتین کی توہین کی شہ دی جائے ۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اِس واقعہ کے بعد ایک صاحب پاکستان میں خواتین اور بچیوں کو اسکول ،کالج اور یونیورسٹی بھیجنے کے خلاف انتہائی قابلِ گرفت اسلوب اور معیوبانہ انداز میں لہک لہک کر پڑھتے سنائی دے رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ان کا یہ قابلِ اعتراض انداز وائرل ہوا ہے تو وزیر اعلی پنجاب ، محترمہ مریم نواز شریف، نے بھی اپنی ایک گفتگو میں اِس صاحب اور واقعہ کا ذکر کیا ہے ۔ مگر بین السطور اور ڈھکے چھپے انداز میں۔ جب حکمران ہی ایسے افراد کے بارے میں پسپائی اختیار کرتے نظر آئیں تو پھر عام آدمی احتجاج کی جرات کرے تو کیونکر ؟

یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں جراتِ اظہار کے پیکر پروفیسر وارث میر شدت سے یاد آ رہے ہیں ۔ بجا طور پر راقم یہ سوچتا ہے کہ اگر آج وارث میر زندہ ہوتے تو وہ پاکستان کی 95 فیصد خواتین کو جاہل قرار دینے والوں کی خبر لیتے ۔ وہ یقینا دلائل و براہین اور مستند حوالہ جات کے ساتھ اِس دعوے کا مسکت رد کرتے ۔ لیکن آج ہم کہاں سے لائیں پروفیسر وارث میر اور عاصمہ جہانگیر کو؟؟ پروفیسر وارث میر مرحوم کی حیات کے دوران بھی جب کبھی خواتین کو جاہل اور Be Little ثابت کرنے کی کوشش اور جسارت کی گئی تو وارث میر کا احتسابی قلم فورا حرکت میں آیا ۔ انھوں نے قسط وار کئی کالمز لکھے ۔ ثبوت کے لیے آج بھی اگر ہم ان کی معرکہ خیز کتاب کیا عورت آدھی ہے ؟پڑھیں تو کانوں اور آنکھوں پر پڑے پردے اٹھ جاتے ہیں ۔ یہ کتاب ان لوگوں کا رد کرنے کے لیے کافی ہے جو 95فیصد پاکستانی خواتین کو جاہل قرار دینے کی سرِ عام جسارت کرتے سنائی دے رہے ہیں۔ آج اِس ضمن میں ایک سناٹا سا ہے۔ افسوس آج غالب غزل سرا نہ ہوا ۔

پاکستانی خواتین کو95 فیصد جاہل قرار دینے والے یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے راستے میں کانٹے بکھیرے ۔ یہی ہیں وہ لوگ جنھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے عالمِ اسلام کی پہلی منتخب وزیر اعظم بننے پر ان کے خلاف فتوے جاری کیے تھے ۔ یہی ہیں وہ لوگ جنھیں محترمہ مریم نواز شریف پنجاب کی پہلی منتخب خاتون وزیراعلی ہضم نہیں ہو رہیں ۔ یہی ہیں وہ لوگ جو محترمہ عالیہ نیلم کو پنجاب ہائیکورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس بننے پر حیران و پریشان ہیں ۔وقت کے طاقتور دھارے کے آگے مگر یہ سب لوگ ناکام و نامراد ہیں ۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس