عزم ہے کہاں؟ : تحریر نوید چوہدری


ملک میں ایک بھونڈا تماشا 2014 کے بعد لگا پھر اسی کے تسلسل میں 2022 سے جو تماشا لگا ہوا ہے وہ منفرد اور زیادہ خطرناک ہے۔ ماضی میں جب بھی کسی حکومت کو رخصت کیا جاتا تھا تو اسکے ساتھ ہی کریک ڈاؤن اور انتقامی کارروائیاں شروع کرکے عوام پر واضح کردیا جاتا تھا کہ اس پارٹی کی باری وقتی طور پر ہی سہی ختم ہوچکی ہے ۔ عمران حکومت کو تحریک عدم سے رخصت کرنے کے بعد الٹ کام شروع ہوگیا۔ جسے اقتدار سے اتارا گیا وہ کبھی امریکہ کو للکارتا ، کبھی فوج کو، کبھی ججوں کے خلاف مہم چلاتا۔ پھر یوں ہوا کہ ججوں اور میڈیا کی بڑی اکثریت پارٹی بن کر پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ یہی وہ دور تھا جب پنجاب میں بیس صوبائی نشستوں پر ضمنی انتخابات میں ن لیگ کو شکست ہوئی اور اسکی مقبولیت کے تاثر کو دھچکا لگا۔ وہ تو کہیں بعد میں جاکر معلوم ہوا اس کھیل کے پیچھے جنرل باجوہ تھے جو ایک اور توسیع کی خاطر کبھی ججوں کے ذریعے پنجاب حکومت تبدیل کرا رہے تھے اور کبھی پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کی حکومت کو دھمکیاں دے کر مسلسل دبا میں رکھ رہے تھے۔ اس وقت سے لے آج تک جتنی بھی خرابیاں پیدا ہوئیں اس کی بنیادی وجہ جنرل باجوہ کی یہی حسرت تھی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جنرل ایوب کے بعد پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان جنرل باجوہ نے پہنچایا۔ چلیں یہاں تک تو جو ہوا سو ہوا۔ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس لامتناہی خرابی کو دور کرنے کے لیے ڈھنگ سے کوئی کوشش کرلی جاتی تو وہ بھی نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کی نئی قیادت نے پختہ عزم دکھانے کی بجائے اپنی گیم نئے سرے سے ترتیب دی۔ اس دوران اتنی گڑبڑ ہوئی کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ انہی حالات میں اداروں کے اندر تقسیم اتنی بڑھی کہ نو مئی ہوگیا۔ پوری دنیا کو لگا کہ ریاست اپنا عزم دکھائے گی لیکن یہ امید بھی پوری نہ ہوسکی۔ فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث کوئی ملزم پریس کانفرنس کرکے چھوٹ گیا، کوئی اس طرح سے روپوش ہے کہ جب دل چاہا پبلک میں آتا جاتا رہتا ہے، کوئی کینٹ کے محفوظ مقام پر چھپا رہا۔ ان سب کو بیانات جاری کرنے اور میڈیا پر چلانے کی آزادی بھی حاصل ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کا واقعی کوئی عزم ہوتا تو نو مئی کی صورت میں اسے پی ٹی آئی ہی نہیں اسکے حامی ہر طرح کے سرکاری افسروں، ججوں اور میڈیا کے خلاف من چاہی کارروائی کے لیے ایسا فل فری ہینڈ مل گیا تھا کہ جس کے خلاف کسی طرف سے عملی یا زبانی مزاحمت نہیں ہونا تھی۔ لیکن پراسرار وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں کیا گیا پھر سب نے دیکھا نو مئی بھی تماشا بن گیا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عدلیہ اور میڈیا قابو میں نہیں آرہے وہ زمینی حقائق سے واقف نہیں۔ ایک ایسا ماحول ہمہ وقت تیار ہے کہ نام نہاد جمہوری نظام کی چھٹی کرا کے کوئیمسیحا میرے عزیز ہم وطنوں کی آواز لگا کر اگلے دس سال تک ملک کی خدمت کرسکتا ہے۔دور جانے کی ضرورت نہیں، 2024 کے عام انتخابات کو ہی دیکھ لیں، عمران خان تو تھے ہی جیل میں، کیا نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور چند دیگر اہم سیاستدانوں کو سیٹ اپ سے عملا آٹ کرنے کا پلان پہلے سے ہی نہیں بن چکا تھا ؟ کیا یہ طے شدہ نہیں تھا کہ مائنس عمران پی ٹی آئی کو بڑی اپوزیشن پارٹی کے طور پر برقرار رکھا جائے گا اور کے پی کے میں حکومت بھی دی جائے گی۔منصوبہ سازوں کو سوچنا چاہیے اس گھڑمس میں کس کا زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ سی پیک پر تھوڑی بہت حرکت شروع ہوئی تو چین کے ایک اہم وزیرنے اسلام آباد آکر سیکورٹی کے حوالے اپنے تحفظات ظاہر کیے۔جس کے فوری بعد طمطراق سے آپریشن عزم استحکام شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ وزیر اعظم ہاس کے اس اعلان پر پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے ساتھ قوم پرست جماعتوں کی جانب سے شدید ردعمل آیا تو حکومت آئیں، بائیں، شائیں کرنے لگی۔ سارا دبدبہ رخصت ہوگیا، وضاحت پیش کی گئی کہ یہ ماضی کے فوجی آپریشنوں کی طرح کوئی نیا آپریشن نہیں بلکہ ایک حکمت عملی کا نام ہے۔ ایسی ہی ایک بریفنگ کا اہتمام عسکری حلقوں کی جانب سے بھی کیا گیا۔ کمال ہے جب ملک کو دہشت گردی کی بدترین یلغار کا سامنا ہے، اس وقت بجائے ڈٹ جانے کے، عجیب و غریب بہانے تراشے جارہے ہیں۔ حکام بالا کی ایسی ہی حرکتوں کے سبب ریاستی اداروں کی بھی سبکی ہورہی ہے۔ پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے امریکی ایوان نمائند گان کی قرارداد ہو یا اقوام متحدہ ورکنگ گروپ کا کوئی مطالبہ، یہ کوئی راز نہیں صیہونی لابی اپنے تمام وسائل کے ساتھ بانی پی ٹی آئی کے پیچھے کھڑی ہے ، المیہ تو یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کارکردگی کے حوالے سے تاریخ کی بدترین اور بزدل حکومت ثابت ہورہی ہے۔ پچھلے دنوں وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں عمران خان کی جیل سہولیات کے حوالے سے مذاکرات کی جو پیشکش کی اسے امریکی قرارداد کے دبا کا اثر سمجھا گیا۔ پی ٹی آئی نے ٹھٹھہ لگا کر یہ پیشکش اڑا ڈالی۔ رائے عامہ (حامی و مخالف دونوں) ذہنی طور تسلیم کرچکے تھے کہ وزیراعلی پنجاب مریم نواز ن لیگ کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں ۔ لیکن اب وہ بھی اپنے غیرسیاسی رویہ کے سبب بہت تیزی سے پس منظر میں جارہی ہیں۔ نواز شریف پہلے ہی سب چھوڑ چھاڑ کر گوشہ نشین ہوچکے۔ بجٹ، لوڈ شیڈنگ، بیڈ گورننس، غیر مؤثر میڈیا و سوشل میڈیا حکمت عملی، عوامی رابطوں سے لاتعلقی عوام کو حکومت کے خلاف غم و غصے سے بھر دیا ہے۔ یہ تو بار بار ثابت ہوچکا کہ سول حکومت کا کوئی عزم سرے سے موجود ہی نہیں ۔ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار رہ کر وقت گزارنا چاہتی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ کا بھی کوئی عزم ہے ؟ معاملات اب تک تو گول مول نظر آتے ہیں ۔ پاکستان میں استحکام اسی صورت میں آئے گا جب مقتدر حلقے اپنا عزم ظاہر کرکے اس پر بلا امتیاز عمل درآمد شروع کردیں گے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک ملک سے غیر یقینی کی صورتحال ختم ہوگی نہ ہی سیاسی استحکام آئے گا۔ اس تمام دھینگا مشتی میں سب سے زیادہ نقصان عوام کا ہوگا۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات