سلام ایک پولیس کانسٹیبل کو : تحریر محمود شام


ایک طرف وطن عظیم کے الجھتے حالات۔ بے بس دکھائی دیتے سارے ادارے اور قائدین۔ اسی دوران اگر ذاتی حوالے سے بھی کوئی ابتلا پیش آجائے ۔ نواسہ ڈکیتی میں زخمی ہوجائے تو دل اور ذہن دونوں ماؤف ہوجاتے ہیں۔ مگر آپ کا حلقۂ احباب اور خاص طور پر پولیس اگر ان ہنگامی سیکنڈوں، منٹوں اور گھنٹوں میں آپ سے رابطے میں رہیں۔ ابتدائی طبی امداد سے رات گئے اسپتال سے ڈسچارج ہونے تک آپ کے قریب رہیں تو خدائے بزرگ و برتر کے حضور ممنونیت کے ساتھ اس کے ان انسان دوست بندوں کا بھی احسان مند ہونا لازمی ہے۔

اس واردات اور پریشانی کی تفصیل کچھ دیر میں۔ قانونی سماعتوں۔دونوں طرف کے بیانات اور حالات کی پیشرفت کو پورے انہماک سے دیکھنے کی عادت تو کئی دہائیوں سے ہے۔ 1947سے اب تک گزرنے والے المیوں سے پہلے اور بعد میں جو کچھ ہوا۔ ان سب کے تناظر میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ عمودی، سماجی، سیاسی، اخلاقی، اقتصادی بحران کے حل کیلئے قیادتوں کی عدم سنجیدگی یا تو دوبارہ عام انتخابات کی طرف لے جاسکتی ہے یا ماضی کی طرح یہ جیسی تیسی جمہوریت ہے اس کی بساط بھی لپیٹی جاسکتی ہے۔ ’’عزم استحکام‘‘ کی بات تو کی جارہی ہے لیکن استحکام کسی کی حقیقی آرزو نہیں ہے۔ استحکام جن مدارج سے ممکن ہوتا ہے۔ وہ تو اختیار ہی نہیں کیے جارہے ہیںکیونکہ استحکام سے بہت سوں کے چراغ گل ہو سکتے ہیں۔ ان کی دکانیں بند ہوسکتی ہیں۔ بد قسمتی سے 1985کے بعد جو طبقہ ’اشرافیہ‘ کی صورت میں وجود میں آیا ہے۔ اس کی سوچیں صرف اپنی اولادوں تک محدود ہیں۔ وہ ملک کا مستقبل نہیں۔ صرف اپنے شہزادوں شہزادیوں کے آئندہ دنوں کو دیکھتے ہیں۔ 24 کروڑ کی خوشحالی ان کے پیش نظر نہیں ہے ۔ یہی غلط فکر ہے۔ وہ یکطرفہ طور پر اس وقت جن مفادات کے حصول کیلئے ناجائز راستے اختیار کرتے ہیں۔ خلق خدا کو روزانہ اضطراب میں رکھنا چاہتے ہیں۔ تنخواہ دار طبقوں پر سارا ملبہ ڈالتے ہیں۔ 60فی صد نوجوان آبادی کو اپنا ملکی اثاثہ اور خوشحالی کا سر چشمہ سمجھنے کی بجائے بوجھ خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ اگر مجموعی طور پر ملکی مفادات کیلئے ملکی وسائل کے استعمال کے منصوبے بنائیں۔ جنوبی کوریا، چین، ملائشیا اور ترکی کی طرح تو وہ یہی مفادات از خود آسانی سے حل کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ سب عدم تحفظ کے شدید احساس میں مبتلا ہیں۔ اسلئے کبھی مقتدرہ کی پناہ حاصل کرتے ہیں۔ کبھی واشنگٹن کی۔ یہ اپنے زرخیز کھیتوں میں فی ایکڑ پیداوار نہیں بڑھاتے۔ یہ ریکوڈک جیسی سونے کی کانوں کو آمدنی کی بجائے جرمانے کا مرکز بناتے ہیں۔ ایسے میں مولانا فضل الرحمن کا نئے انتخابات کا مطالبہ ایک بصیرت اور تدبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اے این پی نے بھی بحران سے نجات کا راستہ یہی بتایا ہے۔

حقیقی جمہوریتوں میں ایسے بحرانوں سے نکلنے کا راستہ عام انتخابات سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ جیسے برطانیہ میں ہو رہا ہے۔ پارلیمانی نظام میں انتخابات انہونی نہیں ایک معمول ہوتے ہیں۔ لیکن عوامی اکثریت کے رجحان سے خوفزدہ طبقے انتخابات کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے پارلیمنٹ اور عدالتوں کو استعمال کرنے پر ہی زور دیتے ہیں۔ یکم جولائی سے بجٹ 2025-2024 پر عملدر آمد شروع ہو گیا ہے۔ مہنگائی کا عفریت اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ اب ہر گزرتا دن غربت کی لکیر سے نیچے 10 کروڑ سے زیادہ کی زندگی کو ہر لمحہ اجیرن کرے گا۔ محاذ آرائی بڑھ رہی ہے۔ بے اختیار اکثریت اور با اختیار اقلیت میں مقابلہ ہے۔

۔۔۔۔۔

ایک فون آتا ہے کہ میں پولیس کانسٹیبل عمیر بول رہا ہوں۔ یہ اپنے نواسے سے بات کریں۔

’’مجھ پر حملہ ہوا ہے۔ ڈاکو میرا بیگ چھین کر لے گئے ہیں۔ مجھے بہت مارا ہے۔ سر پھٹ گیا ہے۔‘‘

سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر میں اٹھ بیٹھا ہوں۔ عائشہ منزل پہنچتا ہوں۔ الخدمت میں رضوان ایدھی کو فون کردیتا ہوں۔ ادھر سینئر صحافی آغا خالد کو۔ پولیس کانسٹیبل کو کچھ علم نہیں ہے کہ نانا کون ہے۔ وہ زخمی نوجوان کو سنبھالے ہوئے ہے۔ بار بار پوچھ رہا ہے کہ آپ کہاں پہنچے ہیں۔ بالآخر وہ ہمارے نواسے کو لہولہان اور سراسیمگی کی حالت میں ہمارے حوالے کر رہا ہے۔ وہ اسے اسپتال لے جانا چاہتا تھا لیکن زخمی انکار کررہا تھا۔ فلائی اوور کے نیچے سے عدیل کو سڑک پار کرکے اپنی منزل کی طرف جانا تھا۔ فلائی اوورز کے نیچے جرائم پیشہ ہم وطنوں نے ڈیرے بنالیے ہیں۔ مزاحمت پر گملے اٹھاکر سر پر دے مارے۔ نوجوان شور مچاتا رہا۔ آس پاس بھی ان ڈاکوؤں کے ہی ساتھی تھے۔ اسی پر اسرار اندھیرے میں وہ بیگ چھیننے والا گم ہوگیا۔ یہ پولیس کانسٹیبل ٹریفک کا ہے۔ جس نے صرف انسانیت کے ناطے ہمارے نواسے کو سنبھالے رکھا۔ سلام ہے اس پولیس کانسٹیبل کو۔ اللہ تعالیٰ مہربان ہے۔ رضوان ایدھی کے کہنے پر 1122کی ایمبولینس پہنچ گئی ہے۔ ایس ایچ او جوہر آباد بھی اپنی نفری کے ساتھ آگئے ہیں۔ اس وقت ترجیح ، زخمی کو اسپتال پہنچانا ہے۔ نانی بھی ساتھ ہے۔ اس پر کیا گزر رہی ہے۔ ایمبولینس والے نے فون کرکے مجھ سے تمام معلومات لے لی ہیںاور ضروری ہدایات بھی دے دی ہیں۔ گولی نہیں ماری گئی۔ اسی لیے سب اللہ کا شکر کررہے ہیں۔ میرے لیے یہ پہلا مشاہدہ ہے۔

ساہیوال سے تعلق رکھنے والا نوجوان تربیت یافتہ ہے۔ تمام ضروری مرحلے طے کررہا ہے۔ ایئر کنڈیشنڈ ایمبولینس سے عدیل کے حواس بحال ہورہے ہیں۔ رضوان ایدھی نے پٹیل اسپتال گلشن اقبال میں بھی فون کردیا ہے۔ شدید گرمی سے متاثرہ مریضوں کی وجہ سے اسپتال کی ایمرجنسی بھری ہوئی ہے۔ بزرگ بھی ہیں،بچے بھی، مائیں بھی، ہماری مسجد کے امام اور خطیب مولانا ہدایت اللہ ایسے مواقع پر اپنے مقتدیوں کے لیے اپنا وقت وقف کردیتے ہیں۔ تمام ضروری مدارج طے ہورہے ہیں۔ دوسرے مریضوں کے لیے بھی ڈاکٹر، زیادہ تر خواتین بہت مستعدی اور شفقت سے مصروف ہیں۔ ایک عمر رسیدہ صحافی اس ابتلا میں اکیلا نہیں ہے۔ سینئر صحافی فون کررہے ہیں۔ ایس ایچ او جوہر آباد۔ عزیز آباد۔ ڈی ایس پی عزیز آباد سب اسپتال میں ہیں۔ تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ آخر میں ایس ایس پی سینٹرل بھی چارہ گری کے لیے آگئے ہیں۔ ہم پولیس کی بے حسی، شقی القلبی پر صفحات سیاہ کرتے رہے ہیں۔ مگر یہاں سب متعلقہ آفیسرز انتہائی فرض شناسی کا مظہر بنے ہوئے ہیں۔ لگ رہا ہے کہ سسٹم ابھی موجود ہے۔ بالکل ختم نہیں ہوا۔ اس ساری انہونی میں عام پولیس کانسٹیبل صرف انسانیت کی سر بلندی کے لیے سرگرم نظر آتا ہے۔ اسکی یہ مہربانی ساری عمر میں اور اہل خانہ نہیں بھولیں گے۔ اگر وہ بروقت فون کر کے اطلاع نہیں دیتا۔ تو ایک اور نوجوان لاوارث بے ہوش پڑا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ سارے پولیس والوں کو عمیر جیسا بنا دے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ