جمہوریت تعویز گنڈے کا دھندا نہیں … تحریر : وجاہت مسعود


دیوار سے لٹکے کیلنڈر پر کندہ تاریخیں تو محض گزرتے وقت کا خاموش نشان ہیں۔ انہیں انسانی ہاتھوں کی محنت اور کاسہ سر میں کارفرما شعور سے معنی دیے جاتے ہیں۔کل 4 جولائی تھا۔ امریکی 4جولائی 1776 کو اپنے اعلان آزادی کی منظوری کی یاد میں اسے یوم آزادی کے طور پر مناتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں بھی 4جولائی کی آزمائش گزری ہے ۔ ہمارے منتخب اور زخم خوردہ وزیراعظم نواز شریف کو کارگل کی برف پوش چوٹیوں پر محصور ہزاروں جوانوں کی بازیابی کے لیے 4جولائی 1999 کو کیمپ ڈیوڈ جا کر امریکی صدر بل کلنٹن سے ثالثی کی درخواست کرنا پڑی تھی۔ اس سے اگلی تاریخ 5جولائی ہے۔ 47برس قبل ایک فوجی طالع آزما نے 5جولائی کو ایک منتخب حکومت برطرف کر دی تھی۔ آئین معطل کر کے گیارہ برس طویل آمریت میں ہمارے سیاسی ، تمدنی ، معاشی اورقانونی بندوبست پر ایسے زخم لگائے جو آج تک مندمل نہیں ہو سکے۔ آج کے اخبار میں آمر کے صاحبزادے کا ایک مضمون چھپا ہے۔ بزنس ایڈمنسٹریشن میں تعلیم پانے والے محترم اعجاز الحق کی سیاسی اور دستوری تربیت میرے علم میں نہیں البتہ ان کے بیان صفائی میں بھٹوحکومت کے خلاف فرد جرم تو درج ہے لیکن یہ ذکر سرے سے غائب ہے کہ ان کے والد نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قوم کے خلاف بدترین جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ ضیاالحق کی حکومت عوام کے حق حکمرانی پر غاصبانہ تسلط تھا جس کا ہر لمحہ اور ہر اقدام قوم کے خلاف جرم مسلسل تھا۔

اتفاق سے کل برطانیہ میں عام انتخابات منعقد ہوئے جن کے نتائج 4 اور 5 جولائی 2024 کی نصف شب موصول ہونا شروع ہوئے۔ میں پلک جھپکے بغیر رات بھر یہ نشریات دیکھتا رہا۔ برطانیہ میں دو بڑی سیاسی جماعتیں کنزرویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی 1922 سے مسلسل اقتدار یا حزب اختلاف کا حصہ رہی ہیں۔ ان کے ملک میں کسی سرکاری اہلکار کو سیاسی جماعتوں کے باریاں لینے پر اعتراض نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی غیر منتخب نابغے کو تیسری سیاسی قوت کھڑی کرکے عوامی تائید میں دراز دستی کی جرات ہوتی ہے۔ حالیہ تاریخ میں کنزرویٹو پارٹی 2010 میں برسراقتدار آئی اور اگلے چودہ برس تک اس جماعت کے پانچ وزرائے اعظم اقتدار میں رہے۔ جون 2016 میں یورپین یونین سے علیحدہ ہونے کے بعد سیاسی اور معاشی بحران پیدا ہوا تاہم دسمبر 2019 میں کنزرویٹو پارٹی کے بورس جانسن نے 650 کے ایوان میں 365نشستیں حاصل کیں۔ لیبر پارٹی کو 202اور اسکاٹش نیشنل پارٹی کو 48نشستیں ملیں۔ لبر ل ڈیموکریٹ پارٹی کو 11نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ جنوری 2020 میں بریگزٹ کا عمل مکمل ہونے کے بعد معاشی حالات بگڑ گئے ۔ یورپین یونین سے علیحدگی کے موعودہ امکانات بارآور نہ ہو سکے چنانچہ وزرائے اعظم کا چل چلاؤ شروع ہو گیا۔ مئی 2024 کے مقامی انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کی شکست کے بعد رشی سونک نے 22مئی کو عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ تادم تحریر 648نتائج کے مطابق لیبر پارٹی 210نشستوں کے اضافے کے ساتھ 412 حلقے جیت چکی ہے۔ حکومت بنانے کیلئے اسے صرف 326 ارکان درکار ہیں۔ کنزرویٹو پارٹی 250نشستوں کے خسارے کے ساتھ 121 کے نشان تک پہنچ سکی ہے۔ گزشتہ انتخاب میں صرف آٹھ نشستیں جیتنے والی لبرل ڈیمو کریٹ پارٹی نے 71نشستیں جیت لی ہیں جبکہ دائیں بازو کی اسکاٹش نیشنل پارٹی کا حجم 48سے کم ہو کے صرف 9نشستیں رہ گیا ہے۔ انگریز عجیب لوگ ہیں ۔ کنزرویٹو پارٹی کے رہنما رشی سونک نے ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے لیبر پارٹی کے رہنما سر کیئر سٹارمر کو مبارکباد دی ہے۔ کیئر سٹارمر نے اپنی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے حریف امیدواروں کو جمہوری سیاست کی قومی ذمہ داری میں حصہ لینے پر

خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کے ہاں انتخابات کی رات آر ٹی ایس بیٹھتا ہے اور نہ منتخب حلقوں میں دھند پھیلتی ہے۔ ایس این پی کا لیڈر اعتراف کرتا ہے کہ ان کی جماعت لیبر پارٹی کی مقبولیت کا مقابلہ نہیں کر سکی ۔ دائیں بازو کی ریفام پارٹی نے چار سیٹیں جیتی ہیں لیکن اپنے ووٹوں کی شرح میں اضافے پر شاداں ہے۔ اتفاق سے گزشتہ شب ایک نوجوان دوست نے سوال کیا کہ کیا جمہوریت میں اپنی اصلاح کرنے کا خودکار بندوبست موجود ہے۔ نہایت انکسار سے عرض کی کہ جمہوریت میں کوئی ایسا خلائی انتظام موجود نہیں جو حسب منشا مہروں کی ترتیب بدل کر معاملات ٹھیک کر سکے۔ جمہوریت میں اچھے برے ہر طرح کے فیصلے ہوتے ہیں اور عوام کو اپنی اجتماعی فراست کے کیف و کم کی ذمہ داری اٹھانا ہوتی ہے البتہ جمہوریت محض انتخابی عمل نہیں بلکہ ایک ایسی اجتماعی ثقافت ہے جس میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ (1) سیاسی جماعتوںمیں داخلی تنظیم بھی مضبوط ہو اور قومی مسائل پر ان کا نقطہ نظر بھی واضح ہو۔ (2)ذرائع ابلاغ کو ذمہ دار اظہار آزادی کی مدد سے قوم کو ہر مسئلے کا کیف و کم سمجھانا ہوتا ہے۔ (3)درس گاہوں کے نصاب میں بچوں کی ایسی تربیت کی جاتی ہے کہ کسی سیاسی رہنما کو یہ کہنے کی جرات نہ ہو کہ میں اس ملک کی آخری امید ہوں۔ (4) انتخابی عمل کو اس قدر شفاف ہونا چاہیے کہ عوام ووٹ سے اپنی زندگیاں بہتر بنانے پر یقین رکھتے ہوں۔ (5) سیاسی رہنماؤں کو اپنی شخصی خوبیو ں کی بجائے جمہوری عمل کے تسلسل پر اعتماد ہونا چاہیے۔ (6)اس نکتے پر قومی اتفاق رائے ہونا چاہیے کہ جمہوری عمل کا کوئی متبادل نہیں۔ (7) سیاسی عمل کے شفاف دریا میں غیر جمہوری غلاظت کا پرنالہ گرانے والوں کی مزاحمت تو ہونی چاہیے لیکن ان عناصر کی جواب دہی بے حد ضروری ہے جو ایسی مداخلت کو نام نہاد دانش، تقدیس، زمینی حقائق اور مخصوص حالات کے نام پر جواز بخشتے ہیں۔ جمہوریت کوئی میکانکی عمل نہیں جو بٹن دبانے سے مطلوبہ نتائج دینا شروع کر دے۔ جمہوریت فرد کے کردار اور قوم کے شعور کا مسلسل امتحان ہے۔ جمہوریت کے آموختے سے ایسے ازکار رفتہ اشارے حرف غلط کی طرح حذف کر دینے چاہئیں ۔

گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کاری شو

کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید

بشکریہ روزنامہ جنگ