اس ’صبح‘ کا تو ہر جمہوری سوچ رکھنے والے کو انتظار ہے جو ’جمہور‘ کیلئے طلوع ہو، جس کیلئے اس ملک کے لاکھوں لوگوں نے خاص طور پر سیاسی کارکنوں نے لازوال تاریخ رقم کی، پھانسی چڑھ کر ، جن کی پیٹھوں پر کوڑوں کے نشان آج بھی ہیں، جلاوطن ہوئے اور یہ سب ایک بہتر کل کیلئے تھا۔ بڑی امید تھی کہ طویل ’ سیاہ رات‘ ختم ہوگی تو ایک نیا سورج نئی امیدوں کے ساتھ ان مایوسیوں کو دور کرے گا فقط چہرے نہیں بدلیں گے کچھ ’نظام‘ میں بھی تبدیلی آئے گی۔ ایسا نہ ہو سکا اور ہم ایک بار پھر رات کے اندھیروں میں گم ہوگئے ۔
ہمارا ایک بڑا سیاسی المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کی توپوں کا رخ اپنے ہی قبیلے کی طرف رہا کل بھی اور آج بھی اور اس سب کا بڑا نقصان اس ’جمہور‘ کو پہنچا جس نے سیاستدانوں سے امید لگائی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اس جمہورکے تنخواہ دار طبقہ اور مڈل کلاس پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا ایسا بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ وہ ’مزاحمت‘ کے بھی قابل نہیں رہا ،اسے یا تو ’اجتماعی خودکشی‘ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے یا پھر کرپشن اور کمیشن کی طرف۔ یہی آج کا ’سیاسی کلچر‘ ہے یقین نہ آئے تو آج کے وزیروں، مشیروں اور سرکاری افسران کی طرف دیکھ لیں۔ اب ان بیچاروں کی ’پنشن‘ کوئی اس ملک کے ’ججوں‘ اور ’جرنیلوں‘کی طرح تو ہوتی نہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ریٹائر نہیں ہوتے، سو جتنا وقت ملتا ہے صرف ’اپنا مستقبل‘ سنوارتے ہیں۔ قوم تو وڑ گئی۔
اب آپ اسے ’بغاوت‘ کہیں یا ’غداری‘ مگر لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔ ایک طرف وہ اشرافیہ ہے جو اپنی کلاس کو تحفظ دے کر ٹیکسوں کا بوجھ ’عوام‘ یا ’جمہور‘ پر ڈال رہی ہے۔ تصور کریں جس ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے کی عمر میں بھی اسکول نہ جاسکیں وہاں ‘VVIP’ کلچر نافذکیا جا رہا ہے۔ اگر قانون سب کیلئے برابر ہے تو گاڑیوں کی ’نمبر پلیٹ‘ کیوں ’نیلام‘ ہوں ایک ایک کروڑ میں۔ دوسری طرف آپ پر لازم ہے کہ بجلی کا بل دیں چاہے بجلی آئے یا نہ آئے، گیس کا بل دیں چاہے گیس آئے یا نہ آئے، نالوں کا پانی پینے کے پانی میں مکس ہو جاتا ہے، سڑکوں سے پانی جاتا نہیں اور نلکوں میں پانی آتا نہیں۔ اب یہ سب ہماری سرکاری اشرافیہ کو کیا پتا۔ مجھے نہیں پتا ان میں سے کتنے لوگ کب آخری بار ’سودا‘ لینے بازار گئے ، ان بیچاروں کو کیا پتا ’ مہنگائی‘ کیا ہوتی ہے۔ جس ملک کے وزیر خزانہ خود پاکستان میں قریباً چھ ماہ پہلے اپنی غیر ملکی شہریت چھوڑ کر آئے ہوں ان سے کیا شکایت یہاں تو وزیراعظم بھی ایسے آئے جو وزارت عظمیٰ پر نامزدگی کے وقت تک قومی شناخت نہیں رکھتے تھے۔
یہی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہم نے ’اندھیرا‘ ہی دیکھا ’سویرا‘ نہیں۔ بڑے سیاستدانوں نے بڑی سیاسی غلطیاں کیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔ کل جو کچھ پی پی پی پر مارشل لا کی طویل سیاسی رات میں گزراوہی کچھ آج بھی ہو رہا ہے۔ کل مارشل لا لگنے پر مٹھائی تقسیم ہوتی تھی، بھٹو کو پھانسی ہوئی تو دائیں بازو کے اخبار نے فرنٹ پیج پر ’پھانسی کے پھندے‘ کے ساتھ نیچے مٹھائی کی دکان کا اشتہار لگایا۔ کل پی پی مخالف پی پی کی ’ٹوٹ پھوٹ‘ پر خوش تھے، پھر پی پی پی والے مسلم لیگ کی دشمنی میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ جنرل پرویز مشرف کی حمایت کر ڈالی اور اسی قافلے میں نئے ابھرتے لیڈر عمران خان بھی مشرف کو نجات دہندہ سمجھ بیٹھے، بعد میں سب کو ہی جانا پڑا۔ آج سب عمران مخالف میںپی ٹی آئی کی ’ٹوٹ پھوٹ‘ پر خوش ہیں اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ شاید انکے راستے کی بڑی رکاوٹ طویل عرصہ جیل میں رہے ،اندر کی خواہش تو اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے مگر وہ بے خبر ہیں اس گھڑی سے کہ یہ جماعت ختم بھی ہو جائے،عمران بقول احسن اقبال صاحب کی خواہش کے مطابق پانچ سال جیل میں بھی رہیں تو یقین کریں یہ ’اسپیس‘ ان کو نہیں ملنے والی۔
اس غلط فہمی میں ذوالفقار علی بھٹو بھی مبتلا رہے کہ ایک بظاہر خوشامدی جنرل ضیاء الحق کو سینئرجرنیلوں پر ترجیح دے کر آرمی چیف بنانے سے انکے خلاف سازشیں ختم ہو جائیں گی یہ جانے بغیر کہ1972 میں ان کا تختہ الٹنے کی سازش کیوں ہوئی تھی جس پر کئی فوجی اور ائیرفورس کے افسران کو سزا بھی ہوئی۔ پولیس کی ہڑتال ایسے ہی نہیں ہوئی تھی نہ ایسےہی فوج نے سویلین حکومت کی مدد سے انکار کیا تھا یہ مانے بغیر کہ فوج سویلین حکومت کے ماتحت ہوتی ہے۔ پھر ایسی ہی غلط فہمی میں پاکستان قومی اتحاد ( دائیں اور بعض بائیں بازو کا بھٹو مخالف اتحاد) منتظررہا کے مارشل لا لگے گا تو وہ شریک اقتدار ہونگے۔ مٹھائی ’تحریک نظام مصطفیٰ‘ کی کامیابی پر نہیں سویلین حکومت کی معزولی اور آمریت نافذ ہونے پر کھائی تھی۔ پھر بھی خواہشات ختم نہ ہوئیں تو بھٹو کی پھانسی کی خاموش حمایت کی گئی۔پھر 11 سال کی طویل رات کو ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ نے مکمل تحفظ دیا۔
یاد رکھیں !اقتدار جو غیر سیاسی قوتوں کی مدد سے حاصل کیا جائے پائیدار ہو سکتا ہے نہ ہی اپوزیشن ’مذاکرات‘ صرف ’اسٹیبلشمنٹ‘ کی رٹ لگا کر اپنے لیے اسپیس حاصل کر سکتی ہے۔ آج جو کچھ تحریک انصاف میں ہو رہا ہے اس کی بنیادی وجہ خود پارٹی میں جمہوریت کا نہ ہونا ہے۔ یہی المیہ ہماری باقی سیاسی جماعتوں کا رہا جس کی وجہ سے طاقتور حلقے ان کو توڑنے میں کامیاب رہے مگر کیونکہ ’مقبولیت ‘ لیڈر کی اپنی جگہ قائم رہی تو بھٹو کا سحر موجود رہا مگر بے نظیر کی شہادت کے بعدپارٹی کسی اور ہی ڈگر پر چل پڑی ہے۔ رہ گئی بات مسلم لیگ (ن) کی تو اس وقت تو شہباز کی حکومت ہے ’مائنس نواز‘ اب آپ یہ بات مانیں یا نا مانیں عملاً تو ایسا ہی ہے۔
آگے بڑھنے کا راستہ ایک ہی ہے سیاسی جماعتیں ’انتخابی جماعتیں‘ نہ بن کر رہ جائیں۔ 5 جولائی 1977 سے سبق سیکھا ہوتا تو 12 اکتوبر 1999 نہ ہوتا۔ آج بھی مسئلے کاحل ’مذاکرات‘ سے ہی نکل سکتا ہے ۔ تصور کریں جس معاشرے میں انتہا پسندی کا یہ عالم ہو کہ اونٹ کی کبھی دو تو کبھی چاروں ٹانگیں کاٹ دی جائیں، گدھے کے کان کاٹ دیئے جائیں، انسان کو زندہ جلا دیا جائے، مذہبی بحث پر بچہ بزرگ کو قتل کر دے ،وہاں ہم اب بھی اس امید کے ساتھ کہ وہ صبح کبھی تو آئے گی، یا اس عزم کے ساتھ کہ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، زندہ ہیں حالانکہ رات کا راستہ ’طویل‘ ہوتا جا رہا ہے۔ جماعتوں اور ان کے قائدین نے آج نہیں سیکھا تو تاریخ میں وہ ’جمہوریت پسند‘ نہیں ’جمہوریت کش‘ سے جانے پہچانے جائیں گے۔ ہم بہت تیزی سے انارکی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ’انارکی‘ کی اپنی اپنی اقسام ہوتی ہیں۔ جناب اعلیٰ! جو کچھ ’عوام‘ پر عذاب نازل ہوا ہے اس کا تو کوئی نوٹس، کوئی سوال، کوئی جواب تو لیں یا پھر عوام دشمن بجٹ کو مسترد کر دیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ