الفاظ کے ناروا اِستعمال کے اثرات : تحریر الطاف حسن قریشی


ہم نے اپنی زندگی ہی میں تہذیب کے قرینے اور اَلفاظ کے زاویے بدلتے دیکھے ہیں۔ جب غالبؔ نے کہا تھا ع بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے، تب یہی سمجھا گیا تھا کہ اِس میں شاعرانہ مبالغہ بہت زیادہ ہے، مگر اب ہم پوری دنیا کو اُنگلیوں پر نچا رہے ہیں۔ سائنسی ایجادات نے دنیا کو ایک عالمی گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے۔ قطب ِشمالی میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے، تو اُس کی خبر پَل بھر میں کرۂ ارض کے طول و عرض میں پھیل جاتی ہے۔ آج کل ایسے طریقے بھی دریافت ہو چکے ہیں کہ آپ گھر بیٹھے بیٹھے کوسوں دور بہت بڑا طوفان اُٹھا سکتے اور سپرپاور کے انتخابات میں مداخلت کا خاموش کارنامہ بھی سرانجام دے سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں امریکہ نے شکایت کی تھی کہ روس اُس کے انتخابات پر اثرانداز ہوا ہے۔ اِن شکایتوں کی آئندہ کوئی حیثیت نہیں رہے گی، کیونکہ مصنوعی ذہانت کے آنے والے دور میں ایک نیا انسان ایجاد ہونے والا ہے۔

سائنسی ایجادات کے ساتھ ساتھ ہمارے طرزِ عمل میں بھی بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ پہلے تہذیبی رویّوں کو غیرمعمولی اہمیت حاصل تھی، اب سائنسی اپروچ ہر شے پر حاوی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ چند عشروں پہلے کی بات ہے کہ باہمی رشتوں میں ایک تہذیبی تعلق موجود تھا۔ چھوٹے بڑوں کا احترام کرتے اور بڑے چھوٹوں پر دستِ شفقت رکھتے۔ گھر میں ماں کا راج ہوتا اور باپ اپنی ذمےداریاں نبھانے میں بڑی مشقت سے کام لیتا اور دونوں مل کر اولاد کی اچھی تربیت کرتے۔ محلے کا بزرگ تمام اہلِ محلہ کا خیال رکھتا اور غلط کاموں پر بچوں کو ٹوکتا اور اَچھی باتوں کی تلقین اپنا فرض خیال کرتا تھا۔ اِسی طرح پوری بستی پُرامن رہتی اور چھوٹا موٹا جھگڑا محبت کی زبان سے طے ہو جاتا۔ لوگ باہمی اعتماد کی دولت سے فیض یاب ہوتے رہتے۔ کہیں کھلی جگہ مل جاتی، تو لڑکے بالے گِلی ڈنڈا، بنٹے کھیلتے جبکہ بڑے بیڈمنٹن، والی بال اور کرکٹ کھیلنے کا لطف اُٹھاتے اور سپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے یہ مناظر تبدیل ہوتے گئے۔

ہمارا محلہ کلچر ہماری سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں سے بہت متاثر ہوا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے ہاں جس سیاسی کلچر نے فروغ پایا، اُس میں خوبیاں بھی تھیں اور کچھ ناہمواریاں بھی۔ بدقسمتی سے کشیدگی کا ماحول آغاز ہی میں بن گیا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ وزیرِاعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں اور جناب حسین شہید سہروردی کے مابین تعلقات مثالی نہیں تھے جس کے باعث سیاست کے اندر تلخی پیدا ہوئی۔ پنجاب میں ممدوٹ اور دَولتانہ آمنے سامنے آ گئے اور مرکزی سطح پر مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمٰن اپوزیشن لیڈر بنے جنہوں نے ’’جگتو فرنٹ‘‘ کے ذریعے مسلم لیگ کو اِقتدار سے بےدخل کر دیا۔ اِس طرح سیاسی عدم استحکام کا دور دَورہ شروع ہوا۔ جنرل ایوب خاں فوجی طاقت کے بَل بوتے پر اقتدار پر قابض ہوئے اور سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی کردارکشی پر جُت گئے۔ انتہائی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اُنہوں نے قائدِاعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو پاکستان کی غدار قرار دَے دیا تھا۔

ہماری اِن سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُن کی جدوجہد سے مارشل لا کا دور ختم ہوا اَور سقوطِ ڈھاکہ کے بعد مسٹر بھٹو باقی ماندہ پاکستان کے سیاہ و سپید کے مالک بنے جو بلاشبہ تاریخی شعور کے حامل تھے۔ اُنہوں نے ایک متفقہ دستور دِیا اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا عمل تیزی سے شروع کیا۔ بدقسمتی سے اُنہوں نے سیاست دانوں کے نام رکھنے کی بدعت شروع کی۔ اُن کی آواز دبانے کے لیے ریاستی طاقت استعمال کی گئی۔ اُن کے عہد میں جماعتِ اسلامی کے ڈاکٹر نذیر احمد اور تحریکِ استقلال کے خواجہ محمد رفیق بڑی بےدردی سے قتل کیے گئے۔ اُن کے علاوہ پیپلزپارٹی کے نوجوان اور پُرجوش لیڈر اَحمد رضا قصوری کے والد گرامی سرِعام گولیوں سے بھون دیے گئے۔ بلوچستان میں سردار عطااللہ مینگل کی حکومت برطرف کر دی گئی اور فوجی آپریشن کے دوران سینکڑوں سیاسی کارکن موت کی آغوش میں چلے گئے۔ صحافی گرفتار ہوئے اور اَخبارات و جرائد بند کیے جاتے رہے۔ اِس کے علاوہ آئینی ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات اِس قدر کم کر دیے گئے کہ وہ شہریوں کے آئینی حقوق کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں رہیں۔ آزادکشمیر میں پُراسرار طور پر دلائی کیمپ قائم ہوا جس میں حکومت کے سیاسی حریف رَات کے اندھیروں میں گھر سے اُٹھا کر پھینک دیے جاتے۔ مسٹر بھٹو نے اپنی طاقت میں اضافہ کرنے کے لیے لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الحق کو پانچ افسروں کو بائی پاس کر کے آرمی چیف بنایا، مگر قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اُنہی کے عہد میں مسٹر بھٹو کو دار پر لٹکایا گیا۔ مجھے اُن کے اِس انجام پر بہت دکھ ہوا تھا۔

سیاست میں بگاڑ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے مزاج بھی بگڑتے چلے گئے۔ اب عالم یہ ہے کہ ہمارے پرنٹ اور اِلیکٹرانک میڈیا میں یہ الفاظ عام استعمال ہوتے ہیں کہ فلاں سیاست دان بہت پرانا کھلاڑی ہے۔ اب سیاسی لیڈر کھلاڑی کی سطح پر پہنچا دیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست جو کبھی کاروبارِ مملکت چلانے کا سب سے اعلیٰ فن تصوّر ہوتی تھی اور جو مکالمے کے ذریعے ناممکنات میں سے ممکنات دریافت کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی، وہ اَب کھیل تماشے کی ذیل میں آ گئی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بعض سیاسی رہنماؤں میں ہلڑبازی، افراتفری اور طاقت کے بہیمانہ استعمال کا رجحان تقویت پکڑتا جا رہا ہے۔ اِسی طرح یہ خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ ٹکرانے کے کثرتِ استعمال سے کہیں ہمارے کھیل کے میدان محاذِ جنگ میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ الفاظ کے بےرحمانہ استعمال کا ایک اور خطرناک پہلو یہ سامنے آ رہا ہے کہ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ دو ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف میچ کھیلیں گی۔ اب کہا جاتا ہے کہ یہ ٹیمیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں گی۔ ٹکرانے اور نیست و نابود کرنے کا تصوّر پھیلتا ہی جا رہا ہے جو اِس حقیقت کا غماز ہے کہ ہمارے معاشرے میں نظم و ضبط اور برداشت کی طاقت تیزی سے رو بہ زوال ہے۔ اِس کے آگے فوری طور پر بند نہ باندھا گیا، تو ہم آپس میں ایک دوسرے کو ٹھکانے لگاتے اور قومی وجود کو شدید ضعف پہنچاتے رہیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ