الف اللّٰہ سے آگے : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


حرف الف اور ایک کا ہندسہ ایک ہی طرح لکھا جاتا ہے ، دونوں کا رْخ اوپر سے نیچے یعنی آسمان سے زمین کی طرف ہوتا ہے ۔ہمارے تمام صوفی شاعروں نے الف اور ایک کے رازوں پر مختلف حوالوں سے بات کی ہے ۔آخر یہ کیا معاملہ ہے جو صوفیا کو گنتی کے پہلے ہندسے اور پٹی کے پہلے حرف میں جکڑ کر رہ جانے پر اصرار کرتا ہے ۔وہ اپنے عشق و محبت کے لامحدود سفر اور ذات و کائنات کی تحقیق و جستجو کو ان بظاہر دو مگر حقیقتاً ایک لفط سے جوڑ کر یہیں پڑاؤ ڈال دیتے ہیں اور باقیوں کو بھی اسی منزل پر ٹھہرنے کی صلاح دیتے ہیں۔صوفی حرف الف کو حیات و کائنات کی ابتدا و انتہا سمجھتے ہوئے ایسا عالم قرار دیتے ہیں جس میں سب زمین و آسمان اور جہان موجود ہیں ، صرف اسے سمجھنے اور اسکے اندر داخل ہونے کی دیر ہے پھر خود بخود منزل کے نشان اور سفر کے اشارے ملتے جاتے ہیں ، اسکے کئی رازوں میں سب سے بڑا راز وحدت اور ایکتا ہے، قربانی ہر رشتے اور احساس کیساتھ لازم و ملزوم ہے ۔ خودغرضی حصارِ ذات میں مقید کر کےاپنی چھاؤں تک محدود کردیتی ہے جبکہ نفی ذات اپنی ذات کو کمتر سمجھنا نہیں بلکہ اپنے حصار سے نکل کر حیات و کائنات کا حصہ بن کر وسعت اختیار کرنا ہے۔ اسلئے سب سے بڑا امتحان ’میں‘ کی قربانی ہے۔نفیٔ ذات جہاں ایک مشکل مرحلہ ہے وہیں اس سے نہ گزرنے والوں کیلئے اس تک رسائی بھی ناممکن ہے ۔نفی ذات کرنے والاچند رکعتیں پڑھ کر خود کو افضل ترین نہیں سمجھتا نہ دوسروں کی زندگی اجیرن کرتا ہے بلکہ بقول بابا فرید گْناہیں بھریا میں پِھراں لوک کہن درویش کے مصداق یہ ظاہر کرتا ہے کہ گناہوں اور غلطیوں کی وجہ سے میرا لباس آلودہ اور بوسیدہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے لوگ مجھے درویش سمجھ رہے ہیں ۔میں کے حصار سے نکلنے کے بعد صوفی پہلے الف کیساتھ پہلے خیمے میں پناہ لیتا ہے جسے دل کہا جاتا ہے جہاں آنکھیں سوتی اور احساس جاگتا ہے ۔جس کی رسائی لامحدود اور ان دیکھی دنیاؤں تک محیط ہے، اس خیمے کا قیام کل وقتی ریاضت کا طلبگار ہے کیونکہ استغراق سے ہی روحانی اور باطنی دنیاؤں کی کنجیوںکا گچھا ہاتھ لگ سکتا ہے ورنہ اس خیمے سے واپسی مایوسی اور بےچینی کو جنم دیتی ہوئی بے یقینی کے اندھے کنو یں میں پھینک دیتی ہے ۔استغراق کے نتیجے میں صوفی پر ظاہر ہوتا ہے کہ سارے راز تو اسی الف کے سمندر میں پنہاں ہیں ۔اس لئے وہ اپنی ذات کو بھٹی میں صیقل کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے ۔پنجابی شاعری کا روحانیت سے گہرا سمبندھ ہے ۔رب سے تعلق استوار کرنے ، اس کی مخلوق سے ہمکلام ہونے اور ذات سے آشنائی کے لئے زمین کی دھڑکن سے جْڑنا پڑتا ہے ۔زمین کی دھڑکن اس کے دل سے پھوٹنے والے اکھروں میں سمائی ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تمام صوفیا نے اپنی ماں یعنی دھرتی کی زبان کو اظہار کا وسیلہ کیا ۔نثر میں اچھی خاصی شہرت اور محبوبیت کما لینے والے کیپٹن لیاقت علی ملک نے جب ذات کی سرمستی میں ڈوبے جذبوں کو لفظوں میں رقم کرنا چاہا تو دھرتی کی زبان کے لفظوں کی اس کے قلم سے بارش ہونے لگی اور الف اللّٰہ جیسی خوبصورت صوفیانہ شاعری کی کتاب وجود میں آگئی ۔وہ زبان جو وہ بولتا ضرور تھا مگر کبھی اس میں لکھا نہ کچھ زیادہ پڑھنے کا موقع ملا ،لیکن طاقتور عشق اظہار کی تمام کیفیتوں کا خود فیصلہ کرتا ہے ۔الف اللّٰہ کی شاعری عشق کی شاعری ہے، اس لئے اس میں دھمال جیسی سرمستی ہے ، اللّٰہ ھْو کا حال اور دوردِ پاک کا ورد ہے، اس میں ظاہری ڈھانچوں کا تصنع اور کاریگری نہیں مگر باطنی غنائیت اور آہنگ پوری آب وتاب سے موجود ہے ، روح کی صدا ھْو کے سائرن کی طرح ہر لمحہ گونجتی سنائی دیتی ہے ۔تمام شاعری ایک ہی رنگ میں رنگی ہوئی ہے اور وہ رنگ الف کا رنگ ہے، جو ہررنگ پر غالب ہے ، صرف نظر والے اس میں موجود رمز واسرار کو سمجھنے اور لطف اندوز ہونے کی سرشاری تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ۔افضال احمد عام پبلشر نہیں بلکہ باطنی طور پر اْجلے انسان ہیں اسلئے اْجلے لفظوں کی اشاعت سے دنیا کو خوبصورت بنانے کا جتن کرتے رہتے ہیں ۔اس کتاب کیلئے موقع ملنے کا انتظار نہ کیجئے ۔کوشش کر کے لفظوں کے اندر جھانکتے پیغام کو سنئے۔

الف اللّٰہ کر کے ویکھ

میں نال اپنی لڑ کے ویکھ

اللّٰہ تیرے اندر اے

اپنے اندر وَڑ کے ویکھ

بشکریہ روزنامہ جنگ