دوچار دنوں سے ساحل عدیم کا ایک کلپ واٸرل ہو رہا ہے جس میں ایک سٹیج شو کے دوران میں ”طاغوت” پر بحث جاری تھی۔ساحل عدیم صاحب اس بات پر ناراض اور معترض تھے کہ خواتین کی غالب اکثریت کو طاغوت کا مطلب نہیں پتہ۔سب سے پہلی بات تو ساحل عدیم صاحب کے گوش گزار کرنا چاہوں گی کہ آپ جس منبر پر ہیں اس کا تقاضا بردباری و برداشت ہے۔اس اچھا معلم وہ ہوتا ہے جس میں برداشت کا مادہ زیادہ ہو اور وہ سکھانے اور سمجھانے کے لیٸے تیار ہو نہ کہ بار بار سیکھنے والوں کو اس بات پر شرمندہ کرے کہ تمہیں یہ نہیں پتہ تمہیں وہ نہیں پتہ ۔
سوجنے کی بات ہو کہ لوگ استادا/ستانی سے سیکھنے آتے ہیں۔اگر انہیں پتہ ہو تو کسی کلاس میں کیوں موجود ہوں ۔استاد اگر ہر وقت ناراض شاکی اور غصے میں رہے تو طلباء و طالبات کے لیۓ کشش کھو دیتا ہے۔
جہاں تک ناظرین میں موجود اس لڑکی کی بات ہے جس نے سوال کیا تھا ۔اس نے بھی کو شاٸستہ اور مہذب رویہ اختیار نہیں کیا۔ غیر مہذب رویے تربیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ بدتمیزی تو موجودہ زمانے کا طرہ امتیاز بن گٸ ہے ۔اس سے نجات پانے کے لیٸے اپنی اور اپبے بچوں کی تربیت کرنا ہوگی ۔
اب آتے ہیں طاغوت کی طرف ، تو اس ویڈیو کلپ کا ایک فاٸدہ یہ ہوا کہ سب طاغوت کے بارے میں سوچنے لگے اور بہت سے لوگوں کو طاغوت کا مطلب آگیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکی غالب اکثریت کو طاغوت کا مطلب کیوں نہیں پتہ تھا تو ظاہر ہے کہ جب بتایا ہی نہیں جاٸے گا تو پتہ کیسے ہو گا۔ ذرا سوچٸے کہ یہ کس کا فرض ہے ؟ ظاہر ہے کہ ان کا ہی فرض ہے جن کو معاشرے کی تربیت کا منصب سونپا گیا ہے،جنہوں نے دین سمجھانا ہے۔غالب اکثریت کا اتنے بڑے معاملے سے نابلد ہونا طالب علم کا قصور نہیں بلکہ وہ قصوروار ہیں ،جن کے ذمے سمجھانا تھا اور وہ نصاب ساز جو بچوں کے لیٸے نصاب سازی کرتے ہیں انہوں نے نصاب میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا۔
اس سلسلے میں اب اہم ترین بات یہ ہے کہ ہمیں زبان کے مسٸلے میں الجھا کر مستقبل
کی تصویر کو دھندلا کر دیا گیا۔ قومی زبان اردو کو پیچھے دھکیل دیا گیا ۔اس کا استعمال باعث عار بنا دیا گیا۔انگریزی میڈیم سکولوں میں قومی زبان کا استعمال باعث عار بنا کر مذموم عزاٸم پورے کیٸے گٸے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سوچا جاٸے کہ اپنے خطے کی زبان کے بجاۓ کوٸی بھی مسلط زبان زندگی کے وہ مقاصد پورے نہیں کر سکتی جو اس خطے کو مطلوب ہوتے ہیں۔اردو اس خطے کی زبان ہے اور وسیع پیمانے پر سمجھی جاتی ہے تحریر وتقریر کے تمام تقاضلوں پر پوری اترتی ہے۔
اس کے علاوہ اسی زبان میں مذہب پر کثیر مواد موجود ہے جس سے اخلاقی تربیت ہو گی۔جب ایسا ہوگا تو یہ نتاٸج ہی حاصل ہوں گے جو اب سامنے ہیں۔
اس تحریر کا مقصد ہرگز انگریزی کی مخالفت نہیں ، دوسری زبانیں ضرور سیکھیں کیونکہ کوٸی زبان سیکھنا ، سفر وسیلہء ظفر کے مترادف ہوتا ہے،صرف انگریزی تک محدود نہ رہیں لیکن اپنی قومی شناخت کو مسترد کرنا ہرگز قابل قبول نہیں ۔بات اپنی زبان میں نہ ہو تو سمجھ نہیں آتی۔