پاکستان کے محکوموں اور مجبوروں کیلئے خوشخبری کہ ایک تنظیم نے دنیا کا سب سے بڑا مردہ خانہ تعمیر کرلیا ہے۔
بے حد سخت جاں ہیں۔ واہگہ سے گوادر تک پنجاب، جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر کے کروڑوں باپ، مائیں،بہنیں، بھائی،بچے کہ ایسے مشکل مالی حالات، مہنگائی اور نفسا نفسی میں زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں، اف تک نہیں کررہے۔ گھر چلانے کیلئے کئی کئی نوکریاں کررہے ہیں۔ آرزوؤں کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ خواہشوں کو خودکشی پر مجبور کررہے ہیں۔ ملک میں کوئی قانون نہیں ہے، کوئی داد رسی نہیں ہے، غیر قانونی، غیر آئینی اقدامات ہورہے ہوں تو کسی متعلقہ ادارے میں کسی شکایت کے اندراج کا معمول نہیں ہے۔ اتنی استقامت، صبر، تحمل اور اللہ تعالیٰ پر توکل شاید ہی کسی اور قوم میں ہو۔
سخت بے حس اور مفاد پرست ہیں واہگہ سے گوادر تک پنجاب،جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر کے مٹھی بھر وزراء، ارکان سینیٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی، جاگیردار، وڈیرے، اعلیٰ سرکاری افسر اور اینکر پرسن جو اپنے 24کروڑ ہم وطنوں کی بے بسی اور انتہائی دُشوار زندگی دیکھنے کے باوجود اپنے غیر ضروری اخراجات کم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ وہ چند ہزار افسر جنہیں سرکاری رہائش گاہیں، گاڑیاں،بجلی، گیس،سفر خرچ ملا ہوا ہے۔ جو ملکی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہے، ان کے یہ اخراجات پورے کرنے کیلئے پہلے سے ٹیکس زدہ تنخواہ داروں پر مزید ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔ اربوں روپے انہی مجبوروں سے وصول کیے جارہے ہیں۔ جن کی تنخواہ ہزاروں میں ہے ان سے کروڑوں روپے چند ہزار افسروں، ایم این اے،ایم پی اے، ججوں کی مراعات جاری رکھنے کیلئے اینٹھے جارہے ہیں۔
یہ دونوں انتہائیں۔ ایک غربت اور مشکل جیون کی اور دوسری امارت اور عیش بھرے جیون کی۔ اس طبقاتی تضاد اور فرق نے کمیونزم کو جنم دیا تھا۔ ایک سسٹم کی جگہ دوسرا سسٹم لایا گیا ،ایسا نہ ہوتا تو بے بہرہ، بہرہ وروں پر چڑھ دوڑتے ۔
آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں،بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور دنیا بھر کی باتیں کرنے کا دن۔ عصر کے بعد اپنے محلے داروں سے ملنے ملانے۔ ایک دوسرے کے حالات جاننے اور مل جل کر زمانے کے جبر اور قہر کا مقابلہ کرنے کیلئے سوچنے اور کچھ کرنے کا دن۔ جب طبقات میں فاصلے اور دوریاں اتنی زیادہ بڑھ گئی ہوں اور حکمران طبقے جو وسائل پر دسترس اور فیصلوں پر اختیار رکھتے ہیں۔ جب وہ مخلوق کی راحت کیلئے سوچنا بھی چھوڑ دیں ریاست اور شہریوں کے درمیان جو عمرانی معاہدہ ہوتا ہے۔ جو ہمارے ہاں آئین 1973 کی شکل میں موجود ہے۔ جس میں مفاد پرست اشرافیہ اپنے فائدوں کیلئے یکطرفہ ترامیم کرتی رہتی ہے۔ وہاں عام انسانوں، ناداروں، پسے ہوئے طبقوں کا آپس میں میل جول بہت ضروری ہے۔ یہ جہاں جہاں ہورہا ہے، وہاں ماحول کچھ کچھ انسان دوست ہے۔ بعض مقامات پر کچھ انجمنیں یہ سماج تشکیل دے رہی ہیں۔ کہیں کہیں بعض علمائے کرام اپنی مسجدوں میں ایسے اقدامات کرتے ہیں۔ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ پارلیمانی نظام ایک محفوظ معاشرہ استوار کرنے میں ناکام ہورہا ہے، قانون کا نفاذ یکساں نہیں ہے،بڑی گاڑیوں کیلئے دروازے کھل جاتے ہیں، پیدل، موٹر سائیکل اور سائیکل کو شناختی کارڈ دکھانا ہوتا ہے۔
تاریخ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ ہمارے حکمراں استحصالی گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ منتخب، غیر منتخب سب استحصال کیلئے متحد ہیں گزشتہ 40 برس کی حقیقی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی تو چند ہزار خاندانوں کی پرتعیش، پر لطف زندگی کیلئے کروڑوں کی زندگیاں جہنم بنانے کے حقائق سامنے آئیں گے۔
اب آئی ایم ایف سے چند ارب ڈالر قرض لینے کیلئے کروڑوں بے نواؤں پر جس طرح ٹیکسوں کا ملبہ گرایا گیا ہے اور اس کیلئےکروڑوں کی تنخواہ پر جو وزیر خزانہ لایا گیا ہے۔ وہ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح پہلے سے ٹیکس کے جال میں پھنسے پرندوں پر ہی مزید ٹیکس لگاکر خرچ اور آمدنی کو برابر دکھارہا ہے۔ موجودہ عالمی معاشی نظام عجیب و غریب ہے کہ وہ اپنے ملکی وسائل کے بہتر استعمال اور اس سے آمدنی بڑھانے کی بجائے محنت کشوں، مزدوروں، متوسط طبقے کے تنخواہ داروں( حکومت میں یا پرائیویٹ) کی آمدنی پر ٹیکس بڑھانے پر یقین رکھتا ہے۔ روزانہ لاکھوں روپے منافع کمانے والے دکانداروں ،تاجروں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ کثیر القومی کمپنیاں جو ان غیر قانونی ہتھکنڈوں کی عادی نہیں ہوتی ہیں وہ ایسے ملکوں سے اپنا کاروبار بتدریج کم کرتے ہوئے دوسرے ملکوں میں چلی جاتی ہیں۔ جہاں عام شہریوں پر ٹیکس کا ملبہ نہیں گرایا جاتا۔
ہم مال و زر میں لاکھ تہی دامن ہیں لیکن ہمارے ذہنوں میں صدیوں کی دانش ہے۔
کہاں ہیں ہمارے ماہرین تعلیم،ماہرین معیشت، ٹیکس ایکسپرٹ، پروفیسرز، دانشور۔ وہ آئندہ دس پندرہ برس کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے۔ کروڑوں عوام کی دعاؤں کا مرکز بننے کی بجائے وہ وزراء کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے بے تاب رہتے ہیں۔ انتہا یہ ہوگئی کہ آپ کی زندگی آسان کرنے۔ آپ کے دست و بازو کی توانائی۔ آپ کے ذہن کی وسعتوں سے آپ کے خلوص کو بروئے کار لانے کی خوشخبری کی بجائے آپ کو یہ نوید دی جارہی ہے کہ اب پاکستان کے سب سے بڑے، تجارتی وصنعتی مرکز میں، دنیا کا سب سے بڑا مردہ خانہ قائم کردیا گیا ہے۔ زندگی میں تو آپ کو تازہ ہوا،ٹھنڈک میسر نہ آسکی۔ آپ کی لاش کو مختصر وقت کیلئے یہ سہولت مل جائے گی۔ اتنے عرصے میں آپ کے لواحقین آپ کیلئے قبر کی جگہ خرید لیں گے۔ سہولتوں کی فراہمی لائق تحسین ہے۔ مگر ترجیح زندہ لوگوں کیلئے سہولت کی ہونی چاہئے۔
میں تو آئندہ کی حکمت عملی مرتب کرنے پر یقین رکھتا ہوں۔ نوجوان ترک وطن کو ایک راہ نجات سمجھ رہے ہیں۔ لیکن 24 کروڑ تو باہر نہیں جا سکتے۔ میری گزارش تو یہ ہے کہ ہر پاکستانی اپنی اہمیت جانے۔ ملک اس کا ہے، حکمران طبقوں کا نہیں ہے۔ آپ وزیر اعظم، صدر، گورنر، وزرائے اعلیٰ سے ہاتھ ملانے کی کوشش میں بھگدڑ کا حصہ نہ بنیں۔ اپنی اولادوں سے اپنے بھائیوں سے ہاتھ ملائیں۔ اپنے ہمسایوں سے ہاتھ ملائیں۔ ہر روز نہیں مل سکتے۔ ہفتے میں ایک دن تو ملیں۔ گھروں میں ملنے کی جگہ نہیں ہے،مسجد میں ملیں۔ ایک دوسرے کی ضروریات میں ہاتھ بٹائیں، ایک دوسرے کو جینے کا حوصلہ دیں۔ آپ دیکھ چکے ہیں کہ گزشتہ چالیس برس میں ایک دوسرے کے بد ترین مخالف آپس میں مل جاتے ہیں ۔ آپ پر سارا بوجھ ڈال کر اپنی زندگی آسان کرتے ہیں۔ صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ کسی کے قافلے میں گاڑیاں کم ہوئی ہیں۔ ان گاڑیوں میں پیٹرول ڈیزل نہیں آپ کا ہمارا خون جلتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ