دلچسپ سیاسی لڑائی : تحریر مزمل سہروردی


تحریک انصاف کی موجودہ قیادت اور پی ٹی آئی حکومت میں وفاقی وزیر رہنے والے فواد چوہدری کے درمیان مخالفانہ بیان بازی روز بروز شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے اہم رہنما کھل کر فواد چوہدری کی مخالفت کر رہے ہیں۔

اس طرح سب مل کر اس اکیلے پہلوان کو گرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لوگ یہ دلچسپ سیاسی لڑائی بہت انہماک سے دیکھ رہے ہیں۔تحریک انصاف کی سیاسی قیادت الزام لگا رہی ہے کہ فواد چوہدری مشکل وقت میں پارٹی چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، ان کی اب پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

یہ لوگ دبا میں پارٹی چھوڑ کر گئے، اس لیے یہ جانیں اور دباؤ ڈالنے والے جانے، تحریک انصاف کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ اب پارٹی ان بھگوڑوں کو واپس قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ادھر ایک رائے یہ بھی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ فواد چوہدری کو تحریک انصاف کو مزید تقسیم کرنے کے لیے متحرک کیا گیا ہے۔ وہ کل بھی مخصوص قوتوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے تھے اور آج بھی ان کے ایجنڈے پر ہی کام کر رہے ہیں۔

فواد چوہدری پی ٹی آئی کے اہم رہنما رہے ہیں جب تحریک انصاف اقتدار میں نہیں تھی اور جب وہ اقتدار میں آئی فواد چوہدری نے ہر موقع پر پی ٹی آئی سے وفاداری نبھائی اور عمران خان کو اپنا قائد تسلیم کیا انھوں نے ہر محاذ پر عمران خان کے سیاسی مخالفین کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی وہ عمران خان کے سیاسی مخالفین کی جانب سے کی جانے والی تنقید کا بھی نشانہ بنتے رہے مگر انھوں نے ہر موقع پر تحریک انصاف کا علم بلند رکھا ۔

فواد چوہدری نے جو سیاسی حکمت عملی اپنائی ہے، اس کے مطابق وہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی مکمل اور غیرمشروط حمایت کر رہے ہیں۔ وہ ان کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ فواد چوہدری نے موقف اختیار کیا ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ سیاسی قیادت عمران خان کو جیل سے نکالنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے، وہ اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کر چکی ہے۔جیلوں سے رہائی پانے والے پی ٹی آئی قائدین ڈیل کی سیاست کر رہے ہیں۔ اسی لیے عمران خان کی رہائی کے لیے کوئی تحریک نہیں چلائی جا رہی ۔

اتنی بڑی سیاسی طاقت کے باوجود تحریک انصاف کوئی عوام سطح پر سیاسی لڑائی لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔تحریک انصاف کی موجودہ قیادت حکومت کی گیم کھیل رہی ہے، اسی لیے گراس روٹ لیول پر عمران خان کی رہائی کے لیے کوئی احتجاجی اور مزاحمتی تحریک نہیں موجود نہیں ہے۔ وہی ہو رہا ہے جو اسٹبلشمنٹ چاہتی ہے۔ مجھ پر اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگانے والے یہ بتائیں کہ انتخابات میں دھاندلی کے بعد عوام میں تحریک چلانے کے بجائے پارلیمان میں بیٹھنے کا فیصلہ کسے کے اشارے پر کیا گیا، اس فیصلے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرنا پڑی ہے جو اب نیا مسلہ بن گیا ہے ۔

بہرحال یہ بیانات اور دلائل کا ایسا دائرہ ہے، جسے جتنا بڑھایا جائے گا، اتنا بڑھتا جائے گا۔تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کا یہ موقف کہ فواد چوہدری ڈر کر پارٹی چھوڑ گئے، انھوں نے تکالیف برداشت نہیں کیں، کس حد تک درست ہے، اس کا پتہ تو فواد چوہدری کو ہی ہوگا، البتہ ان کا موقف ہے کہ انھوں نے بھی ایک لمبی جیل کاٹی ہے، ان کے خاندان نے بہت مصیبتیں برداشت کی ہیں، انھیں اور ان کے خاندان کو انتخابات لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سب کے کاغذات مسترد کیے گئے۔متعدد مقدمات بنائے گئے جب کہ تحریک انصاف کی قیادت ان سب لوگوں کے پاس جو ایک دن کے لیے بھی جیل نہیں گئے۔ ان پر کوئی مقدمہ نہیں بنایا گیا۔ ان سب نے آرام سے گھر میں وقت گزارا۔جو گرفتار ہو ئے، جن پر مقدمے بنے، وہ کسی کے ایجنٹ ہیں یا وہ جو آرام سے گھر میں بیٹھے رہے، بغیر جدوجہد کیے رکن اسمبلی بن گئے، وہ کسی قوت کے ایجنٹ ہیں۔

فواد چوہدری کا سوال ہے کہ جب سب پر پارٹی چھوڑنے کا دبا تھا، سب بھاگ رہے تھے، کچھ پکڑے جا رہے تھے، کچھ مفرور تھے۔ جو اس مشکل وقت میں آرام میں تھے، جن پر کوئی سختی نہیں تھی، وہ کیوں مزے میں تھے۔ ان پر اسٹیبلشمنٹ کی نظر کرم کیوں تھی، وہ اسٹبلشمنٹ کے لاڈلے کیوں رہے ہیں ، ان کو کیوں گرفتار نہیں کیا جاتا، ان پر پرچے کیوں نہیں درج ہوئے۔

پہلے یہ خود کو ملنے والی غیر معمولی سہولیات کا جواب دیں۔ جب کسی کو تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے سیاست کی اجازت نہیں مل رہی تھی، بڑے بڑے نام پارٹی چھوڑنے پر مجبور تھے، ان کو اجازت کیوں تھی۔ فواد چوہدری کے بارے میں شبلی فراز نے بھگوڑے کا لفظ استعمال کیا جب کہ فواد چوہدری کے مطابق شبلی فراز اس لیے گرفتار نہیں ہوئے کہ وہ کسی کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ یہ دلچسپ لڑائی ہے۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کو ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے دلائل بھی دیے جا رہے ہیں اور الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں۔ کیا فواد چوہدری کی اس بات میں دم نہیں کہ پی ٹی آئی کی جو موجودہ قیادت ہے اس کو اتنی آسانیاں کیوں حاصل رہی ہیں۔

فواد چوہدری عمران خان کا پرچم ہی بلند کیے ہوئے ہیں، وہ کسی عہدہ کی مانگ نہیں کر رہے۔ وہ تحریک انصاف میں عام کارکن کی سطح پر کام کر رہے ہیں۔ شاید یہ کام کرنے کے لیے انھیں کسی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تحریک انصاف کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔

وہ عمران خان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ ابھی تو کوئی ٹکٹیں بانٹنے کا موسم بھی نہیں کہ کہا جا سکتا ہے کہ فواد چوہدری ٹکٹ کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔ انھوں نے انتخاب لڑا ہی نہیں۔ ان پر تو یہ الزام بھی نہیں ہے کہ انھوں نے تحریک انصاف کے امیدوار کے مقابلے میں انتخاب لڑا ہے۔ وہ جیل میں تھے، ان کے سارے خاندان کو انتخابات سے آؤٹ کیا گیا۔ سب کو نظر آرہا تھا کہ انتخابات میں ان کے خاندان پر ریڈ لائن تھی۔ اسی لیے ان کے اس موقف میں بھی جان ہے کہ جنھوں نے انتخابات میں حصہ لیا ہے، انھوں نے کسی نہ کسی مفاہمت سے ہی ان میں حصہ لیا ہے ورنہ انھیں بھی اجازت مل جاتی۔

فواد چوہدری کی اس بات میں بھی وزن ہے کہ اگر وہ بھی ڈیل کر لیتے تو آج وہ بھی رکن قومی اسمبلی ہوتے۔ جنھوں نے سودے بازی کا کھیل کھیلا ہے، وہ وکٹ کی دونوں طرف سے اسمبلی میں پہنچ گئے ہیں۔ دونوں طرف سے ہی لوگ ان کی آشیر باد سے ہی پہنچے ہیں۔ جن کو آشیر باد نہیں تھی وہ نہیں پہنچ سکے۔

تحریک انصاف کے کارکن اور ووٹر کے سامنے دونوں کے موقف آگئے ہیں۔ وہ بہترین فیصلہ کر سکتے ہیں۔ وہ کس کو سچا اور کس کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ ان کی رائے میں کون عمران خان کا سچا سپاہی اور کون جھوٹا اور کمزور سپاہی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف کا عام کارکن تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کی کارکردگی سے خوش نہیں ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ کمزور لوگ ہیں، انھوں نے سیاسی کمزوری دکھائی ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس