ٹھیک سو برس پہلے 9 فروری 1922 کو کلکتہ کی عدالت میں بیان دیتے ہوئے مولانا ابوالکلام محی الدین آزاد نے ہزاروں برس پر پھیلی انسانی تاریخ کو ایک جملے میں سمیٹ دیا تھا۔ فرمایا’تاریخِ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں‘۔مولانا کے اس بیان پر ایک صدی کی آندھیاں اور طوفان گزر گئے۔ انسانوں نے چھوٹی بڑی سینکڑوں جنگیں بھگتیں اور عدالتوں میں انصاف کا خون ہوتے دیکھا۔ مولانا آزاد آج حیات ہوتے تو انہیں میدان جنگ اور کمرۂ عدالت میں حدفاصل قائم کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ جنگ اور عدالت انصاف کے نام پر اقتدار کے کھیل کے دو رُخ ہیں جن کا مقصد خوف اور کھلے تشدد کی آمیزش سے ایک مجرم اقلیت کے لیے کمزور اکثریت کے حقوق، آزادیوں اور وسائل پر قبضہ کرنا ہے۔ لمحہ ٔ موجود میں دنیا فروری 2022 سے یوکرائن اور اکتوبر 2023 سے ارض فلسطین پر جنگ کی تباہ کاریاں دیکھ رہی ہے۔ کرۂ ارض پر بہت سی چھوٹی بڑی لڑائیاں جاری ہیں۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ دسمبر 1991میں ایک عالمی فریق کی پسپائی کے بعد سے جمہوری نظام سیاسی آزادیوں اورمعاشی انصاف کا وعدہ ایفا نہیں کر پایا۔ اس ناکامی سے تفرقے ، توسیع پسندی اور عالمی بالادستی کے نئے امکانی جزیرے نمودار ہوئے ہیں۔ ہم حالیہ برسوں میں دو عالمی جنگوں کے درمیانی وقفے کی تمثیل کا دوسرا حصہ دیکھ رہے ہیں۔ یورپ اور مغربی دنیا میں نسلی اور مذہبی منافرت کے جھنڈے تلے ایسی مقبولیت پسند سیاست غالب آرہی ہے جس کا انجام فسطائی تجربہ ہے۔ مغربی استعمار کی مخالفت کے نام پر مشرق میں ایسی قوتیں ابھر رہی ہیں جو ناگزیر طور پر محوری انحراف کی لکیر پر چلتے ہوئے عالمی تصادم کی طرف بڑھیں گی۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ یوکرائن پر روسی حملے کے مخالفوں کو غزہ کے ملبے میں دبی ہوئی لاشوں سے غرض نہیں اور غزہ کا ماتم کرنے والے یوکرائن میں برستی آگ پر تالیاں بجا رہے ہیں۔ جرمن فلسفی ہیگل نے دو سو برس پہلے تاریخ کا واحد سبق بیان کرتے ہوئے کہا تھا، ’ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے‘۔ ماہ جون کے پہلے ہفتے میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک خالص ذاتی معاملے کی پردہ پوشی کے لیے سرکاری ریکارڈ بدلنے کے 34الزامات میں مجرم قرار دیا گیا۔ ٹھیک ایک مہینے بعد امریکی سپریم کورٹ نے 6/3 کی اکثریت سے امریکی صدر کو جزوی استثنیٰ عطا کر دیاہے۔ اس ضمن میں چند نکات قابل غور ہیں ۔ سپریم کورٹ کے کل 9ججوں میں سے چھ کا تقرر ری پبلکن صدور نے کیا تھا اور ان سب نے ٹرمپ کے حق میں فیصلہ دیا ۔ تین جج ڈیمو کریٹک صدور نے مقرر کیے تھے اور ان تینوں نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ گویا امریکی سپریم کورٹ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر تقسیم واضح ہے۔ دوسرانکتہ یہ کہ جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات سرکاری اور غیر سرکاری حدود کی دھند میں تھے انہیں واضح طور پر سرکاری اختیار قرار دے دیا گیا۔ جہاں صدارتی اختیارات کا ذاتی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال واضح تھا(مثلاًچھ جنوری 2020کو کانگرس پر حملہ یا ریاستی حکام پر الیکٹورل ووٹوں کی گنتی بدلنے کادباؤ) انہیں ماتحت عدلیہ کے احاطے میں پھینک دیا گیا ہے۔ دوسری طرف ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار بائیڈن کی پیرانہ سالی نے نئے سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ امریکا کے آئندہ صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کی ممکنہ کامیابی سے امریکی جمہوریت کا چہرہ ہی تبدیل نہیں ہو گا ، پوری دنیا پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکی جمہوریت ایک مطلق العنان بادشاہت کے خطرے سے دو چار ہے۔ 1860 کے بعد سے کسی امریکی انتخاب میں ووٹرز کو ایسے بنیادی سوالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
عالمی نقشے پر نمودار ہوتے جوار بھاٹوں کے ہنگامے میں یورپین یونین اور فرانس کے انتخابات میں دائیں بازو کی کامیابیاں ثانوی حیثیت اختیار کر گئی ہیں۔ ایرانی انتخابات میں قدامت پسند امیدوار کی ممکنہ کامیابی کے غلغلے میں بائیس سالہ مہسا امینی کی موت اور قید و بند برداشت کرنے والی سینکڑوں ایرانی عورتیں کسے یاد رہتی ہیں۔ قومی ریاست جرم اور ناانصافی کے خلاف باہمی تحفظ کی ضمانت کے لیے قائم کی گئی تھی لیکن فرد انسانی کے اندر آباد کائنات کی ٹوٹ پھوٹ کا آلہ کار بن چکی ہے۔ حالیہ دنوں کے اردو اخبارات اٹھا کر بتائیے کہ 29جون 2024کو ساہیوال کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 26سالہ مسیحی نوجوان احسان مسیح کوسزائے موت، بائیس سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی جو سزا سنائی ہے کیا اس کی خبر آپ کی نظر سے گزری؟ عدالتی فیصلے کے مطابق ساہیوال کے اس مسیحی نوجوان کی مبینہ سوشل میڈیا پوسٹ سے 16اگست 2023کو124 کلومیٹر دور واقع تحصیل جڑانوالہ میں مذہبی فسادات پھوٹ پڑے جن میں بیس چرچ جلائے گئے اور مسیحی شہریوں کے درجنوں مکانات لوٹ کر تباہ کر دیے گئے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق احسان مسیح کے خلاف 19اگست کو ایف آئی آر درج کی گئی اور اسے21اگست 2023کو گرفتار کیا گیا۔تمام گواہان پولیس اہلکار اور مقامی مذہبی پیشوا تھے۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ جڑانوالہ میں فسادات کے دوران احسان مسیح کا نام کہیں سامنے نہیں آیا۔ نیز یہ کہ یکطرفہ مذہبی فسادات کے ان واقعات میں گرفتار ہونے والے اکثریتی فرقے کے 135ملزمان میںسے 125افراد رہا ہو چکے ہیں اور صرف 12 افراد کو مقدمات کا سامنا ہے۔ اگست 2023 میں موجودہ چیف جسٹس محترم قاضی فائز عیسیٰ اور اس وقت کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بنفس نفیس جڑانوالہ تشریف لے گئے تھے۔ متاثرہ اقلیت کو انصاف کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ ٹھیک ایک برس بعد ’جزوی انصاف ‘کر دیا گیا ہے۔ خدا بین المذاہب ہم آہنگی کے سرکاری ترجمانوں کو سلامت رکھے ،انہی خطوط پر باقی ماندہ انصاف بھی جلد سامنے آجائے گا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ملتان میںراشد رحمن ایڈووکیٹ شہید کی لاش گھر پہنچنے پراس کی گلی میں ڈھول بجائے گئے تھے۔ 2017ءمیں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے طالب علم مشال خان کے مبینہ قاتلوں کی رہائی پر جشن منایا گیا تھا نیز یہ کہ ساہیوال جیل ہی میں قید جنید حفیظ ٹھیک دس برس اور پانچ مہینے سے انصاف کی بانسری بجا رہا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ