اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فوجی آپریشنز کی تاریخ۔۔۔۔تحریر لیاقت بلوچ


پاکستان کی تاریخ میں فوجی آپریشنز کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ سب سے پہلے آپریشن کا نام آپریشن پاکستان رکھا گیا تھا جو یکم ستمبر 1947 کو 23 چارٹرڈ طیاروں کی مدد سے دہلی میں پھنسے پاکستانی ملازمین کو پاکستان لانے کے لیے کیا گیا تھا، جن کی تعداد سات ہزار تھی۔ یہ آپریشن پندرہ دنوں میں مکمل ہوا تھا۔

بعد ازاں پہلے فوجی آمر جنرل ایوب اور ان کے بعد آنے والے فوجی آمروں کے ادوار اورحالیہ ماضی میں مقامی اور غیر ملکی عسکریت پسندی کے خاتمہ کے نام پر شورش زدہ قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا میں مسلح افواج کی جانب سے کیے گئے بڑے فوجی آپریشن درج ذیل ہیں:

آپریشن جبرالٹر (جولائی 1965 جنرل ایوب )
آپریشن سرچ لائٹ ( مارچ 1971 جنرل یحیی)
آپریشن فیئر پلے (جولائی 1977 جنرل ضیا )
آپریشن گلیکسی (جنوری 1984 بعض فوجی افسران کی جانب سے جنرل ضیا کا تختہ الٹنا)
آپریشن کلین اپ (دسمبر 1986 سہراب گوٹھ، کراچی)
آپریشن مِڈنائٹ جیکال (1989 بینظیر بھٹو حکومت کا تختہ الٹنا)
آپریشن پکا قلعہ حیدرآباد (مئی 1990)
وادی سوات اور ضلع شانگلہ میں آپریشن راہِ حق (2007)
وادی سوات اور شانگلہ میں آپریشن راہ ِحق II (2008)
خیبر ایجنسی میں آپریشن صراطِ مستقیم (2008)
باجوڑ ایجنسی میں فرنٹیئر کور کے ساتھ مشترکہ طور پر آپریشن شیردل شروع کیا گیا (2008)
وادی سوات اور شانگلہ میں آپریشن راہ ِحق III (2009)
بونیر، لوئر دیر اور شانگلہ ضلع میں آپریشن بلیک تھنڈرسٹارم (2009)
مہمند ایجنسی میں آپریشن بریخنا (2009)
آپریشن راہ راست، جسے عام طور پر سوات آپریشن کہا جاتا ہے، (2009)
آپریشن خیبر (2009)
جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہِ نجات (2009)
آپریشن راہ نجات (2010)
آپریشن ضربِ آہن (راجن پور چھوٹو گینگ) (2014)
آپریشن ضربِ عضب (2014، 2016)
آپریشن خیبر (2014، 2017، خیبر ایجنسی I، II، III، IV)
آپریشن ردالفساد (2017 سے اب تک)
آپریشن عزمِ استحکام (2024 میں شروع کیا جائے گا)

قیامِ پاکستان سے لیکر 2001 میں “نائن الیون” کے بعد امریکی ایما پر “دہشت گردی” کو “جڑ سیختم کرنے” کے سلوگن کیساتھ اب تک کیے گئے یہ تمام آپریشنز ناکام رہے، اور اس کے نتیجے میں فوج اور عوام کے درمیان ایسی خلیج پیدا ہوگئی جو ہر گزرتے دن کیساتھ مزید گہری ہوتی چلی جارہی ہے اور جسے پر کرنا اب کسی کے بس کی بات نہیں۔ پاکستانی عوام، بالخصوص قبائلی علاقہ جات سابق فاٹا، موجودہ پاٹا کے علاقے اور بلوچستان کے مختلف اضلاع کو فوکس کرکے کیے جانے والے اِن فوجی آپریشنز نے وہاں کے عوام کے سماجی، نفسیاتی، سیاسی، معاشی، معاشرتی حالات اور سلامتی سے متعلق امور پر گہرے، دور رس اور ان مِٹ نقوش مرتب کیے، تعلیم، صحت، تعمیر و ترقی اور معاشی سرگرمیاں، جو پہلے ہی ناپید تھیں، اب بالکل ماند ہوکر رہ گئیں، لاکھوں لوگ IDPs بن کر اپنے آبائی علاقوں سے دور خیمہ بستیوں اور مختلف شہروں/دیہاتوں میں عزیز و اقارب کے ہاں عارضی قیام کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور کردیے گئے ، ان کے کاروبار، فصلیں، باغات تباہ ہوگئیں اور وہ سماجی، معاشی طور پر مزید کسمپرسی کا شکار ہوگئے۔ 2009 میں سوات آپریشن کے نتیجے میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی ہوئی اور کم و بیش 25 لاکھ پاکستانی اپنے آبائی علاقے سوات سے نقل مکانی کرکے خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں سمیت ملک کے طول و عرض میں IDPs بن کر زندگی گزارنے پر مجبور کردیے گئے۔

چند اہم فوجی آپریشنز تاریخ کے آئینے میں

آپریشن جبرالٹر جولائی 1965 میں آزاد کشمیر اور پاکستان کی مسلح افواج نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کرانے کیلئے ایک گوریلا آپریشن کیا تھا۔ اس کے تانے بانے اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے بنے تھے۔ اس آپریشن کی ناکامی سے ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ ہوئی، اگرتلہ سازش تیار کی گئی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش ہوا (یہ بہت طویل روداد ہے ، جس کا اس وقت موقع نہیں)۔
آپریشن سرچ لائٹ جنرل یحیی خان کے حکم پر 26 مارچ 1971 رات ایک بجے ہوا تھا۔ اس آپریشن کی نگرانی میجر جنرل را فرمان علی اور میجر جنرل خادم حسین راجہ نے کی تھی۔ اس آپریشن میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ اس کے ساتھی بھارت فرار ہوگئے تھے۔ آپریشن جبرالٹر کی طرح اس کی روداد بھی بہت طویل ہے ۔
آپریشن فیئر پلے یہ آپریشن 5 جولائی 1977 مغرب کی نمازسے پہلے شروع ہو کر اذان فجر تک جاری رہا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ اور جنرل ضیا الحق کا اقتدار سنبھالنے کے عمل کو آپریشن فیئر پلے کا نام دیا گیا تھا۔ یہ بھی ایک طویل کہانی ہے گیارہ سالہ مارشل لا اور 17 اگست 1988 تک!
آپریشن گلیکسیمیں2 جنوری 1984 کو لاہور کے کچھ فوجی افسران جنہیں پیپلزپارٹی اور خاص طور پر غلام مصطفی کھر کی حمایت حاصل تھی جن میں میجر نثار حسین بخاری، میجر آفتاب چوہدری، میجر محمد صادق اور اسکواڈرن لیڈر طاہر مقصود شامل تھے وہ ضیا الحق حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھیمگرانہیں عین اس وقت 2جنوری 1984 کو گرفتار کرلیا تھا جب وہ بھارت سے اسلحہ کی اسمگل شدہ کھیپ وصول کررہے تھے۔ اس سازش میں ملوث جن جن افسران کو سزائیں ہوئی تھیں بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی ان کی باقی سزائیں معاف کردی تھیں۔
آپریشن کلین اپ کراچی کی بستی سہراب گوٹھ میں پاک فوج نے پولیس کی مدد سے 12 دسمبر 1986 کو علی الصبح آپریشن کیا جسے آپریشن کلین اپ کہا گیا تھا مگر اس آپریشن سے سہراب گوٹھ سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا، اسلحہ منشیات اور نہ دیگر اسمگل شدہ اشیا۔
آپریشن مڈنائٹ جیکال یہ ایک سول اور جمہوری حکومت کے خلاف سازش تھی جس کا آغاز میجر عامر، جو ان دنوں آئی ایس آئی اسلام آباد آفس میں تھے، انہوں نے آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر امتیاز کے تعاون اور ایک بزرگ سینیٹر حاجی گل شیر کی مالی مدد کی یقین دہانی سے شروع کیا تھا، مگر ملک ممتاز اعوان، میجر مسعود شریف اور میجر جنرل نصیراللہ بابر نے اس ساری کارروائی اور گفتگو جو 28 دسمبر 1989 سے 6 اکتوبر 1989 کے دوران ریکارڈ ہوئی تھی محترمہ بے نظیر بھٹو کو، جو ان دنوں وزیراعظم تھیں، پہنچا دی تھی ۔ یہ سازش دراصل بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ممبران کی ہارس ٹریڈنگ پر مبنی تھی۔
بے نظیر بھٹو نے فوجی افسران جن میں میجر عامر اور بریگیڈیئر امتیاز شامل تھے کی شکایت اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ سے کی تھی اور ان دو افسران کو فوج سے فارغ کرنے کا کہا تھا جس پر کچھ لیت و لعل کے بعد عمل کر دیا گیا۔
26 مئی 1990 کو حیدرآباد (سندھ) میں آپریشن پکا قلعہہوا تھا جس میں سروں پر قرآن اٹھائے گھروں سے نکلتی 20 خواتین گولیوں کا نشانہ بن کر جاں بحق ہوگئی تھیں۔ ، کاشنکوفوں، مشین گنوں کی اندھی گولیوں نے 17 دیگر افراد کی جانیں بھی لی تھیں۔ سینیٹ پاکستان کے رکن محسن صدیقی آپریشن کی نذر ہوئے تھے۔ جس سے 28, 27 مئی کے دوران 66 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہوئے تھے۔
آپریشن راہ راست اپریل 2009 میں سوات میں قیام امن کے نام پر پاک فوج نے تحریک نفاذ شریعت کے سربراہ مولانا صوفی محمد اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کی ناکامی کی صورت میں شروع کیا تھا جس سے 25 لاکھ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا تھا، سیاحت کے کاروبار کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
آپریشن راہِ نجات 16 جون 2009 کو مالاکنڈ ایجنسی اور جنوبی وزیرستان میں شروع کیا گیا تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنا اس آپریشن کا بنیادی مقصد تھا ، جس کا پہلا مرحلہ 14 اور 15 اگست 2009 کی درمیانی رات ایک میزائل حملے میں بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد مکمل ہوا۔
آپریشن راہِ نجات کا دوسرا مرحلہ 2 اکتوبر 2009 کو شروع ہوا تھا اس میں پاکستانی فوج کے دو ڈویژن نے حصہ لیا تھا۔ آپریشن راہ نجات کا دوسرا مرحلہ دسمبر 2009 میں مکمل ہوا۔
آپریشن سائیلنس کے نام سے اسلام آباد کی لال مسجد کے خلاف آپریشن ہوا تھا جس کی حتمی کارروائی 10 جولائی 2007 کو ہوئی جس کے نتیجے میں مولانا عبدالرشید غازی ان کی والدہ صاحبہ اور لاتعداد طلبا و طالبات جاں بحق ہوئے۔ سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف اس آپریشن کے روحِ رواں تھے۔

ملکی سرزمین پر فوجی آپریشنز کی قانونی حیثیت

جب جنرل مشرف کی فوجی حکومت بنیادی طور پر وکلا کی تحریک کی طرف سے ایک پرامن اور سیاسی اپوزیشن کے دبا کے تحت بحران اور انتشار کا شکار تھی تو ان کے امریکی اتحادیوں نے ایک نیا خیال پیش کیا۔ مشرف نے پاکستانی متوسط طبقے سے جو بھی سیاسی سرمایہ اکٹھا کیا تھا وہ تیزی سے کھو رہے تھے ۔ سرحد پار سے عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور پاکستان کی سرزمین سے نیٹو افواج پر جان لیوا حملوں کی وجہ سے افغانستان میں امریکی فوج اور نیٹو افواج پریشانی کا شکار تھیں۔

امریکہ قبائلی عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن دبا چاہتے تھے۔ امریکیوں کی نظر میں، اس صورت حال میں مشرف کی تیزی سے ختم ہوتی ہوئی قانونی حیثیت ایک مسئلہ تھی: حمایت کے بغیر مشرف قبائلی عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کے قابل نہیں تھا، اسے ایک قسم کی سیاسی حمایت اور قانونی حیثیت کی ضرورت تھی۔

ایسے میں امریکہ جنرل مشرف کی فوجی حکومت اور بے نظیر بھٹو کے درمیان کسی نہ کسی قسم کے اتحاد کو ترتیب دینے کے لیے سرگرم ہو گئے۔ اس سلسلے میں امریکی حکام نے جو سفارت کاری کی وہ ایک طویل لیکن بار بار دہرائی جانے والی کہانی ہے۔ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کرکے واپس جا رہی تھیں۔ پیپلز پارٹی نے ہمدردی کی لہر پر سوار ہوتے ہوئے 2008 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور جنرل مشرف کو صدارت سے ہٹا دیا گیا۔

سیاست میں 2014 کی نرم فوجی مداخلت (یا جاسوسوں کی مداخلت) کے بعد سے، پاکستانی سیاسی منظر نامہ تیزی سے پولرائزڈ ہونے لگا ، گویا اب ہم حقیقی معنوں میں پارلیمانی جمہوریت نہیں رہے۔ ان حالات میں سیاسی اتفاق رائے ممکن نہیں تھا، کیونکہ ہم خانہ جنگی جیسی صورت حال سے دوچار ہوگئے تھے۔

آرمی چیف کے طور پر مشرف کے جانشین، جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنہیں امریکی میڈیا وائٹ ہاس کا پسندیدہ قرار دیتا تھا، انہیں قبائلی علاقوں اور سوات میں فوجی آپریشن سے پہلے سیاسی اور قانونی حمایت درکار تھی۔ پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ کس طرح پی پی پی کی حکومت اور اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تمام سیاسی کھلاڑیوں کو وزیر اعظم ہاس میں ایک میز کے گرد اکٹھا کرکے اِن فوجی آپریشنز کے لیے راہ ہموار کرانے میں کردار ادا کیا۔

جنرل کیانی پی پی پی اور ن لیگ حکومتوں پر زور دیا کہ وہ فوجی کارروائیوں کی حمایت میں سیاسی اتفاق رائے پیدا کریں۔ یہ وہ وقت تھا جب قبائلی علاقوں میں تعینات نیم فوجی دستوں کے انخلا کی خبریں عام تھیں۔ فوج اسامہ بن لادن اور افغان جہاد میں شہید قرار دیے گئے مذہبی رہنماں پر سخت ردعمل ظاہر کررہی تھی۔ اس صورت حال میں سیاسی اتفاق رائے فوجی رہنماں کے ہاتھ میں ایک طاقتور ہتھیار تھا۔

اس دور میں اسٹیبلشمنٹ نے دو بار سیاسی دوڑ میں اپنے گھوڑے بدلے۔ سب سے پہلیانہوں نے زرداری کو توڑنے کے لیے عمران خان کو ٹروجن ہارس کے طور پر استعمال کیا اور نواز شریف نے فوج کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا۔ پھر عمران خان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا اور اب شریف برادران ان کی دوڑ میں گھوڑے ہیں۔ پاکستانی سیاست کے اندرفوجی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر مبنی ان سازشوں نے پہلے سے پولرائزڈ سیاسی منظر نامے میں گہری دراڑیں پیدا کر دی ہیں۔

تدوین: لیاقت بلوچ

نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان

سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل پاکستان