قبضہ میئر مون سون کے پیش نظر فوری طور پر نالوں کی صفائی و ستھرائی کے نظام کو تیز کریں ، منعم ظفر خان


کراچی(صباح نیوز) امیرجماعت اسلامی کراچی منعم ظفرخان نے کہا ہے کہ قبضہ میئر مرتضیٰ وہاب مون سون بارشوں کے پیش نظر فوری طور پر نالوں کی صفائی و ستھرائی کے نظام کو تیز کریں ، شہر میں اس وقت اربن فلڈنگ کا خطرہ ہے ،نالوں کی صفائی و ستھرائی کے لیے 670ملین روپے کا بجٹ رکھا گیا جسے کم کر کے 260ملین روپے کردیا اور المیہ یہ ہے کہ نالوں کی صفائی کا کام مئی کے مہینے میں مکمل کرنا تھا جسے کے ایم سی نے ابھی تک نہیں کیا۔جماعت اسلامی کے ٹاؤن چیئرمین اپنی مدد آپ کے نالوں کی صفائی و ستھرائی کے انتظامات کررہے ہیں ،واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا منصوبہ ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ اورسندھ گورنمنٹ کے تعاون سے  2019سے شروع ہوکر 2031تک مکمل ہونا تھا جس کے لیے 1.6بلین ڈالر روپے مختص کیے گئے تھے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کامنصوبہ 4مراحل میں مکمل ہونا تھا ،پہلے مرحلے کے لیے 100ملین ڈالر مختص کیے گئے تھے آج 5سال گزرگئے لیکن ابھی تک منصوبہ نظر ہی نہیں آرہا،منصوبہ کے تحت پانی کی بوسیدہ لائنوں کو تبدیل کرنا تھا جو پانچ سال میں مکمل نہیں کیا گیا ،کے الیکٹرک شہریوں کے لیے قاتل الیکٹرک بنی ہوئی ہے ،ہمارا واضح اور دوٹوک مطالبہ ہے کہ کے الیکٹرک لا ئسنس منسوخ کر کے اس کا فارنزک آڈٹ کیا جائے ، شہریوں کو نیشنل گرڈ سے سستی بجلی مہیا کی جائے اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے ۔بجلی اور پانی کی عدم فراہمی کے خلاف آج 8جولائی کو اسلام چوک شاہراہ اورنگی میں دھرنا دیا جائے گا ، جس میں بچے ، بوڑھے ، جوان ، مرد و خواتین بڑی تعداد میں شریک ہوں گے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ادارہ نورحق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر نائب امیرجماعت اسلامی کراچی سیف الدین ایڈوکیٹ،ڈپٹی پارلیمانی لیڈرسٹی کونسل کراچی قاضی صدرالدین،سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری اورڈپٹی سکریٹری جماعت اسلامی کراچی وکنٹونمنٹ بورڈ کے کونسلر ابن الحسن ہاشمی بھی موجود تھے ۔منعم ظفر خان نے مزیدکہاکہ بلدیاتی انتخابات میں کراچی کے شہریوں نے سب سے زیادہ ووٹ اور نشستیں جماعت اسلامی کو دیں ، اس کے باوجود پیپلزپارٹی کے مرتضیٰ وہاب کو زبردست میئر بنایا گیا ،مسائل کے حل کے لیے قبضہ میئر شہر کی اسٹیک ہولڈرز پارٹیوں اور اپوزیشن پارٹی سے مشورہ لیناگوارہ نہیں کرتے اور من مانے فیصلے کرتے ہیں ،قاتل الیکٹرک کو فائدہ پہنچانے کے لیے میونسپل یوٹیلیٹی چارجز بجلی کے بلوں میں شامل کردیے ۔قبضہ میئر مخصوص مائنڈ سیٹ کے تحت سارے اختیارات پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے کو اختیارات دینے کے بعد پی ایف سی میں ڈسٹرکٹ سطح پر اختیارات اور وسائل کی تقسیم کی جاتی جس سے کام ہوتے ہیں ، المیہ یہ ہے کہ محض کاغذپرمنصوبے بنتے ہیں لیکن کارکردگی عملا کچھ نہیں نظر آتی ، پیپلزپارٹی 15سال سے سندھ پر حکومت کررہی ہے جس میں ایم کیوایم ہر دور میں وفاق کا حصہ رہی ہے ،اس کے بعد 2008سے 2014تک صوبائی حکومت میں شریک اقتدار رہی لیکن کسی بھی پارٹی نے کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا ۔انہوں نے کہاکہ  شدید گرمی و حبس کے موسم میں بھی روزانہ 18گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے ، ایدھی فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 1500سے زائد شہری گرمی کے باعث چند دن میں ہلاک ہوئے ہیں ،جب کہ ہزاروں شہری اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، حکومت و ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو ریلیف دی جائے لیکن ریلیف دینے کے بجائے ہر روز بجلی کے یونٹ کی قیمتوںمیں اضافہ ہورہا ہے اور شہریوں کو بھاری بلز بھیجے جارہے ہیں ۔منعم ظفر خان نے مزیدکہاکہ وفاقی وصوبائی بجٹ کے بعد پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم ایک دوسرے خلاف بیان بازی کر کے نورا کشتی کررہی ہیں، ایک جانب مختلف وزارتوں اورا سپیشل اسسٹنٹ کی تعداد بڑھا کر 24سے 34کردی ہے ،پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم وفاقی حکومت کا حصہ ہے ، وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار لوگوں کو ٹیکسز لگاکر کمر توڑ دی گئی ،تنخواہ دار طبقہ نے 324ارب روپے اور جاگیردار اور وڈیروں نے صرف4ار ب روپے ٹیکس کی مد میں جمع کروائے ہیں ،اس کے باوجود ٹیکسز کی مد میں تنخواہ دار طبقے پر سارا کا سارا بوجھ ڈال دیا گیا ہے ،ہزاروں ایکٹر اراضی رکھنے والے جاگیردار اور وڈیرے ایک جانب عوام کا خون کررہے ہیں دوسری جانب بجلی کے بھاری بلوں میں ٹیکسز لگاکر عوام پر بوجھ ڈال رہے ہیں ،اخباری اطلاعات کے مطابق 51فیصد بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کردیا گیا ہے جس میں سارا کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے ،اس سارے عمل میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ،پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے صوبے کے بجٹ میں سے بلدیات کے لیے صرف اور صرف 2.5فیصد حصہ رکھا ہے ،جب کہ پنجاب نے اپنے بلدیات کے لیے 50فیصد حصہ رکھاہے ،اٹھارہویں ترمیم کے بعد تمام اختیارات صوبے میں منتقل تو ہوگئے لیکن پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 140-Aکے تحت اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں کیے ،اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے کے بجٹ میں 800سے زائد کا اضافہ ہوا لیکن کراچی کے لیے صرف 3فیصد اضافہ کیا گیا۔#