سیاسی جماعتیں کیسے کمزور ہوئیں؟ : تحریر حامد میر


اسلامی جمہوریہ پاکستان کسی جنگ یا مسلح مزاحمت کے نتیجے میں قائم نہیں ہوا تھا بلکہ یہ ملک 1947ء میں ایک سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی پرامن سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہوا۔ پاکستان قائم ہونے کے کچھ ہی عرصے کے بعد بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح وفات پا گئے اور ہمارے سیاستدانوں نے آپس میں لڑنا شروع کردیا۔ پاکستان قائم ہونے کے بعد پہلے دس سال میں سات وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔ پاکستان بنانیوالی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی اور سیاستدانوں کی اس رسہ کشی کافائدہ اٹھا کر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ پہلے مارشل لانے پاکستان کو اتنا کمزور کر دیا کہ دوسرے مارشل لا کے دور میں قائد اعظم کا پاکستان ٹوٹ گیا۔ 1947ء سے 1971ء کے دوران 24سال میں دو آئین لائے گئے۔ 1956ء کا آئین وفاقی پارلیمانی نظام کا نمائندہ تھا۔ 1962ء کا آئین پاکستان میں صدارتی نظام لایا۔ دونوں آئین فوجی ڈکٹیٹروں نے توڑ دیئے۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایک تیسرا آئین منظور کیا گیا اور اسی دور میں بھٹو صاحب ہالینڈ سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان لائے اور اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا۔ چند سال کے بعد ایک اور مارشل لا آگیا۔ پاکستان کے متفقہ آئین اور ایٹمی پروگرام کے بانی کو سپریم کورٹ کے ججوں کی ملی بھگت سےپھانسی دیدی گئی۔ اسکے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ سے سیاستدانوں کو جیلوں میںبند کرنے اور نااہل قرار دینے کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ آج پاکستان دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں سے ایک ہے لیکن اس ایٹمی طاقت کی خود مختاری کا یہ عالم ہے کہ آج پاکستان کا وفاقی بجٹ وزارت خزانہ نہیں بلکہ آئی ایم ایف بناتی ہے۔ آئی ایم ایف کو اپنے قرضوں کی واپسی سے غرض ہے اور حکمران اشرافیہ کو عوام کی نہیں بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کی فکر ہے۔ لہٰذا یہ بجٹ عام آدمی کیلئے ایک منحوس خبر بن کر آتا ہے۔ اس سال کے بجٹ نے عام آدمی اور ریاست کے تعلق کو کمزور کردیا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان تو پہلے ہی پاکستان سےبھاگ رہے تھے اب کارپوریٹ سیکٹر سے وابستہ تنخواہ دار طبقے پر اتنے زیادہ ٹیکس لگا دیئے گئے ہیں کہ وہ گروپوں کی صورت میں پاکستان چھوڑ رہے ہیں۔ اب آپ سوچئے کہ جو ملک اپنا بجٹ خود نہیں بنا سکتا اسکا ایٹمی پروگرام مزید کتنا عرصہ محفوظ رہیگا؟ اس صورتحال کا ذمہ دار کوئی ایک ادارہ یا ایک جماعت نہیں بلکہ ہم سب ہیں۔ 1947ء سے آج تک 77 برسوں میں پاکستان پر 24وزرائے اعظم نے 44سال تک حکومت کی جبکہ صرف چار فوجی ڈکٹیٹروں نے 33 سال تک پاکستان پر حکومت کی۔ ہر فوجی ڈکٹیٹر نے اوسطاً پاکستان پر سوا آٹھ سال حکومت کی اور ہر وزیراعظم نے مشکل سے ڈیڑھ سال حکومت کی۔ کوئی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا۔

یہ درست ہے کہ آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ناصرف سیاست بلکہ عدلیہ کے معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت ہے۔ اس کا سب بڑا ثبوت اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی طرف سے خفیہ اداروں کی مداخلت کے بارے میں لکھا گیا ایک خط ہے۔ تازہ مثال لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شاہد کریم کا ایک فیصلہ ہے جنہوں نے وزیراعظم آفس سے کہا ہے کہ خفیہ اداروں کو ججوں سے رابطہ کرنے سے روکا جائے۔ اس حکم کا اطلاق ان ججوں پر بھی ہوگا جو اپنی مرضی و منشا سے خفیہ اداروں کے افسران سے ملتے ہیں اور ان سے ڈکٹیشن لیتے ہیں۔ ماضی میں ہماری عدلیہ اصغر خان کیس اور فیض آباد دھرنا کیس میں سیاست میں خفیہ اداروں کی مداخلت روکنے کیلئے تفصیلی فیصلے دے چکی ہے۔ ان فیصلوں پر عملدرآمد کرانا سپریم کورٹ کیساتھ ساتھ سیاسی حکومتوں کی بھی ذمہ داری تھی لیکن دونوں ہی ان فیصلوں پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہیں۔

اصغر خان کیس میں پیپلزپارٹی کو 1990ء کے انتخابات میں شکست دینے کیلئے خفیہ اداروں کی طرف سے نواز شریف اور دیگر سیاستدانوں کو رقم دینے کے شواہد سامنے آئے۔ فیض آباد دھرنا کیس میں 2017ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف دھرنا دینے والوں کی خفیہ اداروں کے افسران کےساتھ ملی بھگت کو بے نقاب کیا گیا لیکن بعد میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں نے خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی۔ 2019ء میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دینے میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر اہم جماعتیں ایک پیج پر تھیں۔ آج پاکستان کو جن پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے ان میں سے اکثر جنرل باجوہ کے خبط عظمت کا نتیجہ ہیں لیکن ان مسائل کی اصل ذمہ داری ان سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دے کر ناصرف اپنے آپ کو بلکہ پاکستان کو کمزور کیا۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لئے سیاست میں فوج کی مداخلت کا راستہ خود ہموار کیا۔ 1954ء میں ایک سیاسی حکومت اپنے حاضرسروس آرمی چیف ایوب خان کو وزیر دفاع بنا کر کابینہ میں شامل نہ کرتی تو شاید جنرل ایوب خان کو سیاست کا چسکا نہ لگتا اور وہ 1958ءمیں اسکندر مرزا کے ساتھ مل کر اقتدار پر قبضہ نہ کرتے۔ سیاسی جماعتوں کے کمزور ہونے سے پاکستان کمزور ہوا۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ اپنی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو مضبوط نہیں کیا۔ تمام بڑی جماعتوں کے عہدیداران بلامقابلہ انتخاب کے ذریعہ قرار پاتے ہیں۔ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر 8فروری 2024ء کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف کو بلے کے انتخابی نشان سے محروم کیا گیا حالانکہ باقی جماعتوں میں بھی بلامقابلہ انتخاب کی روایت موجود ہے۔ ہمارے سیاستدان عوام کی طاقت سے اقتدار حاصل کرنے کےبجائے خفیہ اداروں کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار حاصل کرنے کے عادی ہو چکے ہیں لہٰذا یہ سیاستدان آپس میں بات کرنے کی بجائے خفیہ اداروں سے بات کرنا زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کی کمزوری کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کی قیادت عوامی حقوق کیلئے جدوجہد کی بجائے پاور پالیٹکس کی اسیر بن چکی ہے۔ ان جماعتوں کی طاقت ان کا منشور نہیں بلکہ کچھ شخصیات ہیں جو اگلے پانچ سے دس سال میں زائد المیعاد ہو جائیں گے۔ نوجوان قیادت بھی پاور پالیٹکس کے راستے پر چل رہی ہے اور اسی لئے پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ماہ رنگ بلوچ کو زیادہ پذیرائی مل رہی ہے جو انتخابی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کو سوچنا چاہیے کہ چند ہزار افراد کا جلسہ کرنے کیلئے انہیں کروڑوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں لیکن منظور پشتین اور ماہ رنگ بلوچ معمولی خرچے سے بڑےبڑے جلسے کیسے کر لیتے ہیں حالانکہ انہیں قومی میڈیا پر کوریج بھی نہیں ملتی۔ پاکستان ایک سیاسی جماعت نے بنایا تھا۔ پاکستان کو صرف سیاسی جماعتیں بچا سکتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی بقا کیلئے پاور پالیٹکس چھوڑنی ہوگی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ